کیا آپ سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہیں؟

کیا واقعی آپ سوشل میڈیا سے دور ہونا چاہتے ہیں؟ مسئلے کی نوعیت ایسی ہے کہ پہلے فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے۔

آپ جن مسائل کا شکار ہیں اگر آپ کے خیال میں وہ سوشل میڈیا کا استعمال ختم کرنے سے دور ہو سکتے ہیں تب تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کی پرابلمز آپ کے خیال میں اس وجہ سے نہیں ہیں تب بھی آپ کو دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

نوے فیصد امید یہی ہے کہ مسئلے کی جڑ سوشل میڈیا پہ ضائع ہونے والا وقت ہو گا۔ یہ وہ ٹائم ہے جس میں پرانے زمانے کا آدمی دنیا جہان کے سارے دھندے نمٹا لیتا تھا بلکہ اپنے بہت سارے بچوں کو باہر لے جا کر قلفی بھی کھلا آتا تھا۔

آپ نے آخری مرتبہ کوئی کتاب بغیر ڈسٹرب ہوئے، ایک ہی تسلسل کے ساتھ، کسی بھی نوٹیفیکیشن کی آواز کے بغیر کب پڑھی ہے؟ بلکہ اب تو یہ پوچھنا بہتر ہو گا کہ آخری مرتبہ کتاب پڑھنے کا خیال کس کتاب کو دیکھ کر آیا تھا؟ کسی ای بک کو دیکھ کر؟ ای بک کی سب سے بڑی موج یہ ہے کہ بندہ ڈاؤن لوڈ کر لے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس نے پڑھ بھی لی۔ ایسا نہیں ہوتا استاد، کتاب پڑھنا وقت مانگے ہے اور وقت کا بیوپار سب کا سب ہم لوگ فیس بک، انسٹا اور ٹوئٹر کو سونپ چکے!

ہم لوگ چھوٹے تھے تو سارے بچے روز شام کو گلیوں میں رج کے سائیکلیں چلاتے تھے، بھاگتے دوڑتے تھے، فٹبال یا کرکٹ کھیلتے تھے، کوئی نہ کوئی مشغلہ ایسا ہوتا تھا کہ رج کے پسینہ آتا تھا اور رات کو نہا کے سونا پڑتا تھا۔ اب سائیکلنگ، فٹبال، کرکٹ، سبھی کا سب وہیں ہوتا ہے آٹھ بائے آٹھ کے کھوپچے میں، نہ کپڑوں میں پسینہ آئے گا، نہ ان میں داغ لگیں گے اور بچے کی صحت بھی نام خدا کاؤچ پوٹیٹو والی ہی ہو گی۔ یہی بچے بڑے ہو کے ہماری آپ کی طرح سوشل میڈیا کی نذر ہو جائیں گے۔ کبھی سوچا ہے اصل مسئلہ کہاں ہے؟

سوشل میڈیا کی علت کا شکار ہونے والی 100 فیصد آبادی موبائل یا ٹیبلٹ پہ اسے استعمال کرتی ہے۔ لیپ ٹاپ کے زمانے میں آخر ہر کوئی آرکٹ کا دیوانہ کیوں نہیں تھا؟ اگر تھا بھی تو رات کو دو ڈھائی گھنٹے کے بعد چھٹی ہو جاتی تھی، اب سوشل میڈیا میں ایسا کیا ہے؟ ادھر دو چیزیں ہیں جو ہم سب کو گھمائے ہوئے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا ایپ دوسرے ٹچ سکرین۔

آپ ایک کام کریں، تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ اپنے موبائل سے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر کی ایپس ڈیلیٹ کر دیں۔ فیس بک میسنجر یا جو باقی دھندے ہیں انہیں بھی اڑا دیں۔ پہلا کام پتہ ہے کیا ہو گا؟ بیٹری بچے گی ۔۔۔ ڈھیر ساری بچے گی۔

ان تین کے علاوہ اگر سنیپ چیٹ آپ کے پاس ہے تو اسے سب سے پہلے ان انسٹال کریں، وہ تو اسٹرا کے ساتھ باقاعدہ سٌڑک سٌڑک کر بیٹری پیتا ہے۔ ایپس اڑنے کے بعد دوسرا کام یہ کریں کہ وائے فائے اور ڈیٹا بھی آف کر دیں۔ ایک گھنٹہ ایسے گزاریں اور کائنات کا سکون اپنے اندر اترتا محسوس کریں۔ اس کے بعد ڈیٹا یا وائے فائے آن کر دیں۔ کچھ ہوا؟ جب کوئی ایپ ہی نہیں ہے تو کیا ہو گا؟

سوائے واٹس ایپ کے اب آپ کا موبائل ایک دم سکون میں ہو گا۔ واٹس ایپ پہ کتنے میسج آئے دس، پندرہ بیس؟ کوئی فوت ہوا؟ نہیں! کوئی اہم خبر؟ نہیں! کوئی ایسا میسج جو مس ہو گیا تو کروڑوں کا نقصان ہو جائے گا؟ نہیں! تو پھر ہر فارغ انسان کے فارورڈ میسج کا نشانہ آپ کیوں بنتے ہیں؟

چونکہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ اسی چکر میں نکل گیا ہے اب آپ اپنے موبائل یا ٹیبلٹ کے براؤزر میں جا کے فیس بک، انسٹا یا ٹوئٹر پہ لاگ ان کریں۔ بے شک سب پہ اکٹھا کر لیں۔ کوشش کریں براؤزر پہ ان تینوں چیزوں کو استعمال کرنے کی، مزا ہی نہیں آئے گا۔ کومنٹ کا جواب دینا عذاب لگے گا، میسنجر پہ لوگوں کے میسجز آئیں گے بھی تو کوئی گھنٹی نہیں بجے گی، انسٹا پہ کوئی لائک کرے گا تو جھانک کر کوئی پش اپ میسج یہ نہیں بتائے گا کہ بھائی جان مطیع الرحمن بھٹی نے آپ کی تصویر پسند کی ہے۔ آہستہ آہستہ آپ کو لگے گا کہ یار یہ کیا مصیبت ہے، کچھ کرنے میں مزا ہی نہیں آ رہا ۔۔۔

وہی بس اصل نشے کے ٹوٹنے کا وقت ہے۔ اگر وہ ایپس ایک مہینے تک آپ دوبارہ انسٹال نہیں کرتے تو سمجھیں آپ ولی ہیں، کر لی تو پہلے کی طرح ویہلے!

ہوتا یوں ہے کہ ان ایپس کے پیچھے ماہر لوگوں کے ہزاروں دماغ اکٹھے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ فیس بک کی ایپ کیا صرف اکیلے مارک زوکر برگ نے بنائی ہے؟

ظاہری بات ہے پوری ٹیم ہے۔ وہ ٹیم کیا عام تام بندوں کی ہو گی؟ ظاہر ہے اپنی فیلڈ کے ذہین تر لوگ ہوں گے۔ جب اتنے سارے اعلیٰ دماغ مل کر کوئی چیز بنائیں گے تو کیا وہ اسے عوام کی پسندیدگی کے معیار تک لانے میں کوئی کسر چھوڑیں گے؟ ہو ہی نہیں سکتا۔

نتیجہ کیا ہو گا کہ جو بھی سوشل میڈیا ایپ آئے گی وہ سادہ ترین فیچرز اور نشے کی حد تک دماغ اور انگوٹھے کو پسند آنے والی ہو گی۔ موبائل فون ایجاد ہونے سے پہلے انگوٹھے کا مقصد کیا تھا، کبھی سوچا آپ نے؟

چیزوں کو پکڑنے میں انگلیوں کی مدد کرنا یا کسی کو اوکے کی آواز لگانی ہو تو انگوٹھا دکھا دینا یا سڑک پہ لفٹ مانگنا، یہ تینوں کام دن میں آپ کتنی مرتبہ کرتے تھے؟ ادھر آ کے سمجھ آتی ہے کہ انسان ہزاروں سال کے ارتقائی عمل (ایولیوشن) سے گزر کے بھی انگوٹھا کیوں کر بچا لایا۔

اندرکھاتے کہیں نہ کہیں جینز کو معلوم ہو گا کہ بابا بیسویں صدی میں کچھ ایسا گھڑمس ایجاد ہو گا کہ سارے معرکے انگوٹھوں سے ہی مارے جائیں گے۔ تو جب آپ ایپس اڑا دیں گے تو انگوٹھے والے کچھ کام بہرحال پورے ہاتھ یا انگلیوں کو بھی کرنے پڑیں گے، یہی سہولت سارے فساد کی جڑ ہے! دماغ ادھر ہے یا نہیں انگوٹھا چلے جا رہا ہے اور وقت پگھلے جا رہا ہے۔

آٹھ ماہ پہلے میں پوری شدت سے اسی مسئلے کا شکار تھا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یار دنیا میں دوسرے لوگ کیسے اتنا سارا کام کر لیتے ہیں۔ ایک دن موبائل کی سکرین ٹوٹ گئی۔ یہ پچھلے بارہ مہینوں میں ضائع ہونے والا تیسرا موبائل تھا۔ غصے میں آ کے فیصلہ کیا کہ اب سمارٹ فون نہیں لینا۔ چھوٹا سا بٹنوں والا فون ڈھائی ہزار کا لیا اور دنیا بدل گئی۔

اب کوئی منظر اچھا لگے تو بجائے کیمرہ نکالنے کے اسے آنکھوں میں محفوظ کرنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔ جسے کوئی بہت ہی ضروری کام ہو بس وہی فون یا میسج کرتا ہے۔ چوبیس گھنٹے کی ٹوں ٹوں ختم ہو چکی ہے۔ اس فون کی بیٹری ایک چارج کے بعد پانچ دن چلتی ہے۔ جب ختم ہو تو آدھے گھنٹے میں پھر فل ہو جاتی ہے۔

رات کو سونے سے پہلے موبائل اور پاور بینک چارج کرنے کی زحمت نہیں پڑتی۔ ہر ضروری کام کے لیے بہت سا وقت ہوتا ہے۔ کوئی ضروری کام نہ ہو تو لکھنے پڑھنے، گانے سننے، بچوں سے گپ شپ کرنے یا ایویں پیدل گھومنے کے لیے بھی ڈھیر سارا ٹائم مل جاتا ہے۔ ایک دو دن بعد رات کو وہی ٹوٹا ہوا مردار فون آن کر کے پورا سوشل میڈیا جھانک لیا جاتا ہے۔ باقی دفتری کاموں کے لیے خدا نے ای میل کی نعمت بخشی ہوئی ہے۔

تو کل ملا کے سوشل میڈیا ایپس سے نجات فلاح کا بہترین راستہ ہے۔ بھلے صرف سمارٹ فون سے انسٹال کر لیں بھلے ڈھائی ہزار والا فون جیب میں ڈال کے جنگلوں میں نکل جائیں، نروان اور مکتی تبھی ملے گی جب چوبیس گھنٹے کی ٹوں ٹوں سے جان چھوٹے گی۔ آزمائش شرط ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے