کیا کبھی آپ نے ان مزدوروں کے بارے میں سوچا؟

ملک پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے لئے جب سے آزادی کے پلیٹ فارمز بنے ہیں معاشرے کی آنکھ نے بہت سے مسائل کے لئے متعلقہ حکام کی توجہ مبذول کروائی ملکی سیاست معیشت غرض کہ ہر شعبے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے والے جیسے تیسے کر کے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں حالیہ الیکشن کے بعد نئی انتظامیہ نے ملکی انتظام اپنے ہاتھ میں لیا اور یوں ایک اور جمہوری حکومت کا نیا سفر شروع ہو گیا نو منتخب وزیر اعظم نے اپنے متعدد بیانات اور تقریروں میں بہت سنہرے سپنے دکھائے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بادشاہ سلامت کی جانب سے شاہی فرمان جاری کیا گیا ہو کہ کھانا ، کپڑا اور رہائش کے ساتھ ساتھ صحت اور تعلیم کی ذمہ داری حکومت کی ہو گی

لیکن مجھ سمیت میری طرح کے گمنام لوگ اس حسین خواب پر پھولے نہیں سما رہے کہ آج کے بعد صرف ہماری یعنی غربا کی بات ہی ہو گی

حکومت کی جانب سے ووٹ کے حصول کے لئے ہمیں ہی موضوع بحث بنایا جاتا ہے کہ ہمیں حکومت ملی تو ان لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں گے اور یہ لوگ ہماری زندگیاں بدلتے بھی ہیں ہر بار نئی حکومت نئے دعوے اور مہنگائی کے طوفان سے زندگی مزید مشکل بنا کر بدل دیتی ہے

تحریر کا لب لباب جاننے سے پہلے مزدور نام کا مطلب اچھی طرح سے ذہن نشین فرما لیں ہمارے یہاں کی روایت کے مطابق مزدور اسے کہتے ہیں جسکے چہرے پر فکر کے طمانچوں سے جھریاں پڑی ہوئی ہوں

جو اپنی اولاد کو تعلیم تو دلوانا چاہتا ہے مگر وسائل نہ ہونے کے باعث اسکے بچے بھی اسکے ساتھ کسی اینٹوں کے بھٹے پر کام کر رہے ہوتے ہیں تاکہ پیٹ کا جہنم کسی طرح بھرا جا سکے مزدور وہ ہے جو اپنے گاؤں سے دور شہر میں محنت مشقت کے لئے آتا ہے اور دن میں ایک سوکھا ٹکڑا روٹی کا کھا کر گزارا کرتا ہے

رزق کماتے ہوئے کبھی عمارت کے ملبے تلے اسکی لاش ملتی ہے یا کبھی کرنٹ لگنے سے تمام دکھوں سے نجات پا جاتا ہے نیا خواب سجاتے ہوئے ڈرنے والے قبیلے کو مزدور کہا جاتا ہے سوئے ہوئے بچے کو یہ مزدور اسلئے نہیں جگاتا کہ بچے کا نیا خواب جاگ گیا تو اسے پورا کس طرح کرے گا؟؟؟؟

یہ مزدور آزاد مملکت کا باسی ہے اور خود اپنے آپ میں قید رہتا ہے اکثر اسکی جواں سال بیٹی جہیز اور کنگن نہ ہونے کے باعث تمام عمر یا تو کسی شہزادے کے انتظار میں گزار دیتی ہے یا خودکشی کر کے باپ کا بوجھ ہلکا کر دیتی ہے

میرے شہر کے مختلف علاقوں میں چوراہوں پر مزدور صبح سویرے صاحبوں کی گاڑیوں کو جاتا دیکھ اپنی روزی کی آس میں سڑک کنارے جمع ہوتے ہیں چوک گھنٹہ گھر میں یہ مزدور گھنٹہ گھر کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں کہ شاید شہر کے وسط میں ہی کچھ روزگار کا انتظام لگ جائے لیکن شام تک اسی آس میں بیٹھے یہ مزدور بھوکے پیٹ ہی شہر کے وسط میں اشرافیہ اور حکومت پر سوالیہ نشان چھوڑ کر سڑک کا بستر اوڑھ کر سو جاتے ہیں

میں بھی ایک مزدور ہوں میں قلم کا مزدور ہوں میرے ساتھی مزدوروں کے بارے میں کسی بھی دن کوئی نام نہاد این جی او یا ٹی چینلز کے بڑے بڑے اینکرز نے ایک لفظ ادا نہ کیا حکومت کے تو کیا ہی کہنے بس ووٹ کی خاطر غریبوں کی چوکھٹ پر قدم رکھنے والے کیا جانیں کے اس ملک میں دیگر مزدوروں کے ساتھ ساتھ صحافی کس اذیت میں اپنے شب و روز کاٹ رہا ہے

میں اور مجھ جیسے میرے صحافی دوست ہمہ وقت ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں ادارے کی نوکری اور پھر اپنی سوچوں کی نوکری جو سوتے جاگتے ہر وقت کرنا پڑتی ہے کیونکہ ہم لوگ اس سماج کا آئینہ ہیں مگر اچھوت ہیں سب کے لئے اپنے اداروں کے لئے حکومت کے لئے اور ان لوگوں کے لئے بھی جن کی ہم آواز بنا کرتے ہیں

ہم لوگ روز اپنی کئی خواہشات کا گلہ گھونٹ کر گھر سے ماں کی دعا لیکر نکلتے ہیں اور اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے ہیں ، مجال ہے کسی ایک فرد نے بھی ہمارے حق مین زبقن کھولی ہو ہم شاید مزدور نہیں کسی کے زر خرید غلام ہیں کہ بس اپنی خواہشات اور احساسات کو دبا کر جینا ہمارا فرض ہے اور بس چپ رہنا ہماری ذمہ داری

میڈیا آزاد ہونے سے آج تک ہم ہر دور میں سچائی کو پھیلانے کے لئے کوششیں کرتے آرہے ہیں لیکن آج تک ہمارے لئے نہ تو کسی حکومتی نمائیندے نےایوان میں آواز اٹھائی نہ کسی وزیر نےہمارے لئے اپنے فائدے جیسی کوئی سکیم متعارف کروائی

میڈیا نگری کا بھیانک اور خوفناک چہرے پہ روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ پچھلی حکومت سے بھاری معاوضے ایڈز کی مد میں وصولنے والے پاکستان کے سب سے بڑے ادارے ڈان نیوز نے حکومت بدلتے ہی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا نواز حکومت کی جانب سے پیسہ اور سپورٹ ملنا بند ہوئی تو نقصان کے ازالے کے لئے اس ادارے نے غریب صحافیوں کی فہرستیں مرتب کر کے اپنا بوجھ ہلکا کر لیا حیدر آباد سٹیشن بالکل بند کر دیا گیا جبکہ سندھ سے ٹوٹل 7 رپورٹر فارغ کر دئیے فیصل آباد سٹیشن سے ایک انجینئیر ڈان ٹی وی کا اور ایک انجینئیر ایف ایم 89 سے فارغ کر دیا

یہ ہی صورتحال جیو نیوز ، وقت نیوز اور دیگر ادسروں کی ہے جہاں صحافی دن رات کام کر رہے ہیں وقت نیوز میں پچھلے تین ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی ملازمین نے عیدیں ادھار اٹھا کر منائیں

اور دکھ کی بات تو یہ ہے ایوانوں میں مہنگی گاڑیوں پر پہنچنے والے وہ منتخب نمائیندے جنکی آواز ہم بنا کرتا ہیں کبھی انہوں نے ہمارے لئے کوئی بل اسمبلی میں جمع نہ کروایا کسی چیف جسٹس نے ہماری اس بے کسی کا نوٹس نہیں لیا کہ کس طرح اس ملک کے سب سے بڑے مافیہ سیٹھ مافیہ نے ورکر صحافی کا جینا دو بھر کر رکھا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بھی 18 بیس ہزار روپے کی نوکری کرنے والوں کو بلا جواز نوکری سے نکال دیا جاتا ہے سیٹھ کا مفاد خطرے مین ہے تو ڈون سائزنگ کر دو سیٹھ کا کاروبار نقصان میں ہے چینل سے صحافی چھانٹ دو سیٹھ کو حکومت نے للکارا ہے فارغ کر دو یہ صحافی مفادات کے لئے کام نہیں کر پا رہے

تعلیم کی شرح کم ہے کا رونا رونے والے مجھ جیسے مزدوروں کے لئے کبھی نہیں بولتے سیاستدانوں کی کرپشن بے نقاب کرنے والے بڑے بڑے اینکرز اور دانشور بھی اس تناظر میں آواز نہیں اٹھانا چاہتے کیونکہ انہیں لاکھوں میں تنخواہیں مل رہی ہیں وہ کیوں ان اچھوتوں کے لئے بولیں گے جن کے دم سے ان کے پروگرام ہٹ ہوتے ہیں

ہم 8 کی بجائے 12 سے 16 گھنٹے کی ڈیوٹی بھی سرانجام دیتےہیں ہماری کوئی نجی زندگی نہیں ہے ہم بس گھر جا کر سوتے ہیں

ماں سے صرف چند کلمات کا تبادلہ کرتے ہیں چھوٹے بھائی کے مسائل سننے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہے نہ ہی ہم اپنے باپ کو اپنا دکھ سنا سکتے ہیں کہ جن بیٹوں کو مشقت اور محنت سے پالا ہے وہ کس طرح ایک ماتحت غلام کی سی زندگی جی رہے ہیں

کہنے کو ہم صحافی ہیں سچ کے راستے کے مسافر شاید یہی ہماری خطا ہے کہ ہمارے لئے آج تک ہمارے ہی ملک میں کوئی قانون نہ بنایا جا سکا ٹیکس ہم بھرتے ہیں

قومی خزانے کو لوٹنے والے اشرافیہ کے بچوں کے بیرون ملک عیاشیوں کے خرچے میں ہمارا بھی حصہ شامل ہے لیکن ہمیں برابر حقوق کبھی نہ ملے

لیکن خیر کوئی بات نہیں

اس ملک میں سرکاری ملازم ہی انسان ہیں باقی ہم جیسے نجی اداروں کے نوکر دل تھوڑی رکھتے ہں کہ کسی بجٹ میں ہماری تنخواہیں بھی بڑھائی جائیں یا صحافت کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو بھی کبھی مراعات سے نوازا گیا ہو ہم نے کبھی ان گناہ گار آنکھوں سے ایسے معجزے ہوتے نہیں دیکھے کسی سیانے نے سچ کہا تھا کہ خواب کی لذت تب تک ہی محسوس کی جا سکتی ہے جب تک آپ بیدار نہیں ہو جاتے

ہم جیسوں کے تو ویسے بھی خواب نہیں ہوتے کیونکہ ہم تو اچھوت ہیں ہم صحافی ہیں نا اسلئیے ، بڑی بڑی تنخواہیں لیکر ہماری محنت پر پروگرام جمانے والے نام نہاد اینکرز بھی ہمارے لئے کبھی نہیں بولیں گے حالانکہ یہ سب سکرینز پر بیٹھ کر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم سچ کا ساتھ دینے والے ہیں ہم مظلوموں کے مسیحا ہیں وغیرہ وغیرہ

ہماری بے کسی اور آہوں پر کسی نے کان دھرنے کی زحمت تھوڑی نا کرنی ہے کیونکہ سیٹھ مافیہ کا بزنس ملکی معیشت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ایسا حکومت کو لگتا ہے حکومت ان سے جنگ مول لے کے ہمارے حق میں کیوں کوئی قدم اٹھائے گی کیونکہ ہم ہی تو وہ لوگ ہیں جو کرپٹ حکمرانوں اور اس ملک کو کھوکھلا کرنے والوں کے خلاف بولتے ہیں سیٹھ کا جی چاہا تو ہمیں جب مرضی نکال پھینکے کیونکہ ہم بوجھ ہیں اور بے بہا بوجھ

اب ان مزدوروں کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا جنہیں اداروں نے نکال پھینکا ہے اس سوال کا جواب چیف جسٹس وزیر اعظم یا شاید ان لوگوں کے پاس بھی نہیں جو خود کو دانشور کہلاتے ہیں

لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ جلو میں صد انقلاب رقصاں
نہ جانے آئے ہیں کس جہاں سے یہ حشر ساماں سے لوگ ساقی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے