احمدی مسئلہ اور اہل مذہب کا رویہ

احمدی مسئلے کے حوالے سے ہمارے ہاں جو کھچڑی پکی ہوئی ہے، وہ یہ سمجھنے کے لیے ایک اچھی مثال ہے کہ مذہبی علماء کا جدید ریاست کو سمجھنے اور دیکھنے کا انداز کتنا غیر واقعی اور غیر معروضی ہے۔ قدیم دار الإسلام میں شریعت بالادست دستور کی حیثیت رکھتی تھی اور جدید اسلامی ریاست میں بھی اس کی یہ حیثیت تسلیم کی جاتی ہے، لیکن دو بہت بنیادی فروق کے ساتھ۔

ایک یہ کہ دار الاسلام میں شریعت اس لیے بالادست دستور تھی کہ وہ مسلمانوں کی ریاست ہے جو اپنے عقیدے کی رو سے شریعت کے پابند ہیں اور حکمران کی رضامندی یا عدم رضامندی کا اس کی حیثیت کے طے ہونے سے کوئی تعلق نہیں تھا، جبکہ جدید اسلامی ریاست شریعت کی اس حیثیت کو اپنے جمہوری اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے خود اپنے لیے لازم کرتی ہے، یعنی اس کی مرضی کے بغیر شریعت کو ازخود یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔

دوسرا یہ کہ دار الاسلام میں شریعت کی تعبیر وتشريح، ریاستی انتظام کے تابع نہیں تھی، بلکہ یہ منصب مسلمان معاشرہ علماء وفقہاء کے لیے تسلیم کرتا تھا اور حکمران بھی علماء ہی کی تشریح کے مطابق شریعت کے فیصلے قبول کرنے کے پابند ہوتے تھے، جبکہ جدید اسلامی ریاست شریعت کی صرف اس تشریح کی پابند ہے جو وہ خود اپنے ادارے یعنی مقننہ کے ذریعے سے کرے۔ مقننہ کی منظوری اور تعبیر سے ماورا، شریعت جدید اسلامی ریاست کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ چنانچہ حکومتیں اور عدالتیں اتنی ہی شریعت اور اس کی اسی تعبیر کی پابند ہیں جو مقننہ نے منظور کی ہو۔

مذہبی علماء چونکہ ان جوہری تغیرات اور ان کے مضمرات پر غور کے لیے فارغ نہیں ہیں، اس لیے وہ ذہنا قدیم دار الاسلام کے ماحول میں رہتے ہوئے علماء وفقہاء کی تعبیر شریعت کے مطابق اس قسم کے مطالبات کرتے اور حکومتی پالیسیوں کو ان کا پابند سمجھتے ہیں جو جدید ریاستی فریم ورک میں سرے سے کوئی آئینی اور قانونی حیثیت ہی نہیں رکھتے، جبکہ علماء اپنے تئیں اپنے مطالبات کو بالکل بجا اور برحق تصور کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ انداز فکر صرف مدرسی علماء کا نہیں، اسلامی جمہوریت پر یقین رکھنے والے حضرات کا بھی ہے۔ یوں وہ پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جن کی ایک مثال احمدی مسئلہ ہے۔

فافہموا وتدبروا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے