جلال الدین حقّانی کون تھے؟

حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقّانی امریکہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھے جاتے تھے۔ جلال الدین حقانی سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہوئے اُن کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے تھا ۔

حقانی نے پاکستان کے ایک مدرسے دارالعلوم حقانیہ میں تعلیم حاصل کی۔ مدرسے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں۔

جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں جن میں سے ایک کا تعلق متحدہ عرب امارات سے جبلہ دوسری کا تعلق عرب نسل سےہے ۔حقانی کو سنی اکثریت کی خلیجی ریاستوں میں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

علالت کے باعث حقانی نے اپنے گروپ کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین کو سونپ دی تھی۔ وہ گروپ کے نائب امیر کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ خلیل الرحمن حقانی ، جسے امریکہ نے غیر ملکی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، گروپ کے لیے فندز جمع کرتا ہے۔ سٹین فورڈ یونیورسٹی کے ایک ریسرچ پیپر کے مطابق وہ اپنے گروپ میں ہتھیاروں کی تربیت اور تقسیم کا کام بھی کرتا ہے۔

حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔

یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔

انس حقانی، جلال الدین حقانی کی عرب نسل کی بیوی سے ہے اور ان دنوں أفغانستان میں قید ہے ۔ اسے ایک مقامی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ حقانی نیٹ ورک نے اس سزا کے خلاف دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔

عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔

نائن الیون کے بعد حقانی روپوش ہو گئے اور کئی مہینوں کے بعد وزیرستان میں سامنے آئے جہاں انہوں نے اپنا گروپ تشکیل دیا۔ اس گروپ نے افغانستان میں جتنا نقصان نیٹو کو پہنچایا کسی اور گروپ نے نہیں پہنچایا۔

ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ جلال الدین حقانی کو عربی پر عبور حاصل تھا جس کی وجہ سے حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے اور اس دوران ان کے سعودی اور پاکستانی اداروں کے ساتھ رابطے بھی استوار ہوئے، جبکہ طالبان دورِحکومت میں وہ وزیر پر بھی رہے۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔

حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔

مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ تر فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔

حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

افغانستان میں نیٹو اور افغان افواج پر حملوں، کابل سمیت مختلف علاقوں میں شدت پسند واقعات کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔

حقانی نیٹ ورک افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں کنڑ اور ننگرہار اور جنوب میں زابل، قندھار اور ہلمند میں مضبوط گروپ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

امریکا کی جانب سے دہشت گرد گروہ قرار دیے جانے والے حقانی نیٹ ورک پر بہت زیادہ خود کش حملے کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انہیں افغانستان کے اعلیٰ عہدیداروں کے قتل اور غیر ملکیوں کے مبینہ اغوا میں بھی ملوث ٹھہرایا جاتا ہے۔

ان کے انتقال کے حوالے سے اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ وہ کس مرض میں مبتلا تھے جبلہ 2008 اور 2015 میں بھی ان کے انتقال کی افواہیں پھیلی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔ پیرانہ سالی کا شکار جلال الدین حقانی گزشتہ 10 سال سے بیمار تھے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ فالج کے اثر اور دیگر عوارض کے باعث چلنے پھرنےسے بھی معذور تھے۔افغان طالبان کی جانب سے منگل کو ٹوئٹر پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں جلال الدین حقانی کی موت کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ ایک عرصے سے بیمار تھے۔

امریکی ادارے سائٹ انٹیلی جنس گروپ نے افغان طالبان سے منسوب بیان کو رپورٹ کیا ہے جس میں جلال الدین حقانی کے انتقال کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ ادارہ سفید فام انتہا پسندوں سمیت مختلف عسکری گروپوں کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کےلئے قائم کیا گیا ہے۔

جلال الدین حقانی کی علالت کے باعث گزشتہ کئی برسوں سے ‘حقانی نیٹ ورک’ کی سربراہی ان کے بیٹے سراج الدین حقانی کے پاس ہے لہذا امکان ہے کہ جلال الدین حقانی کے انتقال سے ان کے حامی جنگجووں کی تنظیم اور کارروائیوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

طالبان ترجمان نے اپنی گفتگو میں حقانی کو "ایک عالمِ دین اور مثالی جنگجو” بھی قرار دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے