سعودی عرب میں خاتون کے ساتھ ناشتے پر ایک مصری شہری گرفتار

سعودی عرب میں ایک مصری شخص کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب ان کی ایک خاتون کے ساتھ ناشتے کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔

ویڈیو میں ایک شخص کو مصری لہجے میں باتیں کرتے ہوئے ایک برقع پوش خاتون کے ساتھ ناشتہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس خاتون کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ سعودی خاتون ہیں۔

یہ سعودی عرب کے قانون کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہاں کسی ریستوران، میکڈونلڈ یا پھر سٹاربک جیسی جگہوں پر تنہا شخص اور فیملی کے ساتھ آنے والوں کے لیے علیحدہ جگہیں مختص ہیں۔

ان مقامات پر خواتین کو تنہا مرد کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔

سعودی عرب میں خواتین کو اپنے محرم کے بغیر بہت سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ محرم میں عام طور پر ان کے والد یا شوہر ہوتے ہیں بعض اوقات بھائی اور بیٹا بھی ہو سکتا ہے۔

وزارت کا کہنا ہے کہ اس شخص نے ‘مختلف قسم کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے جن میں سعودیوں کے لیے مخصوص جگہ لینا بھی شامل ہے۔’

ٹوئٹر پر ‘سعودی خاتون کے ساتھ ایک مصری کا ناشتہ’ نامی ہیش ٹیگ تقریباً سوا لاکھ بار استعمال کیا گیا ہے اور اس پر لوگوں کی رائے منقسم نظر آئی ہے۔

30 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں دونوں اس بات کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ وہ دونوں اپنا اپنا ناشتہ کر رہے ہیں جبکہ کوئی اور مدعو نہیں ہے۔

تاہم تنقید ویڈیو کے اس حصے پر زیادہ ہو رہی ہے جس میں ویڈیو کے آخر میں وہ خاتون اس مصری شخص کو لقمہ پیش کرتی نظر آتی ہیں۔

بہت سے سعودیوں نے مرد اور خاتون کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن بہت سے لوگ اس بات پر حیرت کر رہے ہیں کہ خاتون کی بجائے مرد کو سزا کیوں دی جا رہی ہے؟

ملاک نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا: ‘مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مردوں کو تو لگا تار سزا دی جاتی ہے لیکن خواتین کو نہیں۔ میں ایک سعودی خاتون ہوں اور چاہتی ہوں کہ اس مرد کے ساتھ اس خاتون کو بھی سزا دی جائے۔ ہنسنا، کام کی جگہ کھانا۔ آخر آپ کی حد کہاں ہے؟’

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کام کی جگہ پر رشتوں میں جنسی تفریق نہیں آنی چاہیے۔

طارق بن عزیز نے لکھا ‘ساتھ کام کرنے والوں کو عام انسانی رشتوں کی طرح آپس میں مذاق، کھانے اور ديگر چیز کی اجازت ہونی چاہیے۔’

لیکن سب ان کے ہم خیال نہیں ہیں۔ حمود الضحیان نے لکھا ‘بیرونی لوگوں کے ساتھ سعودی خواتین کی ملازمت کو فروغ دینا سعودی رسم و رواج اور اقدار کی واضح پامالی ہے۔’

دوسری جانب مصر کے صارفین نے اس گرفتاری پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ایس غیر مضر ویڈیو پر کسی کو کس طرح حراست میں لیا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے