امریکہ کافروں کا ملک ہے ، پاکستانیوں کی اکثریت امریکیوں سے نفرت کرتی ہے ، پاکستانی امریکی نظام سے نفرت کرتے ہیں، ہمارے علماء اکثر جمعوں میں امریکہ کی تباہی کی دعائیں کرتے ہیں ، وہ چاہتے ہیں امریکی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں ، امریکی نظام درہم برہم ہو جائے مگر امریکہ دن بدن آگے بڑھ رہا ہے ، وہ عروج کی منازل طے کر رہا ہے جبکہ ہماری دعائیں وہیں اٹکی ہوئی ہیں ، ہمارے آنسو اور الفاظ ضائع جا رہے ہیں ، قدرت دن بدل نہیں رہی ، کیوں نہیں بدل رہی اس سوال کا جواب آخر میں دیتے ہیں ،
ایک طرف کافر امریکہ اور دوسری طرف میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیس سعودیہ ہے ،سعودیہ سے ہر پاکستانی محبت کرتا ہے ، ہمارے ہاں مکہ مدینہ میں ننگے پاوں چلنا سعادت سمجھا جاتا ہے ، لوگ سعودیہ کی خاک سے بھی پیار کرتے ہیں ، وہاں کی ہواؤں اور فضاؤں کو جھک کر سلام کرتے ہیں ، غریب عمر بھر روپیہ روپیہ جمع کر کے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر جانا چاہتا ہے ، ہمارا ہر حکمران سعودیوں کو خوش رکھتا ہے ، پاکستانی عربیوں سے محبت رکھتے ہیں ، پاکستان میں آل سعود کے خلاف بھی بات نہیں سنی جاتی ، آل سعود کی حفاظت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ، ہمارے ہاں ایسی تنظیمیں اپنا وجود رکھتی ہیں جو سعودیہ پر قربان ہونے کا دعوی کرتی ہیں ، سعودیہ کہے تو ہمارا آرمی چیف سعودی اتحاد کا سربراہ بن جاتا ہے ، فوج سعودیہ کی حفاظت کے لیے تیار کھڑی رہتی ہے ، میاں نواز شریف کی جلاوطنی ہو یا مشرف پر مقدمے کی بات ہم سعودیہ کو نظر انداز نہیں کر سکتے ، ہمارے ایٹمی پروگرام میں بھی سعودیہ کی مدد شامل ہے ،
اتنا کچھ ہونے کے باوجود دونوں ملکوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، لوگ امریکہ کو گالی دیتے ہیں مگر ویزہ امریکہ کا لینا پسند کرتے ہیں ، ہماری خواہش ہوتی ہے کہ مزدوری کے لیے سعودیہ کی بجائے امریکہ کا رخ کیا جائے ، عمر سعودیہ کی بجائے مغرب میں گزاری جائے ، کیا کبھی کسی نے اس تضاد پر غور کیا ہے ؟ لوگ جس ملک کو گالی دیتے ہیں اس ملک کے ویزے کے لیے تڑپتے کیوں ہیں ؟ اور جس ملک میں ننگے پاوں چلنا سعادت سمجھتے ہیں وہاں مزدوری سے کیوں بھاگتے ہیں ؟ صرف تین مثالیں ہیں جو حالیہ دنوں کی ہیں ، آپ جان جائینگے ایسا کیوں ہے ؟
کوئی ایک ماہ قبل امریکی ریاست ٹیکساس میں مانسہرہ کے ایک پاکستانی نوجوان کا قتل ہوا ، ادھر قتل ہوا اور ادھر خبر گھر پہنچ گئی ، لوگوں کی آمدورفت شروع ہو گئی ، اکثر لوگ سمجھ رہے تھے کہ لاش امریکہ سے پاکستان آتے آتے کوئی دس پندرہ لگ جائینگے مگر لاش دو سے تین روز میں پاکستان پہنچی ، جنازہ ہوا اور اب امریکہ میں کیس چل رہا ہے ، یہ ایک کافر ملک میں قتل ہونے والے پاکستانی نوجوان کی کہانی ہے ،
دوسری طرف سعودیہ ہے ، سعودیہ کے شہر العیس میں چکوال کے رہائشی مقصود احمد کو ہارٹ اٹیک ہوا ، ہارٹ اٹیک جان لیوا ثابت ہوا ، لوگ متحرک ہوئے ، کوششیں شروع ہوئیں ، دو ہفتے گزر گئے ابھی تک لاش وہیں پڑی ہے ، میں نے ذاتی طور پر سعودی حکمرانوں کے قریب سمجھے جانے والی ایک شخصیت سے کہا مگر کچھ نہیں ہوا، دیگر کئی سماجی کارکنوں سے بات کی مگر بات نہیں بنی ، ابھی یہ حادثہ ذہن سے محو نہیں ہوا کہ میرے پچپن کے دوست اور پیارے بھائی واصب علی نے ایک اور کیس بھیج دیا جس پر پہلے سے بھی زیادہ افسوس کیا جائے تو کم ہے ،
یہ واقعہ حافظ آباد کے رہائشی اعظم خان کیساتھ پیش آیا ، اعظم خان کام کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا اور وہیں ڈھیر ہو گیا ،اسکی لاش اٹھائی گئی اور لا کر الہفوف شہر کے اسپتال میں رکھ دی گئی ، یہاں بھی کچھ لوگ متحرک ہوئے ، ضروری کاغذات پورے کیے اور لاش گھر پہنچانے کا انتظام کیا ،مگر وہی رکاوٹیں اور وہی فضول قوانین آڑے آئے ، لاش ایک ماہ سے سعودی سرد خانے پڑی ہے ، اعظم خان کا کفیل ہی غائب ہے ، باقی تمام معاملات کلئیر ہو گئے کفیل غائب ہے ، کفیل لیبر آفس (مكتب العمل) میں پیش نہیں ہو رہا ،کفیل سعودی شہری ہے ، غائب وہ ہے اور سزا پاکستانی لاش کو دی جا رہی ہے ، معلوم نہیں کیوں ؟ کیا سعودیہ اپنے شہری کو حاضر کرنے کے لیے ایک وقت کا تعین نہیں کر سکتا؟ افسوس دنیا کو انسانیت سکھانے والے نبی کے شہر میں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے اور ہم سب خاموش ہیں ، کوئی سعودی حکمرانوں تک یہ بات نہیں پہنچاتا کہ انکے اس رویے کی وجہ سے اہل پاکستان کے دلوں پر کیا گزرتی ہے ؟
امریکہ کافر ہو کر دو دن نہیں لگاتا اور سعودی مسلمان ہو کر لاش بے یار و مددگار کیوں چھوڑتے ہیں ؟ کیا ایک ماں کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ بیٹے کی لاش پر رو سکے ؟ ایک ماہ تک لاش باہر پڑی رہے اور حکومتیں چپ رہیں تو یہی زوال کی علامتیں ہوتی ہیں ، میری پاکستانی اور سعودی حکومتوں سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کو مل بیٹھ کر حل کریں ، تین دن سے زیادہ لاش نہیں رکھنی چاہیے ، ہر روز دروازے پر نگاہیں رکھنا آسان کام نہیں ، غریب لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اگر نبی کے شہر کا رخ کرتے ہیں تو سعودیہ انکے لیے رحمت والا کردار ادا کرے ، میری اپنے صحافی بھائیوں کی خدمت میں بھی درخواست ہے کہ ایک دن سماجی موضوعات کو بھی دے دیا کریں ، یہ قوم سیاست میں غرق ہو چکی ہے ، اسے دیگر مسائل سے دلچسپی ہی نہیں مگر اہل دانش تو جانتے ہیں کہ مسائل اور انکا حل کیا ہے ؟ ہفتے میں ایک پروگرام ایسا بھی کر لیں جس پر ضمیر مطمئن ہو ، ریٹنگ کم سہی مگر توشہ آخرت بھی تو ہو ؟ کوئی نیکی ایسی بھی ہونی چاہیے جس پر اترایا جا سکے ، خدا کرے یہ دونوں واقعات آخری ثابت ہوں ، سعودیہ اور پاکستانی حکومتیں اپنا کردار ادا کریں اور یہ مسئلہ ہمیشہ حل ہو تاکہ کل کسی اور مقصود اور اعظم خان کی ماں کو یہ دن نہ دیکھنا پڑے_