وزیراعظم کو ’’قدم بڑھاؤ‘‘ والی عرضداشت

نصرت جاوید

بلوچستان کے بارے میں عرصہ ہوا میں نے لکھنا اور بولنا چھوڑ رکھا ہے۔ بنیادی وجہ اس خاموشی کی یہ ہے کہ 2012ء کے بعد سے وہاں جانے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔ میر حاصل بزنجو میرے بھائیوں جیسے دوست ہیں۔ اکثر مدعو کرتے رہتے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کبھی اسلام آباد آکر کوئٹہ لوٹ رہے ہوں تو ان کے سرکاری جہاز میں ایک نشست مجھے بھی مل سکتی ہے اور اس صوبے کے مختلف شہروں میں جانا چاہوں تو سرکاری ریسٹ ہائوسز میں کمرے بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ صوبائی حکومت کی ایسی مہربانیاں حقائق کے بارے میں میری آنکھیں بند نہیں کرپائیں گی۔ سخت سے سخت تنقید اگر کھلے ذہن کے ساتھ کی جائے تو حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک جیسے پختہ سیاسی ذہن اس کا بُرا بھی نہیں مانتے۔

سرکاری دعوت پر کسی صوبے کا ’’مطالعاتی دورہ‘‘ کرنا مجھے مگر عجیب لگتا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے ہی بلوچستان کے بارے میں جو پڑھنے اور دیکھنے کو مل جاتا ہے اسی پر قناعت کرلیتا ہوں۔
گزشتہ چند مہینوں سے بہت تواتر کے ساتھ اس صوبے سے خیر کی خبریں آرہی ہیں۔ ان خبروں کی صداقت پر شاید میں زیادہ اعتبار نہ کرتا مگر چند صحافی دوست ایسے بھی ہیں جن کے لکھے کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوں۔ ان کی متفقہ رائے ہے کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے بلوچستان کے حوالے سے حتمی اختیار رکھنے والے اداروں کے ساتھ مل کر بہت خلوص اور محنت کے ساتھ ایک حکمت عملی بنائی جس کے نتیجے میں مثبت اور امید بھرا ماحول نظر آنا شروع ہوگیاہے۔

تمام ریاستی اداروںکو باہم مل کر اب یہ کوشش کرنا ہوگی کہ یہ ماحول نہ صرف برقرار رہے بلکہ اس میں مزید توانائی آئے۔ امید بھرے اس ماحول میں زیادہ بہتری کے امکانات اس خبر کے ساتھ اور بھی روشن ہوئے کہ ’’ناراض بلوچوں‘‘ کے ایک بہت ہی اہم نام، براہمداغ بگتی نے وطن لوٹنے پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے۔ بلوچوں کے سیاسی سے کہیں زیادہ سماجی اور ثقافتی تناظر میں خان آف قلات کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اکبر بگتی کی ہلاکت کے بعد انہوں نے جلاوطنی اختیار کرلی تھی۔ مسلسل مذاکرات کے ذریعے اب ان کی واپسی کے راستے بھی ڈھونڈے جارہے ہیں۔

عید کی چھٹیوں میں لیکن میری چند لوگوں کے ساتھ سماجی واسطوں سے طویل بات چیت ہوئی۔

بلوچستان کے روزمرہّ معاملات سے وہ لوگ براہِ راست تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی باتوں سے تاثر مجھے یہ ملا ہے کہ براہمداغ بگتی اور خان آف قلات پاکستان واپس لوٹنے کے لئے جن ضمانتوں کے طلب گار ہیں، نواز حکومت انہیں فراہم کرنے کا حوصلہ نہیں دکھاپارہی۔

ریاستِ پاکستان کے چند اہم اداروں میں فیصلہ کن اختیار رکھنے والے افراد مگر نواز شریف کی ہچکچاہٹ کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ریاستی طاقت کے مؤثر استعمال نے علیحدگی پسندوں کی کمرتوڑ دی ہے۔ مختلف گروہوں میں بٹے ’’ناراض بلوچ‘‘ مایوس ہوکر باہمی الزام تراشیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ چند ایک کی بندوقوں کا رُخ تو بلکہ اب اپنے ہی چند ساتھیوں کی طرف ہورہا ہے۔

ایسے ماحول میں چند ریاستی عناصر بڑی شدت سے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ’’ناکام ہوئے‘‘ افراد کی شرائط کو فی الوقت نظرانداز کردیا جائے۔ جن تجربہ کار اور ’’برسرِ زمین‘‘ افراد سے میری گفتگو ہوئی وہ اس رویے کی بابت بہت پریشان تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ براہمداغ بگتی کی مذاکرات کے ذریعے وطن واپسی میں تاخیر ہوئی تو بلوچستان سے آئندہ کئی مہینوں تک خیر کی خبریں پھر بھی آتی رہیں گی۔ امید بھرا یہ ماحول مگر استحکام فراہم نہ کرپائے گا۔ کبھی نہ کبھی اکبر بگتی کی ہلاکت جیسا کوئی اور واقعہ ہوگیا تو ساری محنت اکارت چل جائے گی اور بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان، پاکستان کی اجتماعی ترقی اور خوش حالی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے ایک بار پھر انتشار اور مایوسی کے مناظر دکھانا شروع ہوجائے گا۔

’’ناراض بلوچوں‘‘ کے چند اہم نام ان دنوں اگر مذاکرات پر آمادہ ہیں تو اس کی وجوہات بہت ٹھوس اور واضح ہیں۔ صرف ریاستی طاقت کا بھرپور ا ستعمال اس کی واحد وجہ نہیں۔ کہیں زیادہ مؤثر یہ حقیقت بھی ہے کہ ڈاکٹر مالک اور ان کے ساتھیوں نے اپنے ’’شدت پسند‘‘ ماضی کو بھلاکر مایوس بلوچوں کو سیاسی دھارے میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ صوبائی حکومت کے بارے میں سفاک بدعنوانیوں اور بے درد لاتعلقی والی وہ کہانی اور رویے بھی نظر نہیں آرہے جو رئیسانی حکومت کے پانچ سالوں کے دوران مستقل طورپر موجود رہے۔

ریاستی اداروں کے مابین صحت مند مکالمے کے ذریعے تراشی حکمت عملی کے پُرخلوص استعمال کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں میں یہ احساس بڑی شدت کے ساتھ اُجاگر ہورہا ہے کہ اگر انہوںنے ریاستِ پاکستان کے مقاطعے اور پہاڑوںمیں روپوش ہوکر اس سے مقابلے کی فضا برقرار رکھی تو بلوچ نوجوانوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جائے گا۔

بلوچستان کے مخصوص تناظر میں بلوچ نوجوانوں کی تعلیم، روزگار اور معاشی حوالوں سے بہتر مستقبل کے امکانات کا تقابل وہاں بسے پشتونوں سے کیاجارہا ہے۔ کوئٹہ یونیورسٹی کے مختلف دوروں کی وجہ سے میں نے اپنے تئیں بھی آج سے کئی سال پہلے یہ دریافت کیا تھا کہ اس ادارے کے پشتون طالب علموں میں علم ہنر کے ذریعے معاشی طورپر آگے بڑھنے کی تڑپ اپنے بلوچ ہم عصروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید ہے۔

براہمداغ بگتی خود بھی نسبتاََ جوان آدمی ہے۔ حکومتی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے موصوف بلوچ اور پشتون نوجوانوں کے مابین مستقبل کے امکانات کے حوالوں سے خوفناک حد تک بڑھتے اس فرق پر بہت متفکر نظر آئے۔ اس سے براہِ راست مذاکرات کرنے والی کم از کم ایک شخصیت کا بلکہ اصرار ہے کہ براہمداغ کو بلوچ اور پشتون نوجوانوں کے مابین بڑھتا ہوا یہ فرق ہی وطن لوٹنے پر مجبور کررہا ہے۔

وزیر اعظم کو اس تڑپ کا احساس کرتے ہوئے کھلے دل کے ساتھ کوئی جرأت مندانہ قدم اٹھانا ہوگا۔ اگرچہ ذاتی طورپر مجھے شبہ ہے کہ ان دنوں 1857ء والے بہادر شاہ ظفر نظر آنے والے نواز شریف میں سیاسی حوالوں سے پیش قدمی کرنے کی سکت موجود نہیں رہی۔ وزیر اعظم سے ’’قدم بڑھائو‘‘ والی عرض کرنے میں پھر بھی کوئی حرج نہیں۔ ’’لگدا تے نئیں‘‘ مگر شاید ہوہی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے