پومپیو کا دورہ اور پاک امریکہ تعلقات

بہت خوش ہیں ۔ بغلیں بجارہے ہیں ۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے پانچ گھنٹے کے دورہ پاکستان کے بعد صحافیوں کو ایک گھنٹہ سے زائد وقت کی بریفنگ دیتے ہوئے قادرالکلام قریشی صاحب نے اردو اور انگریزی ڈکشنریوں کے تمام سہانے الفاظ دہرا کر یہ تاثر دیا کہ جیسے وہ اور ان کے وزیراعظم پومپیو کو ہی نہیں بلکہ امریکہ کو بھی فتح کرچکے ۔

حالانکہ کامیابی سے مراد ان کی یہ تھی کہ پومپیو نے اس قدر دھمکیاں نہیں دیں جس قدر خدشہ تھا اور ان کی خوشی کی اصل وجہ یہ تھی کہ پومپیو نے مہربانی کرکے انہیں بتادیا کہ جب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لئے امریکہ آئیں گے تو ان سے بھی دوبارہ ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں ۔ تاہم قریشی صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ پومپیو نے دھمکی آمیز بیانات کے بعد پاکستان آکر مزید دھمکیاں اس لئے نہیں دیں کہ وہ جو مطالبہ لے کر آرہے تھے، وہ ان کی آمد سے پہلے مان لیا گیا تھا۔

انہو ں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کرے اور ان کی آمد سے پہلے ان کو بتایا گیا تھا کہ پوری طرح مدد کی جائے گی ۔ ہاں البتہ پومپیو نے آنے سے پہلے واضح کردیا تھا کہ اگراب کی بار پاکستان نے وعدہ پورا نہیں کیا تو پھر اچھا نہیں ہوگا اور ہم نے ان سے کہہ دیا کہ موقع دے کر دیکھ لیجئے ۔ پاکستان آمد سے قبل امریکہ نے پاکستان کی واجب الادا کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں تیس کروڑ ڈالر کی ادائیگی روک دی تھی اور پاکستانی حکومت اس قدر دفاعی پوزیشن میں رہی کہ پومپیو کے دورہ پاکستان کے موقع پر ان سے اس کی بحالی کا اعلان تک نہ کرواسکی ۔

نہ تو شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس میں اس کا کوئی ذکر ہے اور نہ امریکی دفتر خارجہ کے بیان میں ۔ گویا ہم نے وعدہ کرلیا کہ کام کریں گے لیکن پرانی تنخواہ بھی طلب نہیں کریں گے ۔ یہ ہے وہ مبینہ کامیابی جو پومپیو کے دورہ پاکستان میں ہماری نئی نویلی حکومت نے حاصل کی ۔

امریکہ کو پاکستان سے شکایت ہے کہ وہ افغانستان کے معاملے میں حسب منشا تعاون نہیں کررہا جبکہ پاکستان کو امریکہ سے شکایت ہے کہ وہ اس کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کررہا ۔ امریکہ کو شکایت ہے کہ پاکستان افغانستان اور خود اپنی سرحدوں کے اندر انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ کارروائی یا تعاون نہیں کررہا جبکہ پاکستان کو شکایت ہے کہ امریکہ افغانستان اور خطے میں پاکستان کے مفادات کو مدنظر نہیں رکھ رہا ۔ اہم ترین شکایت امریکہ کو یہ ہے کہ پاکستان خطے میں چین کا اسٹرٹیجک پارنٹر اور اتحادی کیوں بن رہا ہے جبکہ پاکستان کو اصل شکایت یہ ہے کہ امریکہ بے وفائی کرکے ہندوستان کوگلے کیوں لگا رہا ہے ۔

یوں اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی یہ سمجھی جاتی ہے (میں ذاتی طور پر اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتا) کہ امریکہ کو ہندوستان سے دور کرکے اپنا ہمنوا بنالیا جائے جبکہ ہندوستان اپنی کامیابی یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں امریکہ کو اپنا ہمنوا بنالے ۔ اب اس تناظر میں امریکی سیکرٹری خارجہ کے پاکستان اور ہندوستان کے دوروں اور اس میں طے پانے والے معاملات کا تقابل کرکے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاہ محمود قریشی جشن منانے میں حق بجانب ہیں یا نہیں ۔

اب زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکی سیکرٹری خارجہ پاکستان صرف چند گھنٹے کے دورے پر آئے اور باقاعدہ مذاکرات کی بجائے صرف افغانستان کے معاملے پر چند مطالبات کرکے چلے گئے جبکہ ہندوستان وہ 2017 میں شروع کئے گئے وزارتی ڈائیلاگ کے لئے گئے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اصلاً خطے میں اس ڈائیلاگ کے لئے آئے تھے اور اس کے لئے آتے ہوئے چند گھنٹے کے لئے پاکستان میں بھی رکے ۔ پاکستان آتے ہوئے وہ صرف ایک جنرل اور افغانستان کے لئے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کو ساتھ لائے جبکہ ہندوستان میں امریکی سیکرٹری دفاع جیمز میٹس بھی ان کے ہمراہ تھے ۔

پاکستان کے دورے کے موقع پر وہ اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس تو کیا مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے پر بھی تیار نہ ہوئے جبکہ ہندوستان کے دورے کے اختتام پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کا تفصیلی اور مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا جو ہر لحاظ سے ہندوستان کے بیانیے کو آئینہ دار ہے ۔ پاکستان کے دورے کے اختتام پر امریکی سیکرٹری خارجہ نے ہوائی اڈے پر اپنے صحافیوں کے ساتھ جو گفتگو کی یا پھر امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا ، اس میں صرف اور صرف افغانستان کے حوالے سے پاکستان سے مطالبات اور توقعات کا ذکر ہے جبکہ خطے سے متعلق پاکستان کے مطالبات اور خدشات کا کہیں ذکر سننے یا دیکھنے کو نہیں ملتا جبکہ ہندوستان کے دورے کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا وہ خطے کے حوالے سے ہندوستانی خواہشات کا ہی نہیں بلکہ پاکستان سے متعلق بھی اس کے مطالبات کا آئینہ دار ہے ۔ اس مشترکہ اعلامیہ کے الفاظ یوں ہیں :

Welcoming the expansion of bilateral counter- terrorism cooperation, the minister announce their intent to increase information sharing efforts on known or suspected terrorists and to implement UN Security Council resolution 2396 on returning foreign terrorist fighters. They committed to enhance their ongoing cooperation in multilateral fora such as FATF. They reaffirmed their support for UN comprehensive convention of international terrorism that will advance and strengthen the framework for global cooperation and reinforce the message that no cause or grievance justifies terrorism. The minister denounced any use of terrorist proxies in the region, and in this context they called on Pakistan to ensure that the territory under its control is not used to launch terrorist attacks on other countries. On the eve ot 10- years anniversary of the 26/11 Mumbai attack, they called on Pakistan to bring to justice expeditiously the perpetrators of the Mumbai, Pathankot, Uri and other cross border terrorist attacks. The ministers welcomed the launch of bilateral dialogue on designation of terrorists in 2017 , which is strengthening cooperation and action against terrorist groups , including Alqaida, ISIS, Lashkar e Tayyeba , Jaish e Mohammad, Hizbu-ul- mujahideen, the Haqqani network, Tehrik e Taliban Pakistan , D- Company and their affiliates.

مشترکہ اعلامیہ کے ان الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ امریکہ نے بھی ہندوستان کا ہمنوا بن کر پاکستان پر دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کے الزام کو تسلیم کیا ہے ۔ اور اسی تسلسل میں ممبئی، پٹھان کوٹ اور اڑی حملوں کے لئے امریکہ کی طرف سے بھی اسی طرح پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جس طرح کہ ہندوستان اسے موردالزام ٹھہراتا ہے ۔ بعینہ ہندوستان کی خواہش کے مطابق لشکرطیبہ ، جیش محمد اور حزب المجاہدین بھی القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں قرار دے دی گئی ہیں ۔

اس اعلامیہ میں یہ بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک اقوام متحدہ اور ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی فورمز پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے اور اگر امریکہ اسی طرح ہر معاملے میں ہرحوالے سے ہندوستان کا ہمنوا بنا رہتا ہے تو پھر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں عالمی فورمز پر امریکہ کا رویہ کیا ہوگا ۔صرف یہ نہیں بلکہ آگے جاکر اس مشترکہ اعلامیہ میں افغانستان کے حوالے سے ہندوستان کے کردار کو سراہ کر وہاں اس کے کردار کومزید بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے ۔

اب آپ ہی بتائیے کہ شاہ محمود قریشی کا جشن اور خوشی کس قدر بجاہے ؟۔ ذرا ہمیں بھی وہ سفارتی کامیابی سمجھا دی جائے جس کا ان دنوں نئی حکومت جشن منارہی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے