ماحولیاتی تباہی:سرمائے کی ہوس میں برباد کرہ ارض

کرہ ارض اور نسل انسانی کو درپیش خطرات میں ماحولیاتی تباہی کے خطرات سب سے سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر سال ماحولیاتی آلودگی کے باعث پچاس لاکھ انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں دیگر نقصانات اس سے الگ ہیں۔زیر زمین پانی کے ذخائر کی کمی اور ماحولیاتی تباہی نسل انسانی کیلئے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ حکمران طبقات کی دولت کی ہوس نے اس کرہ ارض کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ جبکہ انسانیت کو درپیش شدید خطرات سے لاتعلق حکمران طبقات وسائل پر قبضوں اور بیش بہا منافعوں کے حصول میں مگن ہیں۔

جہاں چین کے بعد امریکہ ماحولیاتی تباہی کا سب سے بڑا موجب بن رہا ہے وہاں ماحولیاتی تباہی کے اثرات سے جنوبی ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک میں زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں، خشک سالی، قحط اور مہلک بیماریوں سے ان خطوں میں نہ صرف انسانوں بلکہ دیگر جانداروں کی زندگیاں تباہی کے دہانے تک پہنچ چکی ہیں۔ نحیف اور کمزور سرمایہ داری کے حامل ان خطوں میں سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیاں کم سے کم لاگت سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے مقامی دلال اشرافیہ و حکمران طبقے کے گٹھ جوڑ میں لوٹ مار پر مبنی معاشی پالیسیاں ترتیب دے رہی ہیں جن کے باعث ہیلتھ سیفٹی اور ماحول دوست منصوبہ جات نا پید ہیں اوریہی وجہ ہے کہ پاور جنریشن کے نئے منصوبہ جات سمیت پہلے سے موجود فیکٹریاں اور کارخانے ماحولیاتی تباہی کا موجب بن رہے ہیں۔

گزشتہ ادوار میں لاہور، دہلی اور بیجنگ میں سموگ میں خطرناک حد تک اضافہ، کراچی سمیت دیگر شہروں میں ہیٹ سٹروک، درجہ حرارت میں شدید اضافے اور حالیہ عرصہ میں انڈیا کی مختلف ریاستوں میں ہونے والی موسمیاتی طوفانوں کی بربادی سمیت جاپان میں طوفانی تباہی اس کی چند مثالیں ہیں۔

گزشتہ ماہ اگست میں امریکی میٹرولوجیکل سوسائٹی اور نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کی جانب سے جاری کی گئی تین سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جس سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور برف پگھلنے کی رفتار میں بھی شدید تیزی آئی ہے۔ رواں سال مئی کے مہینے میں پوری دنیا کا سب سے زیادہ درجہ حرارت پاکستان کے علاقے تربت میں ریکارڈ کیا گیاجو 128.3 ڈگری فارن ہائیٹ یعنی 53 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرہ ارض پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی عالمی سالانہ شرح 4سے 5سو پارٹ فی ملین (ppm)کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی، جو نہ صرف موجودہ دور میں ریکارڈ کردہ بلند ترین سطح ہے بلکہ 8 لاکھ سال قبل کے آئس کور ریکارڈ کے مطابق بھی سب سے زیادہ ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائید کی عالمی شرح 1960ء کے مقابلے میں اب تک 400 گنا بڑھ چکی ہے۔اس سلسلے میں سب سے گرم ترین سال 2016ء قرار دیا گیا ، لیکن 2017 ء بھی کچھ بہتر نہیں رہا اور اس میں بھی دنیا کے بیشتر علاقوں میں درجہ حرارت معمول کی صورتحال سے زائد ریکارڈ ہوا۔رپورٹ کے مطابق عالمی طور پر سالانہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ارجنٹینا، بلغاریہ، اسپین، اور یوراگوئے میں رہا اور میکسکومیں مسلسل چوتھی مرتبہ سالانہ درجہ حرارت کا ریکارڈ ٹوٹا۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی 90 فیصد سے زائد آبادی ایسے مقامات پر رہتی ہے جہاں پر فضائی آلودگی کی شرح اس حد سے بڑھ چکی ہے جہاں یہ انسانی صحت کے لیے بے حد مضر ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی میں سب سے خطرناک اور زہریلے عناصر ڈیزل کاروں، لکڑی سے جلائے جانے والے چولہوں اور کیمیائی تجربات کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔

قدرتی ماحول میں اس حد تک تبدیلی جو جانداروں کی اجتماعی یا انفرادی زندگی میں عدم استحکام یا تکلیف پیدا کرے وہ ماحولیاتی آلودگی یا تبدیلی قرار دی جاتی ہے۔ ہوا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اضافہ ، گندگی، کوڑاکرکٹ کے ڈھیر، گاڑیوں سمیت دیگر مشینوں کے شور ، زیر زمین ذخائر بشمول پانی میں کمی، تابکار مادوں کے اخراج، فیکٹریوں و کارخانوں کے مضر صحت کیمیکلز اور فاضل مادوں کے دریاؤں، ندی نالوں میں اخراج ماحولیاتی تناسب کو بگاڑ رہا ہے۔زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے کئی قسم کی کھادوں اور کیمیکلز کا استعمال الٹا زمینوں کو بنجر بنا رہا ہے۔ان سب کے علاوہ دیگر بے شمار نظر نہ آنے والی تبدیلیوں کے باعث قدرتی ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔

کرہ ارض پر زندگی کا وجود ہر طرح کے چھوٹے اور بڑے جانداروں،نباتات، گلیشیئرز، سمندروں اور زیر زمین ذخائر،گرین ہاؤس گیسوں کے ایک متوازن امتزاج اور ایکو سسٹم کے تناسب سے ہی ممکن ہے ۔ اس توازن میں بگاڑ ایکو سسٹم کی تباہی اور اس کرہ ارض پر زندگی کے وجود کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ سورج کی روشنی سے حرارت کو جذب کر کے زمین کے درجہ حرارت کو زندگی کیلئے موافق بنانے والے گلیشیئرزکے پگھلنے اور گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کی بڑی وجوہات میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی سمیت کارخانوں اور فیکٹریوں کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات بھی شامل ہیں۔ اس اضافے کے نتیجے میں زمین کادرجہ حرارت بڑھ رہاہے جس کے باعث خشک سالی، گلیشیئرز کے پگھلنے، سیلابوں، آتش فشاں کے پھٹنے اورسمندری طوفانوں میں اضافے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین صدیوں کے دوران فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں تیس فیصد اضافہ ہوا ہے، اس وقت فضا میں جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے اتنی گزشتہ آٹھ لاکھ سالوں میں کبھی نہ تھی۔ گزشتہ سو سالوں میں اوسط درجہ حرارت میں 0.8فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں سے 0.6فیصد اضافہ صرف گزشتہ تین عشروں میں ہوا ہے جبکہ سطح سمندر میں بھی سالانہ اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سرمائے کی ہوس میں مبتلا حکمران طبقات اپنی لوٹ مار میں مگن کس تیزی کے ساتھ اس کرہ ارض کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔

دوسری طرف سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا زیادہ اثر غریب ملکوں پر پڑے گا جہاں اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔موسم میں یک لخت تبدیلی کی وجہ سے جانداروں کی بہت سی نسلیں ناپید ہو جائیں گی۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ملیریا، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور قحط سالی سے لاکھوں لوگ موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔اس کے علاوہ سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے سے تیزابیت بڑھ جائے گی۔ اس سے سمندری حیات پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ تیس سالوں میں گرمی کی شدت میں اضافے اور بارشوں میں کمی کے باعث بھارت کی آبادی بری طرح سے متاثر ہو گی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ ساٹھ سالوں میں بھارت کے درجہ حرارت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ پورے جنوب ایشیا کی نصف آبادی بھارت میں رہائش پذیر ہے جس کی وسطی ریاستیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اور بارشوں میں کمی کے ساتھ ساتھ موسمی طوفان بھی اس خطے کے باسیوں کیلئے ایک خطرے کے طور پر ابھررہے ہیں۔ آنے والے تین عشروں میں بھارت کو پانی کے سب سے طویل بحران کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں تقریباً ساٹھ کروڑ لوگ پانی کی کمی سے متاثر ہوں گے۔ آئندہ پندرہ سالوں میں دہلی جیسے کئی بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کی رسائی ختم ہو جائیگی۔ پینے کا پانی آلودہ ہونے کے باعث مہلک بیماریوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

عالمی بینک کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شرح خواندگی میں اضافے، پانی کی فراہمی کے بہتر نظام اور غیر زرعی سیکٹر میں بہتر مواقع پیدا کرنے سے صورت حال بدل سکتی ہے لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی سرمایہ دار طبقات زیادہ سے زیادہ شرح منافع کے حصول کے لیے جو اقدامات کر رہے ہیں اور جو اصل میں ماحولیاتی تباہی کا سبب بن رہیں ان کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کس طرح سے روکا جا سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال سے اس وقت تک نکلا نہیں جا سکتا جب تک پیداوار کے مقصد کو منافع اور شرح منافع کے حصول کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل اور ماحول دوست اقدامات سے مزین نہیں کیا جاتا جو صرف اور صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں ہی ممکن ہے۔ سرمایہ داری نظام کے رہتے ہوئے انسانیت کو اس تباہی سے بچانے کا کوئی معقول راستہ میسر نہیں ہے۔

ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی شدید نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں موسمی تبدیلی کے سبب لوگوں کی آمدنی میں ساڑھے 14 فی صد تک کی کمی کا خدشہ ہے جبکہ پاکستان میں پانی کی شدید کمی، زیر زمین پانی کے ذخائر میں گراوٹ، فضائی وصوتی آلودگی اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ گزشتہ سال میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ درجہ حرارت بھی پاکستان میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ امریکہ کی ایریزونا یونیورسٹی میں پاکستانی گلیشیئرز پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اپنے تحقیقی مقالے میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار کم ہو رہی ہے اور درجہ حرارت مزید گر رہا ہے۔

ایک پاکستانی اور تین امریکی سائنسدانوں نے ہمالیہ، قراقرم اورہندوکش کے پہاڑوں میں موجود گلیشیئرز پر گزشتہ پچاس سال کا ڈیٹا اکٹھا کر کے اس تحقیق کی بنیاد رکھی ہے۔ امریکی جیوفزیکل یونین نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے اس مقالے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی گلیشیئرز باقی دنیا کے گلیشیئرز کے برعکس کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی کا خدشہ ہے۔ پاکستانی دریاؤں میں آنے والے عرصہ میں پانی کی یہ کمی سات فیصد تک ہو سکتی ہے۔ ان گلیشیئرز سے نکلنے والے دریاؤں کے پانی پر نہ صرف پاکستان کی زراعت بلکہ بڑے ڈیمز اور جھیلیں بھی منحصر ہیں۔ گلیشیئرز بڑھنے کی وجہ درجہ حرارت کی کمی کو قرار دیا گیا ہے جس کے باعث بادلوں میں کمی سے بارشوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں پانی کے ذخائر تشویش ناک سطح تک کم ہورہے ہیں جبکہ انفراسٹرکچر کی حالت یہ ہے کہ صرف تین دن تک پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جس کے باعث آنے والے دس سالوں میں پاکستان میں زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی، سڑکوں پر ٹریفک کی بہتات، رکشوں، پرانی بسوں، بوسیدہ انجنوں اور فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں، زرعی اراضی پر فصلوں کو آگ لگانے جیسے اقدامات سے پاکستان کے تمام بڑے شہر بیماریوں کے گڑھ بن چکے ہیں ۔ کراچی ، لاہور اور پشاور سمیت تمام بڑے شہروں میں زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں، حکمران طبقات اور ماحولیات کے محکمہ جات زبانی جمع خرچ سے زیادہ کوئی اقدامات کرنے کے اہل نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستانی سرمایہ دار تاریخی طور پر اس کلاسیکل حیثیت کے حامل ہیں کہ وہ ماحول دوست مشینری کے استعمال کے ذریعے سے اپنے منافعوں کی شرح کو برقرار رکھ سکیں۔ ایک طرف پانی کے ذخائر ناپید ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف فیکٹریوں اور کارخانوں کے زہریلے کیمیکلز پر مشتمل فاضل اخراج کوندی نالوں، دریاؤں ، سمندر اور پانی کے دیگر ذخائر میں کھلے عام چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے پینے کے صاف پانی کا حصول پاکستان میں ناممکن بنا دیا گیا ہے جبکہ سمندری حیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔

جرمن واچ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے اْن 10 ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، جنہیں سخت ماحولیاتی تغیرات کا سامنا ہے۔ بات یہاں پر رکتی نہیں بلکہ پاکستان کی زمینی، سمندری اور فضائی آلودگی سے پورا ایکوسسٹم کو متاثر ہو رہاہے اور دنیا کے اْن بارہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں پورے ایکو سسٹم کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

ہائیڈل پاور جنریشن، جنگلات کی کٹائی اور قدرتی ذخائر کی نکاسی کے بڑھتے ہوئے سلسلے نے پاکستان و بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو بھی شدید ترین ماحولیاتی اور آبی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ نیلم سمیت دیگر علاقوں سے قدرتی جڑی بوٹیوں، قیمتی پتھروں کی کان کنی اور جنگلات کی کٹائی سے ایکو سسٹم کو برباد کرنے کا سلسلہ مقامی حکمران اشرافیہ کی آشیرباد سے جاری ہے۔ جہاں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کیلئے دریا کارخ موڑا گیا اور ماحولیاتی تبدیلی سے بچاؤکیلئے کوئی حفاظتی اقدامات نہ ہوئے وہاں پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں (اسی دریا پر جسے اس علاقے میں نیلم کے نام سے جانا جاتا ہے) نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے دوران دریا کا رخ بدلنے سے لاکھوں کی آبادی ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہو چکی ہے، اس کے علاوہ دیگر ہائیڈل منصوبہ جات پر بھی کام کیا جا رہا ہے ۔

مقامی حکمرانوں اور محکمہ جات کی ملی بھگت سے ماحولیات کے جعلی سروے اور رپورٹس مرتب کروائی جاتی ہیں لیکن ان رپورٹس کے برعکس اس خطے میں زندگیوں کو بربادیوں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ دریائے نیلم کا رخ موڑے جانے سے مظفرآباد شہر اور ملحقہ علاقوں میں پانی کی شدید کمی اور زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو جانے کے باعث تین سو سے زائد قدرتی چشمے خشک ہو چکے ہیں۔ مظفرآباد شہر کو پانی سپلائی کرنے والی ماکڑی واٹر سپلائی سکیم کیلئے پانی کی مقدار کم ہو گئی ہے جبکہ دریا کے بہاؤ میں کئی گنا کمی کے باعث یہ دریا ایک نالے کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے باعث علاقے کا درجہ حرارت کئی گنا بڑھ چکا ہے ۔ محتاط اندازے کے مطابق چھ لاکھ سے زائد آبادی خطرے میں پڑ چکی ہے۔

اس کے علاوہ ٹرانسمیشن لائنز کی بچھائی کے دوران بھی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے اثرات کی روک تھام کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ حالانکہ تحفظِ ماحولیات کی طرف سے مذکورہ پراجیکٹ کیلئے واپڈا پر عائد کی گئی شرائط میں کہا گیا تھا کہ واپڈا قومی تحفظِ ماحولیات کے معیار کا پابند ہو گا، پانی کا 15کیومک بہاؤیقینی بنایا جائے گا، پانی کے بہاؤ کو ماپنے کے لیے جدید ترین آلاتنصب کیے جائیں گی جس کی نگرانی حکومت آزاد کشمیر اورواپڈا مشترکہ طورپر کریں گے۔ واپڈا سیوریج کے16 نظام نصب کرے گا جبکہ نیلم دریا کے ساتھ مظفرآباد کی بلدیہ حدود میں پانی کے معیار کو جانچنے کے بھی انتظامات کرے گا۔ اگر مظفرآباد کو پانی فراہم کرنے والی ماکڑی واٹر سپلائی میں پانی میں کمی ہوئی تو واپڈا اسے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا پابند ہو گا۔ مستقبل میں اگر مظفرآباد کی بلدیہ حدود کو بڑھایا جاتا ہے تو واپڈا اس کیلئے اضافی پانی فراہم کرنے کا بھی پابند ہو گا۔ ٹنل کی کھدائی سے قدرتی پانی کے جو ذرائع ختم ہوں گے واپڈاان کامتبادل پانی فراہم کرنے کا ذمہ دار ہو گا۔ مزید برآں واپڈا دریائے نیلم کی خوبصورتی بحال کرنے کے لیے پتھراور چٹانیں ہٹائے گا اور پانی کے بہاؤ کو کھلا رکھے گا۔

مذکورہ بالا شرائط پر پورا اترنا تو درکنار ابھی تک مقامی حکومت سے باقاعدہ یہ معاہدہ ہی نہیں کیا جا سکاجبکہ پیداوار کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ صرف اس ایک حکومتی منصوبہ کی لاگت اور دورانیے کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے حکمران عوامی ضروریات کو پورا کرنے کا کوئی منصوبہ بھی منافعوں، کمیشن، کَک بیکس اور دیگر مفادات کے حصول کے بغیر مکمل نہیں کر سکتے ہیں۔

نیلم جہلم پراجیکٹ کا ابتدائی ترمیمی تخمینہ 2007ء میں 190ارب روپے لگایا گیا تھا اور اسے 2015ء میں پورا کیا جانا تھا، جو 2018ء میں مکمل ہوا اور لاگت 506.8ارب روپے تک بڑھ گئی، جن میں سے 220ارب روپے سے زائد رقم غیر تعمیراتی اخراجات پر خرچ کی گئیجبکہ 87ارب روپے قرضوں پر سود کی مد میں اداکیے گئے۔ 12.15فیصد شرح سود پر چینی اور سعودی بینکوں سے قرضہ لیا گیا جبکہ 11.79فیصد شرح سود پر مقامی کمرشل بینکوں سے قرض لیا گیا۔ اس پراجیکٹ سے سالانہ 48ارب روپے صارفین سے صرف قرضوں کی مد میں وصول کئے جائیں گے جبکہ کل پچپن ارب روپے سالانہ زرمبادلہ حاصل کیا جائیگا۔ لیکن اس کی قیمت اس خطے کے باسیوں کو اپنی زندگیاں داؤ پر لگاکر چکانی پڑے گی۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے خطرناک حدتک پھیل جانے کے باوجود گزشتہ عرصہ میں امریکہ کی پیرس معاہدے سمیت ماحولیاتی تباہ کاری کی روک تھام کے دیگر معاہدوں سے علیحدگی اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ حکمران طبقات کس حد تک اس اہم ترین مسئلہ پر سنجیدہ ہیں۔ پاکستانی حکمران اور سرمایہ دار تو تاریخی طور پر اس قابل ہی نہیں ہیں کہ وہ اس طرح کے پیچیدہ مسائل کے بارے میں محض غور ہی کر سکیں۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے سرمایہ دار طبقے کے بے تحاشہ منافعوں کا حصول ممکن ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ فاضل مادوں اور گیسوں کے اخراج سے پیداہونیوالے مضر اثرات کی روک تھام پر بھی خرچ کریں ۔ اس لئے وہ منافع اور دولت کی لوٹ مار اور ہوس میں مزید تباہ کاریوں کا موجب بن رہے ہیں۔

انسانی ضروریات کی اشیا کو انسانی ضرورت کے مقصد کے برعکس منافع کے حصول کیلئے بنائے جانے کی مقابلہ بازی ماحول اور ایکو سسٹم کی بربادی کی وجہ بن رہی ہے۔ یہاں تک کہ بیش بہا منافعوں کے حصول کیلئے زرعی اراضی کا بھی استحصال کرتے ہوئے زہریلا کیا جا رہا ہے، انسانی تہذیب کو درپیش خطرات سے اسی صورت نمٹاجا سکتا ہے کہ پیداوار کے ذرائع کی نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جائے اور ان کو محنت کشوں کی مشترکہ انجمنوں اور کمیٹیوں کے ذریعے ایک منصوبہ بند معیشت کے زیر اثر کیا جائے۔ تمام بوسیدہ اور مہلک ٹرانسپورٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے جدید ماحول دوست ٹرانسپورٹ کا اجرا کیا جائے۔ صنعت کاری کو ماحول دوست بنایا جائے اور انسانی آبادکاری کو منصوبہ بندی کے ذریعے از سر نو ترتیب دیا جائے اور جدید تکنیک اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے ہر امکان کو رد کیا جائے۔ لیکن یہ اقدامات ایسے نظام میں ممکن نہیں ہیں جہاں کرہ ارض کی کل دولت پرمحض چند سرمایہ دارحکمرانوں کا قبضہ ہو اور وہ اس دولت میں اضافے کیلئے انسانی تہذیب تک کو مٹانے سے کسی طور دریغ نہ کر رہے ہوں۔ اس کرہ ارض کو تباہی سے بچانے کیلئے دولت اور ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت اور منصوبہ بندی کے علاوہ نسل انسانی کے پاس اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے