کیا سیاست اپنے اخلاقی وجود سے بالکل بے نیاز ہو چکی؟

( یہ کالم تیس جون 2018 کو لکھا تھا. کلثوم نواز صاحبہ کی وفات کی افسوسناک خبر سنی تو یہی سوال ایک بار ہھر سب کی خدمت میں پیش کر نے کو جی چاہا)

کیا سیاست اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہو چکی؟ کیا اب یہ محض بے ہودگی ، یاوہ گوئی اور پگڑی اچھالنے کا اکھاڑہ ہے جہاں میدان اسی کے نام ہو گاجو زیادہ بد زبان ، زیادہ جھوٹا اور زیادہ بد تمیز ہو؟ ابولکلام آزاد نے کہا تھا : سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کیا اب اس کی آنکھ سے حیا بھی اٹھ چکی؟

یہ پہلا منظر ہے۔کلثوم نواز بیمار ہوتی ہیں، انہیں لندن لے جایا جاتا ہے۔ یہاں شور مچ جاتا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے اور کلثوم نواز تو بالکل خیریت سے ہیں۔ پھر خبر آتی ہے ان کی طبیعت بہت خراب ہے وہ وینٹی لیٹر پر ہیں ، مریم نواز قوم سے التجا کرتی ہیں کہ ان کی ماں کی صحت کی دعا کی جائے۔ اب کے شور اٹھتا ہے کہ کلثوم نواز تو کب کی اللہ کو پیاری ہو چکیں اب محض سیاسی مفادات کی خاطر انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے۔ ذرا غور فرمائیے ، سیاسی نفرت میں لوگ اس قدر بدذوقی اور شقاوت قلبی پر اتر آئے کہ پہلے مرحلے میں انہیں بیمار تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دوسرے مرحلے میں ان کے زندہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ سیاسی وابستگیاں بھی ہوتی ہیں اور محبت و نفرت کے رشتے بھی اس سیاست میں استوار ہو جاتے ہیں لیکن کیا ایک انسان اس حد تک گر سکتا ہے کہ وہ ان دو رویوں کا اسیر ہو جائے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے؟

بات بہت سادہ تھی ، کوئی بیمار ہے ، دکھ کے عا لم میں ہے ، موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اور وینٹی لیٹر پر ہے تو شریفانہ رویہ تو یہ ہے کہ اس کے لیے کلمہ خیر کہا جائے اور دعا کی جائے۔ کوئی زیادہ ہی نفرت کی آگ میں جل رہا ہو اور اس کی زبان پر کلمہ خیر نہ آ سکے تو ضبط نفس کا تقاضاہے کہ وہ جذبات پر قابو پا لے اور خاموشی اختیار کر لے لیکن بستر علالت پر پڑے مریض کی اول علالت ہی تسلیم کرنے سے انکار اور پھر اس کی زندگی سے انکار کرتے ہوئے اس معاملے کو تفنن طبع کا عنوان بنا دینا ، یہ اصل میں اس بات کا اعلان بھی ہے کہ ہمارا اخلاقی بحران کتنا شدید ہو چکا ہے اور شعور کے نام پر ہم جو اچھل کود کر رہے ہیں وہ بے ہودگی کے سوا کچھ نہیں۔

دوسرا منظر عمران خان کا ہے۔ عمران خان کی جماعت نے کے پی کے میں حکومت کی ۔لیکن ان کی حکومت کی کارکردگی سے زیادہ ان کی نجی زندگی زیر بحث ہے۔کبھی ریحام خان کی کتاب کی شکل میں تو کبھی ٹیرن خان کی صورت میں۔

یہ دو منظر نامے محض معاملے کی تفہیم کے لیے بیان کیے ورنہ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیے آپ کو ایک تعفن سا اٹھتا محسوس ہو رہا ہو گا۔ یہاں سیاسی کارکنان اور اہل سیاست نے مریم نواز کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا ہے اسے دیکھیں تو باقاعدہ متلی ہوتی ہے اور گھن آتی ہے۔ اسی طرح جو کچھ عمران خان کے بارے میں کہا اور سنا گیا وہ قابل نفرت ہے۔کیا سیاست اب اسی چیز کا نام رہ گیا ہے کہ مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کو نشانے پر لے لیا جائے اور اپنے اندر کی غلاظت کوچہ و بازار میں لا کر رکھ دی جائے۔

عام آدمی کے ایشوز قومی سیاسی بیانیے سے غائب ہیں۔ ان محروموں کا کسی کو خیال نہیں جنہیں ہر سہ پہر اپنی پیاس بجھانے کے لیے ایک ناخنوں سے ایک کنواں کھودنا پڑتا ہے۔سیاست پر طویل بحث مباحثے جاری ہیں مگر کسی جماعت کا منشور کہیں زیر بحث نہیںہے۔مجلس عمل اور پیپلز پارٹی نے تو منشور جاری کر دیا ہے باقی کہاں ہے؟

چاہیے تو یہ تھا کہ الیکشن کے موقع پر جماعتوں کے انتخابی منشور پر بات ہو رہی ہوتی۔کس جماعت کا ایجنڈا کیا ہے یہ زیر بحث ہوتا۔ کوئی ایسی صورت نکلتی کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنا اپنامنشور لے کر قوم کے سامنے آتے ۔ٹی وی سکرین پر قوم کو بتاتے کہ صحت ، تعلیم سے لے کر امور خارجہ تک ان کی جماعت کا ویژن کیا ہے۔ درباریوں کی بجائے وہاں متعلقہ شعبوں کے ماہرین بیٹھے ہوتے جو ان سے ان کی پالیسی پر سوالات کرتے اور یوں قوم جان سکتی کہ یہ منشور محض اقوال زریں کا ایک مجہول سا مجموعہ ہے یا یہ قابل عمل بھی ہے اور قائد محترم کو کچھ سمجھ بوجھ بھی ہے کہ اس پر عمل کیسے کرنا ہے لیکن اپنے ہاں ایسا کوئی بندوبست نہیں۔ بس جو جس کے حصے کا بے وقوف ہے وہ منشور کو پڑھے اور سمجھے بغیر اپنے قائد کی غیر مشروط اطاعت کیے جا رہا ہے۔

تماشا دیکھیے کہ بلاول زرداری نے جو منشور پیش کیا ہے اس میں ہی روٹی کپڑا اور مکان کی بات ہے جو ان کے نانا نے کی تھی۔ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ اتنی دفعہ اقتدار میں تم رہے اب تک روٹی کپڑا اور مکان کیوں نہیں دے سکے۔کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ تمہارے ابا کی جب حکومت تھی تو کتنی سرکاری رہائشی سکیمیں تمہارے ابا نے متعارف کرائیں۔

منشور کے بارے میں نہ سیاسی جماعتیں حساس ہیں نہ ہی ووٹر ۔حتی کہ الیکشن کمیشن اور انتخابی قوانین بھی اس جھنجھٹ سے آزاد ہیں۔ایک جماعت ایک منشور دیتی ہے تو گویا یہ قوم سے ایک عہد ہے کہ وہ حکومت اس طرح سے کرے گی۔ اب کیا دوران حکومت کوئی ایسا میکنزم نہیں ہونا چاہیے جو دیکھتا رہے کہ کیا حکومت واقعی منشور کے مطابق چل رہی ہے؟

یہ بات درست ہے کہ منشور پر مکمل عمل درآمد شاید ممکن نہ ہو لیکن اتنا تو ہو سکتا ہے کہ کم از کم سمت تو وہی رکھی جائے جو منشور میں بیان کی گئی ہو۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ نے گذشتہ انتخابات میں قرض کم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ہوا کیا؟ اس نے ملکی تاریخ میں قرض لینے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ ساری تاریخ کا قرض ایک طرف اس حکومت کے پانچ سالوں کا قرض ایک طرف۔ تو منشور کہاں گیا؟ کیا منشور سے اس طرح انحراف کی اجازت ہونی چاہیے؟ اور اگر ایسا ناگزیر ہو جائے تو کیا وزیر اعظم کو پابند نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس صورت میں قوم کو اعتماد میں لے اور بتائے کہ اسے کیوں اپنے منشور سے انحراف کرنا پڑ رہا ہے؟

آپ ٹاک شوز دیکھ لیجیے، آپ جلسوں کا ماحول دیکھ لیجیے ، آپ ان کی پریس کانفرنسز دیکھ لیجیے ، اور آپ سوشل میڈیا پر کسی بھی جماعت کے کارکنان کا عمومی رویہ دیکھ لیجیے۔چند ایک مستثنیات بلا شبہ موجود ہیں۔لیکن عمومی ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے قوم کے سنجیدہ مسائل کہیں زیر بحث ہی نہیں۔ایک ہیجان کا عالم ہے ک۔ اب جو جتنا زیادہ بد زبان ، بد کلام ، بے ہودہ ، اور ناتراشیدہ ہو گا معرکہ اسی کے نام رہے گا۔ جو زیادہ گالیاں بک لے ، جس سے کسی کا گریبان اور دستار تو کیا بہن بیٹیوں کی عزت بھی محفوظ نہ ہو وہ اتنا ہی زیادہ معتبر قرار پائے گا۔

دلیل کے ساتھ ، شائستہ انداز سے بات کرنا دھیرے دھیرے متروک سی رسم ہوتی جا رہی ہے ۔ ٹاک شوز کے نام پر اب دنگل ہوتا ہے ۔مکالمہ کی رسم ختم ہو چکی ہے۔یہاں صرف استحصال ہے ، گالی گلوچ ہے ، کردار کشی، جھوٹ کا ایک سمندر ہے اور ہر ایک کے حصے میں آنے والے بے وقوف ہیں۔اس عالم میں آدمی حیرت اور دکھ کے ساتھ سوچتا ہے : کیا سیاست اپنے اخلاقی وجود سے بالکل بے نیاز ہو چکی؟ کیا اب یہ محض بے ہودگی ، یاوہ گوئی اور پگڑی اچھالنے کا اکھاڑہ ہے جہاں میدان اسی کے نام ہو گاجو زیادہ بد زبان ، زیادہ جھوٹا اور اور زیادہ بد تمیز ہو؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے