اصیل مرغ – شیرو

مجھے ہمیشہ جانوروں سے ایک غیر معمولی انسیت رہی ہے. بچپن سے لے کر نوجوانی تک میں طرح طرح کے جانور پالتا آیا ہوں. انواع و اقسام کے طوطوں سے لے کر رنگ برنگی چڑیاؤں تک ، بلی سے لے کر خرگوش تک، مچھلیوں سے لے کر بکروں تک اور تیتر بٹیر سے لے کر مرغیوں تک. میں ہمیشہ جانوروں کو محبت سے پالتا رہا ہوں.

یوں تو ہر جانور ہی دل سے قریب محسوس ہوا مگر جو جانور میرا پسندیدہ ہے وہ سندھی النسل اصیل مرغ کہلاتا ہے.اس کی شان ہی جدا لگی. اونچی نسل کے اس مرغ کو پالنا اپنے خواص کے لحاظ سے ایسا ہی ہے جیسے کوئی شاہین یا عقاب گھر میں پال لے. میرے اسی شوق و لگن کو دیکھتے ہوئے میرے ایک رشتہ دار جو زمین دار تھے، انہوں نے اندرون سندھ سے ایک بہت ہی عالی النسل اصیل مرغ کا ایک چوزہ مجھے لاکر دیا. ان کے بقول یہ ایک بڑے فاتح مرغ کی نسل سے تھا جس کا چوزہ حاصل کرنے کیلئےہر شوق رکھنے والا بیقرار ہوتا ہے.

میں اس وقت شائد دس بارہ سال کا تھا اور اسے حاصل کرکے بہت خوش تھا. میں نے اسے بہت توجہ سے تنہا ہی رکھ کر پالنا شروع کیا. میں اسے بڑے لاڈ سے رکھتا، اسے مہنگی بہترین غذا کھلاتا اور اسے سنوارتا رہتا. نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایک بہت خوبصورت اونچا اور جاندار اصیل مرغ بن گیا. میں نے اس کا نام ‘شیرو’ رکھا تھا، آج جب عمران کے کتے شیرو کا کوئی ذکر کرتا ہے تو میری یادداشت میں اپنا وہ مرغ ‘شیرو’ ابھر آتا ہے.

مسئلہ تب ہوا جب میرے بے جا لاڈ پیار نے اسے بلکل ‘ممی ڈیڈی’ یعنی چھوئی موئی بنا دیا. زبردست جسامت رکھنے کے باوجود اگر اس کا سامنا کسی فارمی مرغ سے بھی ہو جائے تو وہ دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوتا. یوں لگتا تھا جیسے وہ جوان ہونے کے باوجود بھی ابھی تک خود کو چوزہ ہی سمجھتا ہے. دھیان رہے کہ اصیل نسل کے مرغ نہایت لڑاکا اور جنگجو مشہور ہوتے ہیں. جو مر جاتے ہیں مگر مقابل کے سامنے ہار نہیں مانتے. پھر میرا یہ ‘شیرو’ تو اونچی فاتح نسل سے تھا. مگر میں نے اسے لاشعوری طور پر ایک ڈرپوک بزدل بنا ڈالا تھا.
.

ہم نے کسی اچھے دیسی باپ کی طرح ٹھانی کہ بھئی جوان ہوگیا ہے، شادی کردو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا. لہٰذا ایک اصیل نسل کی مرغی لے آئے اور ساتھ پنجرے میں چھوڑ دیا. مگر یہ کیا ؟ اس مرغی نے ہمارے وجیہہ مرغے کی ایسی پھینٹی لگائی کہ بیچارا بے حال ہوگیا. کچھ دن کی کوشش کے بعد کانوں کو ہاتھ لگائے اور مرغی جس سے لی تھی، اسے واپس کردی.

اب پریشان تھا کہ اس کو کیسے ٹھیک کروں؟ اتفاق سے ہمارے پڑوسی کے پاس مرغیاں تھیں اور اس سے بھی بڑا اتفاق یہ کہ بناء مرغے کے تھیں. ہم نے ان سے اجازت لی اور ان کی چھت پر اپنا گبرو جوان ان کے ساتھ چھوڑ دیا. وہی ہوا جس کا ڈر تھا. چاروں پانچوں مرغیوں نے باری باری اور کبھی مل کر اسے ایسے پٹخ پٹخ کر مارا جیسے ریسلنگ میں ریسلرز تالی مار کے ایک مخنچو کو مارتے ہیں. عجیب منظر تھا، مرغا آگے آگے دوڑ رہا ہوتا اور مرغیاں اسے مارنے کیلئے اسکے پیچھے پیچھے. شرم سے ہماری گردن جھکی ہوئی تھی.

ہمارا پڑوسی کبھی اس کی نامردی پر قہقہہ لگاتا تو کبھی حیرت زدہ رہ جاتا. اس نے ہمیں بہت گفت و شنید کے بعد قائل کیا کہ اسے ایک پوری رات مرغیوں کے ساتھ پنجرے میں بند کردو. سو فیصد صلح ہوجائے گی. ہم نے بات مان لی اور دل پر پتھر رکھ کر اسے پنجرے میں مقفل کردیا. صبح ہوتے ہی بھاگم بھاگ پڑوسی کی چھت پر دل میں امیدیں سجائے گیا تو دیکھا کہ مرغ کونے میں ادھڑے ہوئے دبکے سہمے بیٹھے ہیں.

ساری رات کمبخت مرغیوں نے اس پر جسمانی اور شائد جنسی تشدد بھی کیا تھا. مجھے دیکھتے ہی بھاگم بھاگ پاس آگیا. مجھے لگا جیسے شکایت کررہا ہو کہ کیا ایسا ہوتا ہے اچھا مالک؟ میں نے شکستہ دل سے اسے اٹھایا اور واپس گھر لے آیا. میں نے خود کو سمجھا لیا کہ ہمارا یہ چہیتا بھلے دیکھنے میں چارمنگ پرنس لگتا ہو، حقیقت میں یہ پاپا کی پرسنسس ہی کہلانے کے قابل ہے.

.
پھر ایک دن اچانک مجھے اپنے دور پرے کے جاننے والے کا خیال آیا جو اصیل مرغ پالنے اور ان کے مقابلے کروانے میں مقبول تھا. ظاہر ہے کہ میں مرغ سمیت کسی بھی جانور کو لڑانے کا قائل نہیں مگر میں اتنا ضرور چاہتا تھا کہ یہ نالائق مرغ کم از کم مرد تو بنے؟ ہم نے ڈھونڈھ کر ان صاحب کا نمبر تلاش کیا اور انہیں فون کھڑکا کر اپنا دکھڑا بیان کیا. انہوں نے کہا کہ فکر ہی نہیں، میں اسے بلکل ٹھیک کرسکتا ہوں. شرط اتنی ہے کہ اسے میرے گھر لے آؤ اور میں جو بھی کروں مجھے روکو نہیں.

اب مصیبت یہ تھی کہ وہ صاحب ہمارے گھر سے کافی دور ، کراچی کے ایک نسبتاً غیر محفوظ علاقے ‘لالو کھیت’ میں رہتے تھے. ہم ابھی اتنے بڑے نہیں تھے کہ گھر سے اکیلے جانے کی اجازت مل سکے. لہٰذا والدہ کو منانے کا مشن شروع ہوا. پہلے ڈانٹ پڑی، پھر جھاڑ پڑی لیکن آخر میں ممتا کے ہاتھوں مجبور انہوں نے حامی بھر لی. دونوں ماں بیتے رکشہ میں بیٹھ کر اور والد کو بتائے بغیر لالو کھیت ان دور پرے کے جاننے والے گھر میں جاپہنچے. ان صاحب نے گھر کے تنگ سے دالان کو ایک رکاوٹ کے ذریعے بند کیا اور مجھ سے لے کر شیرو کو اسکے بیچ میں چھوڑ دیا. اسکے بعد وہ اپنے دو لڑاکا نسل کے مرغ لے آئے جنہیں وہ مقابلوں میں لڑایا کرتے تھے.

میں دیکھ کر گھبرایا کہ ہمارا مسٹنڈا تو مرغیوں کی تاب نہیں لا پاتا اور یہ صاحب اس پر اپنے دو دو جنگجو چھوڑنے لگے ہیں. میرا ایسا نہ کرنے کی التجا کو ان صاحب نے سنی ان سنی کردیا اور دونوں مرغوں کو ایک ادا سے اچھال کر ہمارے معصوم پر چھوڑ دیا. ان دونوں مرغوں کے تیور ہی الگ تھے. انہوں نے پر جھٹک کر شان سے اذان دی اور للکار کر ہمارے مرغ کی جانب بڑھے. میں دل تھامے بیچارے شیرو کی جانب دیکھ رہا تھا جو حیرتناک طور پر خوفزدہ نہیں لگ رہا تھا. بلکہ غور سے آنے والے مقابل مرغوں کی للکار سن رہا تھا.

ان دونوں نے مرغوں نے لڑنے سے پہلے اپنے بالوں کو کھڑا کیا، جیسے پہلوان سامنے والے پہلوان سے انگلیاں پھنسا کر پہلے پنجوں سے زور لگاتا تھا، وار بعد میں کرتا ہے. شیرو صاحب نے بھی لامحالہ اپنے بالوں کو لڑنے کیلئے کھڑا کرلیا. میرے لئے یہ حیرت کا پہلا جھٹکا تھا. آج سے پہلے کبھی اسے اس انداز میں نہ دیکھا تھا. اچانک لڑائی شروع ہوئی. شیرو کو کوئی بیس سیکنڈ تو کچھ سمجھ نہ آیا اور دونوں مرغ اس پر چڑھ دوڑے. مگر پھر جیسے غیرت جاگ گئی ہو. شیرو نے پلٹ کر وار شروع کئے. وہ دونوں مرغوں سے زیادہ توانا اور پھرتیلا تھا.

لڑتے ہوئے جب اچھلتا تو بہت اپر تک جاتا. جلد ہی دونوں ماہر مرغے بری طرح پٹنے لگے. میں حیرت زدہ کھڑا دیکھ رہا تھا. مجھ سے زیادہ حیران بلکہ غصے میں وہ صاحب تھے، جن کے پہلوان مرغے کسی سستے کرائے کے غنڈوں کی مانند پٹ رہے تھے. میں نے کئی بار لڑائی کو روکنا چاہا، مگر ان صاحب کو ضد سی ہوگئی کہ لڑنے دو. آخرکار جب لڑائی واضح طور پر ان مرغوں کی پٹائی میں بدل گئی تو میں نے زبردستی مرغا اٹھا لیا.

.
میں نے پیار و ترس سے جو شیرو کو دیکھا تو پہلی بار اسکی آنکھوں میں شدید غصہ نظر آیا. میرے ہاتھوں میں ہی اذان پر اذان دے رہا تھا، جیسے اپنی فتح کا اعلان کر رہا ہو. میں اس عجیب ترین روداد کے بعد گھر لوٹ آیا مگر اب شیرو وہ ڈرپوک شیرو نہیں تھا. اس نے سب سے پہلے ان مرغیوں کی کٹ لگائی جو اسے مارتی تھیں، پھر اس پاس جو بھی دیسی و فارمی مرغ اسے نظر آجاتا، یہ اس کی کٹائی لگانے پہنچ جاتا. زبردستی چھڑانا پڑتا. محلے سے شکایت آنے لگی کہ آپ اپنے مرغے کو بند کرکے رکھیں، وہ ہمارے مرغے کو مار کر ہماری مرغیاں اپنے ساتھ لے جاتا ہے.

یہ حقیقت تھی کہ اب اس کے ساتھ دوسرے گھروں کی مرغیوں کا ایک پورا جھمگھٹا ہوتا تھا، جن پر وہ پورا حق جماکر ان کا خیال رکھتا. ایک تبدیلی یہ بھی آئی کہ پہلے وہ خود بخود اپنے پنجرے کے اندر چلا جاتا تھا، مگر اب وہ پنجرے کے اپر کسی چیل کی مانند بیٹھ کر کھلی ہوا میں رات بسر کرتا اور صبح گھر سے باہر چلا جاتا. یہ اور بات کہ مجھ سے ابھی بھی ویسے ہی لاڈ کرواتا، جس طرح پہلے کرواتا تھا. کافی عرصے بعد ایک روز وہ صبح ہی صبح آوارہ کتوں کے ایک غول کے حملے کا شکار ہوگیا. دیکھنے والے نے بتایا کہ وہ اپنے ساتھ کی مرغیوں کو بچانے کی کوشش میں مارا گیا. میرا صدمے سے رو رو کر برا حال تھا. گھر والے اور دوست سب تعزیت کرتے دلاسے دیتے. اسکی موت کے بعد کئی روز تک گھر پر مرغیاں آکر عجیب بھیانک آواز میں شور کرتیں. جیسے بین کررہی ہوں.
.

میں جانتا ہوں کہ یہ تحریر کچھ لوگوں کو شائد جھوٹ محسوس ہو مگر یقین کیجیئے کہ یہ بلکل سچ ہے. میں واقف ہوں کہ کچھ لوگ مجھ پر ہنسیں کہ عظیم نے یہ کیا بیکار مرغے مرغیوں کی باتیں شروع کردی ہیں؟ مگر میں خود اسے اپنی زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ گردانتا ہوں. ایسا واقعہ جس میں کئی سبق پوشیدہ ہیں.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: تصویر اصل شیرو کی نہیں ہے، مگر وہ رنگ اور قد کاٹھ میں کچھ ایسا ہی سا تھا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے