عاطف میاں ۔۔۔ پہلا اوور مکمل ہوا، کھیل جاری ہے

عاطف میاں کی تقرری کا فیصلہ واپس ہونا ہی تھا ، ہو گیا ۔ دل میں مگر جو بال آ گیا ہے اس کا کیا کریں ؟ اعتبار کے موسم کتنے نا معتبر ہوتے ہیں ؟

لوگ خوش ہیں کہ فیصلہ واپس ہو گیا ۔ کچھ ایسے سادہ لوح بھی ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ فیصلہ واپس لینے پر عمران خان کی بصیرت کے اعتراف میں اول بغلیں بجائی جائیں پھر ان کی دانائی اور مومنانہ فراست کے قصیدے لکھے جائیں ۔ کاش میں ان دونوں میں سے کسی ایک بے وقوفی کا متحمل ہو سکتا ۔

خوشی کس بات کی ؟ سیدنا علیؓ نے فرمایا تھا : اقتدار آدمی کو بدلتا نہیں ، بے نقاب کر دیتا ہے ۔ دس دنوں میں یہاں نقاب اتر گئے ہیں تو کیا یہ خوش ہونے کا مقام ہے ؟ فیصلہ واپس ہوا ہے تو ان نابغوں کی بصیرت کی وجہ سے نہیں ، خلق خدا کی وجہ سے جس نے اس نا مبارک فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

مجھے اس بات سے بھی اتفاق نہیں کہ حکومت پسپا ہو گئی ۔ ہر گز وہ پسپا نہیں ہوئی اس نے صرف پینترا بدلا ہے ۔ وہ کسی بھی وقت ، کسی بھی محاذ پر کوئی نیا معرکہ شروع کر سکتی ہے ۔ معاملہ ختم نہیں ہوا یہ پہلا اوور تھا جو مکمل ہوا ۔

یہ بد گمانی بے سبب نہیں ۔ عاطف میاں کا فیصلہ اچانک نہیں ہوا کہ اسے محض ایک غلطی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے ۔ یہ عمران خان کا شعوری فیصلہ ہے ۔ یہ نام آپ کو یاد ہو گا چند سال پہلے سامنے آیا جب عمران خان نے کہا جیت گیا تو عاطف میاں ان کی ٹیم کا حصہ ہوں گے ۔ شور مچا تو کہا میں تو عاطف کو جانتا تک نہیں ، کسی میگزین میں نام پڑھا کہ بہت بڑے ماہر معیشت ہیں تو میں نے یہ بات کہہ دی ۔لازم تھا کہ اس ابتدائی رد عمل کے بعد عمران محتاط رہتے ۔ لیکن انہوں نے اس کے باوجود عاطف کو چنا کہ وہ جانتے تھے یہ سماج اس معاملے میں کتنا حساس ہے۔ اس لیے اسے ایک شعوری فیصلہ سمجھا جائے گا۔

میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ اس فیصلے کا مقصد معیشت کی بہتری نہیں تھا ۔مشیروں کی بارات اکٹھی کر کے تماشا تو لگایا جا سکتا ہے ، معیشت بہتر نہیں ہوا کرتی ۔ اس کا مقصد سماج کے اندر قادیانیوں کے بارے میں موجود حساسیت کو ختم کرنا تھا ۔

موقع بھی بہت اچھا تھا ۔ عمران کی حکومت تھی جو مذہبی طبقے سے بے نیاز تھی ۔ ایم ایم اے میں شامل دو نمایاں مذہبی جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کے تعلقات شدید تلخ ہو چکے تھے ۔ تحریک انصاف کا کارکن فضل الرحمن اور سراج الحق کے بارے میں نا پسندیدگی رکھتا ہے اور مولانا کے بارے تو بہت شدید ۔ شاید یہ سوچا گیا ہو کہ مذہبی سیاست سے بے زار کارکن اس معاملے میں بھی عمران خان کے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہو گا ۔ جزوی طور پر ایسا ہوا اور ہم نے دیکھا کہ عمران کی محبت میں چند احمقوں نے اس فیصلے کی بھی تحسین کر دی لیکن مجموعی طور پر تحریک انصاف کے وابستگان نے اس فیصلے کو شدت سے ٹھکرا دیا ۔ خود پارٹی کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھیں کہ قیادت ششدر رہ گئی ۔ بے بسی میں اسے فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ اس سے مطمئن ہونے کی ضرورت ہے نہ خوش ہونے کی ۔

عمران کو معلوم تھا پاکستان میں ختم نبوت کا معاملہ کتنا حساس ہے ۔ پھر بھی یہ فیصلہ سامنے آتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ کیا کوئی رہنما صرف ایک عاطف میاں کی خاطر اتنا نامقبول فیصلہ کر سکتا ہے؟ مسلم لیگ کے رہنما اس فیصلے کی تائید میں سامنے آ گئے ، کیا آپ کے خیال میں یہ اتفاق ہے؟ شرافت کی صحافت کے کارندے اس فیصلے کی پشت پر کھڑے ہو گئے، کیا یہ بھی ایک اتفاق سمجھا جا سکتا ہے؟ این جی اوز کے کارندے جو عام حالات میں عمران کے شدید مخالف تھے اسے اکسانے لگ گئے کہ نیا پاکستان بنانا ہے تو فیصلے پر ڈٹ جاؤ ، کیا یہ بھی اتفاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے ۔ ان مختلف قوتوں میں عاطف میاں کے معاملے پر یہ مثالی یکجہتی بتا رہی ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں ۔ پاکستان پرانا ہو یا نیا ، بین الاقوامی قوتوں کے دباؤ پر سبھی شرمناک فیصلے کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں ۔

عمران خان نے اپنا سارا بانکپن گنوا دیا ۔ اب وہ بھی اتنا ہی مشکوک ہے جتنا کوئی اور حکمران۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور ختم نبوت کے معاملے پر بیدار رہنا ہو گا ۔آخری تجزیے میں حکمران نہیں یہ عوام ہیں جنہیں اپنی مبادیات کا تحفظ کرنا ہے۔

میڈیا کے بارے میں بھی غلط فہمی دور کر لیجیے کہ یہ ریاست کا چوتھا ستون ہے ۔ یہ ایک کارپوریٹ میڈیا ہے جو ایک خاص کلچر کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے۔ ، جناب ارشاد عارف , جناب ہارون رشید اور برادر مکرم عامر خاکوانی پر اللہ کی رحمتیں ہوں ، ان کے علاوہ کون ہے جو اس واردات پر بولا ؟ ذاتی مفادات پر دیوان لکھ دینے والے جب ختم نبوت کا معاملہ آتا ہے تو گونگے شیطان بن جاتے ہیں تو یہ بے سبب نہیں ۔ یہ فکری پسپائی ہے۔ ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اسلامی اقدار یا تصورختم نبوت کے حق میں لکھنے والا روشن خیال نہیں رہتا ۔ اسے انتہا پسند کہا جاتا ہے۔ اور یہ وہ طعنہ ہے جس کے ڈر سے لوگ گونگے بہرے اور اندھے بن چکے۔

میدان سج چکا ۔ عملی اقدامات بھی ہو رہے ہیں اور فکری یلغار بھی ہو چکی ۔ دین کو کوئی گالی دے یہ اظہار رائے کی آزادی ہے اور کوئی آگے سے احتجاج کرے تو یہ انتہا پسندی ۔ آپ اچھی طرح جان لیں جب تک آپ ہم جنس پرستی کو تسلیم نہیں کر لیتے، توہین رسالت جیسے جرم پر خاموش نہیں رہنا سیکھ لیتے ، اسلام اور اسلامی اقدار سے یکسر بے نیاز نہیں ہو جاتے تب تک آپ کو روشن خیالی کی سند نہیں ملے گی۔ اس سند سے بے نیاز ہو کر پوری قوت سے بروئے کار آنا ہو گا۔

مذہبی جماعتوں کا وجود بھی آخری تجزیے میں اس ملک کے لیے خیر کی علامت ہے ۔ ان کی قیادت کا نامہ اعمال بھی کچھ شاندار نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی جملہ خامیوں کے باوجود جب میدان سجتا ہے اور حکومتیں ہماری اساس پر حملہ آور ہو کر فیصلے کرتی ہیں تو یہی جماعتیں ہیں جو میدان میں آتی ہیں ۔ پریشانی جب بڑھتی ہے تو عام آدمی انہی کی طرف دیکھتا ہے ۔

عمران خان کو جانے مقبولیت کا زعم تھا یا بیرونی دباؤ زیادہ تھا لیکن جو بھی تھا انہوں نے اپنا بانکپن گنوا دیا ۔ ان کی بصیرت اور دیانت دونوں پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ معاشرے کو سکون کی ضرورت ہے ان کے غلط فیصلے سے اسے اضطراب سے دوچار کر دیا ۔ قیامت کو بھی قیادت پڑھنے والے بتائیں ، کیا قیادت اسی کا نام ہے؟ قیادت کو اگر معلوم ہی نہیں ختم نبوت کے معاملے پر سماج کی حساسیت کا عالم کیا ہے تو اس کی بصیرت پر سوال اٹھتا ہے اور اگر وہ اس حساسیت سے آگاہ ہونے کے باوجود بیرونی دباؤ پر اپنے ملک کو ذہنی اذیت اور اضطراب سے دوچار کر دے تو اس کی دیانت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے