زید حامد سے نیاز مندی، انکے انکشافات اور حقیقت

انسان خطا کا پتلا ہے اور کالم نگار کو اپنا سودا بیچنے کے لئے اکثر پھکڑپن کا سہارا بھی لینا پڑجاتا ہے۔ کالم فروشی کی مجبوری نے مجھے بھی ایک عرصے تک گمراہ رکھا۔ قبلہ زید حامد نامی دانشوراور ماہر دفاعی امورکو ”لال ٹو پی والا“ کہتے ہوئے ان کی متعارف کردہ 5th Generation Warکا مذاق اڑاتا رہا۔ قبلہ نے غضب ناک ہوکر مجھے ”اشتہاری مجرم“ بنادیا۔ میں گھبرا گیا۔ گھبراہٹ میں اپنی سوچ سے دوبارہ رجوع کیا تو احساس ہوا کہ قبلہ زید حامد کی نگاہِ مردمومن تو بہت زیرک ہے۔بہت سی ایسی معلومات جنہیں مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹر”حساس“ شمار کرتے ہیں ان کے پاس موجود ہوتی ہیں۔

وہ بلاخوف انہیں اپنے ٹویٹر پیغامات کے ذریعے عیاں کردیتے ہیں۔ کئی بار تو انہوں نے قومی سلامتی سے جڑی چند حقیقتوں کو Breaking Newsکی صورت بیان کیا۔ حساس معلومات تک ان کی رسائی اور انتہائی پیچیدہ دفاعی معاملات کو آسان الفاظ میں بیان کرنے کی مہارت نے مجھے بالآخر شرمندہ کردیا۔ میں ان کے لکھے ہر ٹویٹ کو اب بہت غور سے پڑھنے کاعادی ہوچکا ہوں۔ اکثر اوقات انہیں Retweetکرتے ہوئے ماضی کی خطاﺅں کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ خبر نہیں زیدصاحب کی جلالی طبیعت نے میری عقیدت کا نوٹس لیا ہے یا نہیں۔ میں بہرحال ان کی شفقت کا طلب گار ہوں۔

آج سے چند روز قبل زید حامد صاحب نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے دعویٰ کیاکہ پاکستان کے ایک اہم مذہبی سیاسی رہنما نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے چند فراریوں سے رابطہ کیا اور انہیں وزیر اعظم عمران خان صاحب کے قتل پر اُکسایا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میں شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود مذکورہ سیاسی رہ نما سے ذاتی طورپر بہت شناسا ہوں۔ ان کے ساتھ نجی محفلوں میں چھیڑچھاڑ کا سلسلہ بھی رہتا ہے۔ فقرے بازی میں لیکن شائستگی کے تمام لوازمات کو برقرار رکھتے ہوئے بھی مذکورہ رہ نما نے ہمیشہ مجھ ایسے پھکڑبازوں کو زچ کیا۔ زید صاحب کی حساس ترین معلومات تک رسائی کا معترف ہونے کے باوجود لہٰذا مجھے ان کی بتائی خبر پر اعتبار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔

اس کے بعد مگر وزیر اعظم عمران خان صاحب کی ہمارے ملک کے سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز کے ایک وفد سے ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات میں بہت سے امور پر کھل کے باتیں ہوئیں۔ نظربظاہر مگر ملاقات میں خاور مانیکا اور پنجاب میں فروغِ ثقافت کے لئے مامور ہوئے فیاض الحسن چوہان سے متعلق معاملات نے بہت سا وقت لے لیا۔ تاہم چند اہم اور سنجیدہ باتیں بھی ہوگئیں۔ ان میں سے کچھ کو ”آف دی ریکارڈ“ ٹھہرایا گیا۔

وزیر اعظم کی سینئر صحافیوں سے ملاقات کی بدولت میڈیا میں سب سے زیادہ چرچا مگر فرانسیسی صدر کی ٹیلی فون کال کارہا۔ صحافیوں سے ملاقات کے دوران جب محترمہ تہمینہ جنجوعہ صاحبہ نے بطور سیکرٹری وزارتِ خارجہ پاکستان کے وزیر اعظم کو یہ اطلاع دی کہ فرانسیسی صدر لائن پر ہیں تو عمران خان صاحب نے بے اعتنائی سے فرمایا کہ وہ جانتے ہیں کہ مجھے مبارک باد دینے کے لئے فون کیا ہوگا۔ اسے بتادیا جائے کہ فی الوقت یہ کال نہیں لی جاسکتی۔ آدھے گھنٹے بعد دوبارہ رابطہ کریں۔

عمران صاحب نے اپنے اس رویے سے ثابت کردیا کہ وہ واقعتا ایک نئے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ کسی گورے کا فون آئے تو سب کچھ چھوڑ کر اسے ریسیوکرنے اپنے کمرے کی طرف بھاگنا شروع نہیں ہوجاتے۔ قلندرانہ بے نیازی اختیار کرتے ہیں۔

وزیر اعظم ہی کے لگائے وزیر خارجہ نے مگر معاملے کی اہمیت کو دبانے کی کوشش کی۔ مخصوص ”مخدومی“ انداز میں یہ تاثر دیتے رہے کہ شاید فون لائن کی دوسری طرف فرانسیسی صدر نہیں اس کا سٹاف تھا جو پاکستان کے وزیر اعظم سے اپنے صدر سے ٹیلی فون پر بات کے لئے وقت طے کرنے کا طلب گار تھا۔

اس سارے قضیے میں لیکن ایک اہم ترین خبر میرے اعتبار سے قطعاََ Killہوگئی۔ وزیر اعظم صاحب کے ساتھ پاکستان کے سینئر ترین صحافیوں اور اینکر خواتین وحضرات کے ساتھ جو مکالمہ ہوا اس میں عمران صاحب کی جان کو شدید خطرات کا ذکر بھی ہوا۔ اس ضمن میں VVIPپروٹوکول اور سکیورٹی کے مابین فرق اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

وزیر اعظم کی جان کو درپیش سنگین خطرات کا ذکر کرتے ہوئے چند گرفتاریوں کا انکشاف بھی ہوا۔ باتوں باتوں میں غالباََ ”آف دی ریکارڈ“ ایک مذہبی /سیاسی رہ نما کا ذکر بھی ہوا۔ ہمارے دو سینئر ترین اینکروں نے بہت ملفوف انداز میں یہ خبر اپنے دیکھنے والوں کو فراہم کردی اور یہ خبر وہی تھی جو قبلہ زید حامد صاحب اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے بہت پہلے منکشف کرچکے تھے۔

یہ بات گویا ثابت ہوگئی کہ ایک مذہبی /سیاسی رہ نما ہیں۔موصوف کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ٹھوس وجوہات کی بنا پر کم از کم سماجی روابط سے انکار ممکن نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ وہ رہ نما کون ہیں۔ یقینی بات ہے مولانا سمیع الحق تو ہونہیں سکتے۔ وہ تحریک انصاف کے اتحادی ہیں۔ ان کے تاریخی مدرسہ حقانیہ کے لئے خیبرپختونخواہ حکومت نے ایک خطیر رقم بھی مختص کی تھی۔ علامہ خادم حسین رضوی صاحب کا مسلکی وجوہات کے سبب TTPوالوں سے تعلق ناممکن ے۔ ویسے بھی وہ جلسے جلوسوں کے عادی ہیں۔ فی الوقت جہاد بالسیف کی طرف مائل نہیں ہوئے، بہت سوچا تو ذہن صرف اسی رہ نما پر اٹک کررہ گیا جن سے شدید نظریاتی فاصلے کے باوجود میرے ذاتی مراسم بہت خوش گوار اور کافی پرانے ہیں۔

موصوف کو ذاتی طورپر جانتے ہوئے میرے لئے یہ الزام ہضم کرنا ناممکن ہے کہ وہ عمران خان صاحب کےساتھ شدید ترین اختلافات کے باوجود انہیں سازش کے ذریعے TTPکے ہاتھوں سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے چکر میں مبتلا ہیں۔جس مذہبی/سیاسی رہ نما پر یہ الزام لگایا جارہا ہے انہوں نے 1980کی دہائی سے انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ اس امر پر زور دیا کہ مذہبی رہ نماﺅں کو پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے سیاسی عمل میں حصہ لینا ہے۔

اسلام کا نفاذ اس ملک میں صرف منتخب پارلیمان میں بنائے قوانین کے اطلاق کے ذریعے ہوگا۔

مذکورہ سیاسی رہ نما کی اس سوچ نے اس ملک میں مذہب کے نام پر فساد برپا کرنے والوں کو ہمیشہ بہت ناراض کیا۔

ان کی ذات پر اس وجہ سے کم از کم تین حملے بھی ہوچکے ہیں اور وہ ان حملوں سے محض خوش قسمتی کے سبب محفوظ رہے۔ میں بہت وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ مذکورہ مذہبی/سیاسی رہ نما اپنی روایتی سوچ پر اب بھی قائم ہیں۔ اگرچہ اب یہ خدشہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ ان پر لگایا مگر بہتان سنائی دیتا الزام کہیں انہیں اپنی روایتی سوچ سے رجوع کرنے پر مجبور نہ کردے۔
٭٭٭٭٭

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے