چین اور امریکہ ایٹمی حریف

گورڈن جی چینگ‘ عالمی امور میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ‘متعدد کتابوںکے مصنف بھی ہیں۔ ان کی رائے کو امریکہ میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔قارئین کی دلچسپی کے لئے ان کا ایک خاص مضمون پیش خدمت ہے۔

”حالیہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین اب ان جگہوں پر امریکہ کی فوجی بالا دستی کو چیلنج کر سکتا ہے‘ جو اس کے لئے اہمیت کی حامل ہیں: تائیوان کے ارد گرد کا سمندری علاقہ اور متنازعہ جنوبی چین کا سمندر۔ اخبار کے الفاظ میں‘ اسی لئے بیجنگ اب اس خطے میں ایسی مداخلت کر سکتا ہے‘ جس پر توجہ دینا واشنگٹن کیلئے بے حد گراں ثابت ہو گا۔ بد قسمتی سے امریکہ کے پالیسی ساز حلقوں میں ایسے اندازے لگانے کی باتیں اکثر سننے میں آتی ہیں اور یہ عمل پہلے سے تکبر کے شکار چینیوں کو مزید دلیر بنا سکتا ہے اور ان کی جانب سے ایڈونچر ازم اور جنگ کے اندیشوں کو بڑھا سکتا ہے۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ چین اور امریکہ کے مابین پیسیفک (بحرالکاہل) کے علاقے میں کسی بھی نوعیت کا تنازعہ تیزی سے ایک ایٹمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ چین کے پاس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے۔ اس معاملے میں (نیوی کے حوالے سے) اس نے ابھی پچھلے سال ہی امریکہ کو پیچھے چھوڑا ہے اور وہ اپنے بحری بیڑے کی طاقت میں حیران کن تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے اعداد و شمار‘ چین کی برتری کو ظاہر کر رہے تھے‘ جن کے مطابق چین کے پاس 317 بحری جہاز اور آب دوزیں تھیں‘ جبکہ امریکہ کے بحری جہازوں اور آب دوزوں کی تعداد اس سے کم یعنی 283 تھی۔

یہ واضح نہیں ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی نیوی (PLAN) کتنی صلاحیت کی حامل ہے؟ کیونکہ وہ سمندر میں تاحال کسی بڑی جنگی کارروائی کا حصہ نہیں بنی ہے اور کُلی اہلیت‘ افادیت اور صلاحیت کی بات کی جائے ‘تو اس کے بحری بیڑے اتنے جدید نہیں ہیں جتنے کہ امریکہ کے ہیں۔ تاہم بہت سے معاملات میں چین کو کچھ برتری حاصل ہے۔ اس کے بحری اثاثے اس کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ مرکوز‘ مرتکز اور تعینات ہیں جبکہ امریکی بحری فورسز پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ علاقہ جہاں امریکہ اور چین کے مابین کوئی تنازعہ سر اٹھا سکتا ہے اور تصادم کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ وہ چین سے قریب تر اور امریکہ سے دور ہو گا۔ اور چین کے پاس کچھ مخصوص ہتھیار ایسے ہیں‘ جو امریکہ سے بہتر ہیں۔ خاص طور پر اینٹی شپ میزائل۔ پھر چین بہت سے غیر ترکیبی راستے اور طریقے بھی استعمال کر رہا ہے۔

جیسے مچھلیاں پکڑنے والے جہازوں کو بھی ہتھیاروں سے لیس کرنا اور ان پر فوجیوں کو تعینات کرنا۔ اس حوالے سے لِٹل بلیو مین کا نام خاص طور پر لیا جاتا ہے‘ جو ایک بحری ملیشیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

چینیوں کو ایک اور برتری بھی حاصل ہے: یہ عزم‘ ارادہ اور خواہش کہ دوسروں کے پاس جو چیز موجود ہے‘ اسے طاقت کا استعمال کر کے‘ اپنے قبضے میں لے لیا جائے۔ اپنے ارد گرد کے سمندروں میں انہوں نے پیراسیل جزیروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ قبضہ 1974ء میں سائوتھ چائنا سمندر کے شمالی حصے میں ویت نام سے ایک مختصر جنگ کے نتیجے میں ہوا۔ چینیوں نے 1994ء کے اواخر سے 1995ء کے آغاز تک ‘کارروائیوں کے ایک پورے سلسلے کے بعد‘ فلپائن سے مس چیف ریف ہتھیا لی تھی۔ اسی طرح انہوں نے 2012ء میں منیلا سے سکاربورو نامی کم گہرے پانی والا علاقہ چھین لیا تھا۔ اب چین سائوتھ چائنا سمندر میں فلپائن کے کچھ دوسرے علاقوں پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے اور ایسٹ چائنا سمندر میں ان غیر آباد چھوٹے جزیروں کے ایک پورے سلسلے پر قبضہ جمانے کی کوششوں میں ہے‘ جو اس وقت جاپان کے کنٹرول میں ہیں۔

اس کے علاوہ بیجنگ دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی ایئرفورس اور نیوی کو واضح طور پر چیلنج پیش کرتا رہا ہے۔ اس کی جانب سے امریکی طیاروں‘ بحری جہازوں اور ڈرونز کو خطرات لاحق کئے جاتے رہے ہیں۔ دسمبر 2016ء میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جسے جنگ سے کم کا عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہوا یوں کہ امریکی بحریہ کے بوڈووچ نامی بحری جہاز کے بالکل قریب ایک امریکی ڈرون کو بین الاقوامی پانیوں میں گرا دیا گیا تھا۔ یہی نہیں مارچ 2009ء میں بیجنگ نے امریکی بحریہ کے سائوتھ چائنا سمندر میں گشت کرنے والے ایک بحری جہاز کو اپنی ملیشیا کے ذریعے ہراساں کیا تھا۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اسے امریکہ پر حملے کے مترادف تصور کیا گیا تھا۔

بلا شبہ چین ہر طرح سے ان معاملات میں شدت لانے کے راستے پر گامزن ہے۔ لیکن نیو یارک ٹائمز نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹنگ میں چین کی جانب سے اس خطے میں موجود امریکی فورسز کو در پیش کئے گئے کسی ایک خطرے یا دھمکی کی نشاندہی بھی نہیں کی گئی‘ یعنی کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں دی جس سے یہ واضح ہوتا ہو کہ چین کوئی ایٹمی حملہ کرنا چاہتا ہے۔ انٹرنیشنل اسیسمنٹ اینڈ سٹریٹیجی سینٹر کے رچرڈ فشر نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ”علاقائی جنگی معاملات میں‘ خصوصی طور پر ایشیا میں‘ پیپلز لبریشن آرمی ایٹمی ہتھیاروں سے پوری طرح لیس ہے ۔ اگر چین اپنے ضائع شدہ علاقوں کو واپس حاصل کرنے کیلئے جارحانہ فوجی مہموں کا جواز پیش کرنے کے سلسلے میں دفاعی سیاسی میدان تیار کر لے تو پھر ہمیں چین کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

مثال کے طور پر ہم توقع کر سکتے ہیں کہ چین حملے کے بعد سمندر میں جوہری ہتھیاروں کا عملی اظہار کر سکتا ہے تاکہ امریکہ اور جاپان کی فوجوں کو تائیوان کی مدد سے روک سکے‘ حتیٰ کہ اس اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ چین تائیوان کے دفاع میں آنے والی امریکی فورسز کو مدد فراہم کرنے والی جاپانی بیسز کو اپنے جوہری ہتھیاروں کا نشانہ بنا سکتا ہے‘‘۔

امریکہ کے منصوبہ سازوں کو اس بارے میں بھی فکر مند ہونا چاہئے کہ چین کا ملٹری پارٹنر یعنی روس کسی بھی تنازعہ کی صورت میں چین کا ہی ساتھ دے گا۔ ستمبر 2016ء میں دونوں ملکوں کی فوجوں نے سائوتھ چائنا سمندر میں جوائنٹ آئی لینڈ سیزنگ مشن یعنی کسی جزیرے پر قبضہ کرنے کی مہم کی ڈرل‘ پریکٹس کی تھی۔ ماسکو‘ ایشیا میں پیدا ہونیوالی کسی بھی مخدوش صورتحال کا فائدہ اٹھائے گا تاکہ اپنی سرحدوں کو یورپ کی جانب مزید پھیلا سکے۔ اس مقصد کیلئے وہ غالباً ” لِٹل گرین مین‘‘ کا استعمال کرے گا‘ جیساکہ اس نے 2014ء میں کریمیا اور بعد ازاں یوکرائن میں کیا تھا۔

روس کے سربراہ‘ ولادیمیر پوٹن نے خبردار کیا ہے کہ روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کا جارحانہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ امریکی فارن پالیسی کونسل میں کام کرنے والے سکالر‘ سٹیفن بلینک نے بتایا ” روس‘ کریمیا میں ایٹمی ہتھیار ذخیرہ کرنے کی جگہ تعمیر کر رہا ہے اور بحرہ روم کی جانب ایٹمی ہتھیار ساتھ لے جانے والے کروز میزائل نصب کر رہا ہے۔ چین نے پہلے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنے کی پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن چینی جنرلز اور سفارت کاروں کے عوام میں دئیے گئے بیانات کا جائزہ لیں تو یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ بیجنگ ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی پر کاربند رہ سکے گا؟چین اور روس کے ان معاملات کا نوٹس لیا جا چکا ہے۔ چین ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر اکٹھے کر رہا ہے۔

شمالی کوریا نے اس ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کی اور حال ہی میں اس نے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ ایران‘ بیجنگ اور پیانگ یانگ (شمالی کوریا کا دارالحکومت) کا دوست ملک ہے اور ایٹمی ہتھیار بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ روس بھی اپنی ہمسایوں کو تسلسل کے ساتھ دھمکانے میں مصروف ہے‘ خصوصی طور پر تین بالٹک ریاستوں کو‘ جو سب کی سب نیٹو کی رکن ہیں اور یوکرائن کو بھی‘ جو نیٹو کا رکن نہیں ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب ایک نیوکلیئر ایج میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے