بیگم کلثوم نواز،ڈاکٹر حسن صہیب مراد اور پاکستانی میڈیا۔۔۔

کل اس ملک میں ایک نہیں بلکہ دو فوتگی کی دو خبریں زبان زد عام ہونی چاہئے تھیں: ایک بیگم کلثوم نواز کے موت کی اندوہناک خبر اور دوسری ڈاکٹر حسن صہیب مراد۔ لیکن افسوس پڑھنے، دیکھنے اور مسلسل و متواتر ٹی وی پر گھنٹوں تک ڈسکس ہونے کو ایک ہی ملی۔۔۔۔ اور وہ تھی بیگم کلثوم نواز کی خبر۔۔۔۔ اس خبر کی اہمیت اور نیوز ویلیو سے انکار نہیں. اس سے بھی انکار نہیں کہ وہ ایک باکمال خاتون تھیں.

میڈیا کی خبریت کے حوالےسے زیادہ توجہ دینے کی ریت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں اور علی ھذا القیاس۔۔۔۔۔ لیکن جو بات کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ کل اس ملک میں ایک اور اہم انسان اور مفید انسان ایک روڈ حادثے میں انتقال کرگئے جن کا نام ڈاکٹر حسن صہیب مراد تھا اور جن کی اصل کنٹریبیوشن تعلیم کے میدان میں تھی۔

انہوں نے اپنے پیچھے ایک بڑی یونیورسٹی چھوڑی جس میں سینکڑوں لوگوں کو روزگار ملا اور جہاں ہزاروں بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، اس کے علاوہ وہ کئ سرمایہ کاری منصوبوں کےبانی بنے جس کا امپیکٹ اس ملک کی معیشت اور اقتصادی نموو پر ہورہا ہے۔

کل رات جب میں سونے کی تیاری کررہا تھاتو جیو ٹی وی (اور اس طرح دیگر چینلز) پر جو اخری شو چل رہا تھا وہ بیگم کلثوم کی وفات کا تھا۔ یہ سلسلہ کم وبیش اٹھ گھنٹے سے جاری تھا۔ سوال یہ یے کہ کیا تعلیم کے میدان میں اتنی بڑی کنٹریبیوشن کرنے والے انسان کے موت کے لئے پانچ منٹ بھی نہیں مل سکتے؟

یہ وہ غلط سیویفیکیشن civification کا عمل ہے جس سے ہمارا کارپوریٹ میڈیا ہمیں چوبیس گھنٹے گزارتا ہے۔

ہم نادانستہ اور غیر شعوری طور پر اس منافع خور اور پروپگینڈسٹ میڈیا کے قیدی ہیں۔ یہ جس طرف لے جانا چاہتا ہے اس طرف ہمیں دھکیل دیتا ہے اور پھر سماج سے ہی گلہ کرتا ہے کہ اس کی ترجیحات غلط ہیں۔۔۔۔۔

کل کے دن اور بیگم کلثوم نواز کے جنازے تک اس میڈیا کیمپین کے نتیجے میں ہونے والے اثرات کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپ اس کے بعد خواتین سے سروے کرکے پوچھ لیں کہ وہ بیگم کلثوم بننا پسند کرینگی یا کوئی ایجوکیشنسٹ۔۔۔ ان کو جواب اول الذکر کے حق میں ہوگا۔۔۔۔

لگے رہو منا بھائی۔ بیڑا غرق کرو اس برباد شدہ سماج کا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے