انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ’پولیس اہلکار سب سے آسان ہدف‘

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال شدت پسندوں کے ہاتھوں کم سے کم 31 پولیس اہلکار مارے گئے۔

بی بی سی ہندی کے سمیر یاسر نے رپورٹ کیا ہے کہ کس طرح ریاستی پولیس فورس بغاوت کا بوجھ برداشت کر رہی ہے؟

پولیس اہلکار محمد اشرف ڈار کو 22 اگست کو ان کی ایک سالہ بیٹی کے سامنے ان کے باورچی خانے میں قتل کر دیا گیا۔ اس روز عید الحضٰی کا دن تھا۔

45 سالہ سب انسپیکٹر محمد اشرف ڈار کا تبادلہ مرکزی کشمیر میں کر دیا گیا تاہم انھیں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ چھٹی گزارنے گھر پر آنا پڑا۔

ان کا خاندان کشمیر کے جنوبی ضلع پلواما میں رہائش پذیر ہے۔ اس خطے نے جولائی سنہ 2016 میں انڈین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے مشہور عسکریت پسند رہنما برہان الدین وانی کی ہلاکت کے بعد علاقے میں تشدد کی ایک نئی لہر دیکھی ہے۔

اس خطے میں تشدد بڑھنے کے بعد سے پولیس اہلکار جن میں متعدد مقامی مسلمان پولیس اہلکار شامل ہیں سب سے آسان ہدف ہیں۔

جموں کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل شیش پال وید کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران پولیس اہلکاروں کو نصیت کی گئی کہ وہ اپنے گھروں کو جانے سے گریز کریں۔ اگر وہ اپنے گھر جاتے ہیں خاص طور پر جنوبی ریجن میں ’بہت زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

[pullquote]’اپنے علاقے میں شدت پسندی کے خلاف جنگ‘[/pullquote]

پولیس اہلکار محمد اشرف ڈار کے ساتھیوں نے بتایا کہ محمد اشرف کو اپنے دوستوں اور خاندان کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ گھر سے دور رہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھیں چھپنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’کیا میں چور ہوں؟ میں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا ہے۔‘

محمد اشرف کے والد غلام قادر کا کہنا ہے کہ ’اپنے علاقے میں شدت پسندی کے خلاف جنگ ایک مقامی پولیس اہلکار کی زندگی میں ایک ایسی سٹرک پر چلنے کے برابر ہے جہاں باروی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔‘

مسلم علیحدگی پسندوں نے سنہ 1989 کے بعد سے مسلم اکثریتی علاقے میں انڈین حکمرانی کے خلاف تشدد کا آغاز کیا۔ اس علاقے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع جاری ہے اور دونوں نے اس پر تین سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ انڈیا ایک طویل عرصے سے پاکستان پر اس علاقے میں بدامنی کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتا ہے جس کی پاکستان تردید کرتا ہے۔

سنہ 1990 کی دہائی کے آخر سے شروع ہونے والی شدت پسندی میں سنہ 2016 میں مشہور عسکریت پسند رہنما برہان الدین وانی کی ہلاکت کے بعد تیزی آئی ہے۔ جب کشمیری سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں تو انڈیا کی سکیورٹی فورسز ان کے خلاف ’پیلٹ گنز‘ استعمال کرتی ہیں۔

انڈین فورسز کا کہنا ہے کہ پیلٹ گنز کی وجہ سے درجنوں افراد ہلاک اور 1500 سے زیادہ افراد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں اندھے ہو چکے ہیں۔

انڈین فورسز کی جانب سے پیلٹ گنز کے استعمال کے بعد سے عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تعداد بھی اضافہ ہوا ہے۔

انڈین پولیس کے مطابق صرف سنہ 2017 میں 76 شدت پسند ہلاک ہوئے جو گذشتہ ایک دہائی میں ہلاک ہونے والوں میں سب سے زیادہ ہیں۔ پولیس کے مطابق رواں برس جنوبی کشمیر میں اب تک 66 شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

انڈین حکومت نے کشمیر میں پولیس اہلکاروں کی شناخت اور ان کے خاندانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے دہائیوں تک کو انھیں ان کے اپنے قصبوں یا قریبی علاقوں میں تعینات نہیں کیا تھا۔ تاہم کشمیر کے جنوبی قصبوں جیسا کہ پلواما میں مقامی نوجوانوں کے شدت پسندی میں شامل ہونے کے بعد پولیس کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ دنوں کے دوران کسی شدت پسند گروپ نے یہ نہیں کہا کہ انھوں نے کسی پولیس اہلکار کو ہلاک کیا ہے۔

انڈین پولیس غیر سرکاری طور پر ان حملوں کا الزام شدت پسند گروہوں جیسا کہ حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ پر عائد کرتی ہے۔

[pullquote]’میری بیٹی کی معصوم آنکھوں نے سب کچھ دیکھ لیا‘[/pullquote]

ان آدمیوں جنھوں نے محمد اشرف ڈار کو قتل کیا، جانتے تھے کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔ انھوں نے ان کے گھر دھاوا بولا، ان کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے، ان کے کندھوں پر رائفلیں تھیں۔ محمد اشرف اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔

انھوں نے محمد اشرف ڈار کی بیوی شیلا غنی پر بندوق تان کر کہا ’ اپنا منہ بند رکھو۔‘ انھوں نے شیلا غنی اور ان کے دو بیٹوں 12 سالہ جبران اشرف اور سات سالہ محمد اویم کو ایک کونے کی جانب دھکیلا۔

جبران نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے میرا ہاتھ کھینچا اور مجھے سے پوچھا کہ میرے والد کہاں ہیں؟

جب اشرف ڈار اپنی ایک سالہ بیٹی عرج کے ساتھ گھر واپس آئے تو وہ انھیں زبردستی باروچی خانے میں لے گئے اس وقت ان کی بیٹی کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ جب محمد اشرف نے اپنی بیٹی کا ہاتھ چھوڑنے سے انکار کیا تو انھوں نے ان پر تشدد کیا اور ان سے ان کی بیٹی کو الگ کر دیا۔

محمد اشرف ڈار نے ان سے کہا ’تم میرے بھائیوں کی طرح ہوں۔ میں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔‘

محمد اشرف کی بیوی جو دوسرے کمرے میں موجود تھیں سب کچھ سن سکتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے گولیوں چلنے کی آواز سنی، محمد اشرف موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’میری بیٹی کی معصوم آنکھوں نے سب کچھ دیکھ لیا‘

جنوبی کشمیر کے 68 سالہ کشمیری شہری عبدل غنی کا کہنا ہے ’کیا پولیس اہلکار کشمیری نہیں ہیں؟ پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا کر شدت پسند اپنا کیس خراب کر رہے ہیں۔‘

جون سنہ 2017 میں ایک اور واقعہ میں ایک پولیس اہلکار محمد ایوب کو سری نگر میں ہلاک کر دیا۔ انھوں نے چند نوجوانوں کے ساتھ جگھڑے کے بعد مبینہ طور پر ہجوم پر گولی چلائی تھی۔

پولیس کانسٹیبل محمد سلیم جولائی سنہ 2018 کے بعد لاپتہ ہیں۔ ان کی تشدد زدہ لاش اگلے روز سیب کے ایک باغ سے ملی۔

حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال میں اب تک پولیس کے خاندان کے کم سے کم 12 افراد کو اغوا کیا جا چکا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے