شام: ادلب پر کیمیائی حملے کے جواب میں امریکہ نے فوج کشی کا فیصلہ نہیں کیا ہے

امریکی فوج کے سربراہ نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے وائٹ ہاؤس کے ساتھ اپنی معمول کی بات چیت میں شامی فوج کی جانب سے باغیوں کے آخری بڑے ٹھکانے ادلب پر حملے کے دوران کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے امکانات پر غور و خوض کیا ہے۔

جوائٹ چیف آف سٹاف کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا کہ صدر نے کیمیائی ہتھیار کے استعمال کی صورت میں کسی فوجی کارروائی کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

دوسری جانب شامی حکومت اور روس نے کہا ہے کہ وہ ادلب پر اپنے منصوبے کے تحت حملہ جاری رکھیں گے۔ شامی حکومت نے ایرانی اور روسی رہنماؤں سے بات چیت کے بعد متعدد ٹویٹس میں اس کا اظہار کیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ دنیا اس قتل عام پر آنکھیں موندے نہیں رہ سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کا حملہ انسانی جانوں کے لیے قیامت خیز ہو سکتا ہے۔

روس نے شمالی شام میں باغیوں کے آخری مضبوط گڑھ ادلب میں ترکی کے جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی جاری رہے گی۔

ادلب میں فوجی کارروائی سے متعلق ایران، روس اور ترکی کے صدور نے ایرانی دارالحکومت تہران میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کی جس میں ترکی کے صدر نے زور دیا کہ شامی صوبے میں خون ریزی سے بچنے کے لیے جنگ بندی کی جائے۔

تاہم روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ روس ادلب صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔

اجلاس میں روس اور ایران کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے اور شامی صدر بشار الاسد کو حق حاصل ہے کہ وہ شام کا مکمل کنٹرول حاصل کریں۔

ترکی کی شام میں باغیوں کے چند گروہوں کو حمایت حاصل ہے اور اس کو ڈر ہے کہ ادلب میں کارروائی کے نتیجے میں اس کی جنوبی سرحد پر پناہ گزینوں کا بحران جنم لے گا۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنے ایرانی اور روسی ہم منصب کو بتایا کہ’ وہ نہیں چاہتے کہ ادلب میں خون ریزی ہو۔ ادلب پر کسی بھی حملے کی صورت میں انسانی المیہ جنم لے گا اور دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی جنگ کے طریقۂ کار میں وقت اور صبر درکار ہوتا ہے۔ ‘

تاہم شامی حکومت کے اتحادی روس اور ایران کا کہنا ہے کہ ادلب سے ہر صورت میں جہادی گروہوں کا خاتمہ ضروری ہے جبکہ روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ’ شام کی قانونی حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ آخر کار لازمی طور پر اپنے تمام قومی علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیے۔

اگر توقعات کے تحت ادلیب میں بڑے پیمانے کا جنگی محاذ کھولا جاتا ہے تو شدید انسانی بحران کے حوالے سے سخت خدشات پائے جاتے ہیں۔

اس سے قبل شام کے لیے امریکی مندوب کا کہنا تھا کہ اس بات کے شواہد سامنے آئے ہیں کہ شامی حکومت کیمیائی حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ جمعے کی صبح باغی ٹھکانوں پر تازہ فضائی حملوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔

ایران، ترکی اور روس نے شامی خانہ جنگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

باغیوں کی حمایت کرنے والے ترکی کو فکر ہے کہ بڑے پیمانے پر جنگ سے ان کی اپنی جنوبی سرحد پر پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔

روس اور ایران اب تک شامی حکومت کی حمایت کرتے رہے ہیں اور ان کو بقین ہے کہ باغیوں کو مکمل شکست دینی ضروری ہے۔

روسی طیاروں نے شام کے شمال مغربی علاقوں میں بمباری کی ہے اور ادھر شامی فوجی اس بڑے محاذ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی مندوب جم جفری کا کہنا ہے کہ متوقع محاذ مسئلے کو غیر ذمہ دارانہ بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔

یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں جم جفری نے کہا کہ ہمارے پاس ایسی تنبیہ کرنے کے لیے بہت مضبوط جواز ہیں۔

’کوئی بھی کارروائی ہماری نظر میں غیر ذمہ دارانہ بڑھاوا ہے۔ اس بات کے بہت سے شواہد ہیں کہ کیمیائی ہتھیار تیار کیے جا رہے ہیں۔‘ تاہم انھوں نے ایسے کوئی شواہد فراہم نہیں کیے۔

شامی حکومت نے کئی مرتبہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کیا ہے۔

ادھر امریکی دفترِ خارجہ نے پیر کو خبردار کیا کہ شامی حکومت یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا امریکی حکومت جواب دے گی۔

شامی تردید کے باوجود اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ادلیب میں 2017 میں ہونے والے کیمیائی حملے کی ذمہ دار شامی حکومت ہی تھی۔

جم جفری کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے لیے بڑے پیمانے پر سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب تک دہشتگرد تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست نہیں ہو جاتی اور جب تک ایرانی جنگجؤ شام چھوڑ نہیں دیتے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام میں ملوث رہنے کے حوالے سے پرعزم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ صدر بشار الاسد کا شام میں بطور حکمران کوئی مستقبل نہیں تاہم انھیں ہٹانا امریکی کا کام نہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ روس کے ساتھ کسی سیاسی منتقلی پر کام کرنے کے لیے رضامند ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق ادلب میں 29 لاکھ لوگ آباد ہیں جن میں 10 لاکھ بچے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کہ مطابق اس حملے سے کم از کم آٹھ لاکھ افراد بے گھر ہوں گے اور اس کی وجہ سے پہلے سہی امداد کے مستحق لاتعداد افراد کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ شام کی تقریباً نصف آبادی کم از کم ایک مرتبہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے