انڈین روپیہ کمزور تو مودی کمزور؟

انڈیا میں کچھ باتیں ایسی ہو رہی ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوئیں، اور سبھی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے بری خبریں ہیں۔

مہارشٹر کے کچھ شہروں میں پیٹرول کی قیمت 90 روپے کی ‘نفسیاتی حد’ پار کر گئی ہے اور ڈیزل 80 سے اوپر فروخت ہو رہا ہے۔

ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، اس وقت بھی نہیں جب بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمت ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل کے ارد گرد منڈلا رہی تھی۔

فی الحال مہنگا ہونے کے باوجود بھی تیل عالمی منڈیوں میں اس کی آدھی قیمت پر دستیاب ہے لیکن پھر بھی اس کا اثر پیٹرول پمپوں پر نظر نہیں آ رہا ہے جہاں صرف ایک مہینے میں قیمتوں میں پانچ روپے فی لیٹر سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

پیٹرول مہنگا ہوتا ہے تو پورے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سیکٹر پر اثر پڑتا ہے، ڈیزل مہنگا ہوتا ہے تو کسان ناراض ہوتے ہیں۔ اور جس حکومت سے کسان ناراض ہو جائیں اس کے لیے اقتدار میں قائم رہنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ انڈیا اب بھی کسانوں کا ہی ملک ہے۔

دوسرا مسئلہ ہے روپے کی قدر و قیمت جو کچھ اس تیزی سے گر رہی ہے کہ کسی نے سوچا نہ ہو گا۔

روپیہ اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں 73 کی حد چھو رہا ہے، جو پہلے کبھی نہیں ہوا اور ماہرین کا خیال ہے کہ عنقریب کسی بہتری کا زیادہ امکان نہیں ہے۔

صرف جنوری سے اب تک روپے کی قدر 13 فیصد سے زیادہ گر چکی ہے اور اس لحاظ سے ایشیا میں انڈین روپے کی حالت سب سے خراب ہے۔

گذشتہ جمعہ کو حکومت نے آخر کار کہا کہ وہ روپے کو سنبھالنے کے لیے کچھ شعبوں میں درآمدات پر پابندیاں لگانا چاہتی ہے۔

ان شعبوں کا ابھی اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن ٹیلی کام، دفاع، پیٹرولیم اور الیکٹرانکس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو امریکہ جیسے ممالک بھی جوابی کارروائی کر سکتے ہیں۔

اگر روپے کو سنبھالنے کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں تو وزیراعظم نریندر مودی کے سامنے راستے محدود ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ ملک کا ‘کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ’ یا برآمدات اور درآمادات کی کل مالیت میں فرق بڑھتا چلا جائے گا۔

یہ فی الحال 16 ارب ڈالر کے قریب پہنچ رہا ہے۔ روپیہ ترکی اور ارجنٹائن کے مالی بحران کی وجہ سے بھی دباؤ میں ہے لیکن جتنا یہ خسارہ بڑھے گا اتنا ہی روپے پر دباؤ بھی۔

ڈالر جتنا مہنگا ہوتا جائے گا، درآمدات بھی اتنی ہی مہنگی ہوتی جائیں گی اور بری خبر یہ بھی ہے کہ انڈیا اپنی ضرورت کا 83 فیصد تیل درآمد کرتا ہے۔

ڈالر مہنگا تو تیل بھی مہنگا۔ تیل کی قیمت کم کرنے کے لیے ٹیکسوں میں تخفیف کے امکان سے حکومت پہلے ہی انکار کر چکی ہے۔

ٹیکس کم کیے تو حکومت کی آمدنی کم ہوگی اور الیکشن کے سال میں، جب ترقیاتی کاموں کے لیے زیادہ پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، حکومت کے لیے یہ قابل عمل تجویز نہیں ہے۔ (پیٹرول پمپ پر تیل کی قیمت کا انحصار ڈالر کی قدر اور کچے تیل کی قیمت کے علاوہ بڑی حد تک ریاستی اور وفاقی ٹیکسوں پر ہوتا ہے جو، حزب اختلاف کے مطابق، انڈیا میں بہت زیادہ ہیں)۔

تیسرا، اپوزیشن جماعتوں میں یہ احساس کہ وہ تنہا نریندر مودی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، اور اگر وہ متحد ہو جائیں تو اچانک ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل سکتا ہے۔

اس کی مثال اتر پردیش میں نظر آرہی ہے۔ یو پی میں سابق وزیراعلی مایاوتی نے جب یہ کہا کہ اگر سیٹوں کے بٹوارے میں انھیں ان کی سیاسی حیثیت کے حساب سے حصہ نہیں ملا تو وہ اپوزیشن کے اتحاد میں شامل نہیں ہوں گی، تو جواب میں ریاست کی دوسری سابق حکمراں جماعت سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھیلیش یادو نے کہا کہ بی جے پی کو ہرانے کے لیے اگر ضروری ہوا تو وہ دو قدم پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں۔ اور یہ ایک ایسی ریاست میں جہاں دونوں ہی اقتدار کے مضبوط دعویدار ہیں۔

انڈیا کی سیاست میں اتحاد تو بہت بنے ہیں، لیکن یہ جذبہ شاذ ونادر ہی نظر آتا ہے۔ سنہ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد اندرا گاندھی کو ہرانے کے لیے بھی تمام جماعتیں ایک ہی پلیٹ فارم پر آئی تھیں، بلکہ ایک ہی پارٹی میں ضم ہو گئی تھیں، اٹل بہاری واجپئی بھی جنتا پارٹی میں شامل تھے اور وزیراعظم مورارجی دیسائی بھی، لیکن یہ پارٹی جتنی جلدی بنی تھی اس سے بھی جلدی بکھر گئی تھی۔

اس کے علاوہ، کچھ بری خبر امریکہ سے بھی ہے۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیاں نومبر سے عمل میں آ جائیں گی اور اگر امریکہ نے انڈیا کو ایران سے تیل کی خرید جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی تو اس کے سامنے یہ لمحہ فکریہ ہو گا کہ کرے تو کیا کرے؟ تیل خریدا تو پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے اور نہیں تو پرانے دوست ایران سے ملنے والے سستے تیل کی کمی کہاں سے پوری ہو گی؟

امریکہ نے چین سے اپنی تجارتی جنگ میں ایک نیا راکٹ داغتے ہوئے 200 ارب ڈالر مالیت کی درآمدات پر نئے ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے۔

چین بھی جوابی کارروائی کرے گا، جیسا کہ اس نے ماضی میں کیا تھا اور ایسا ہوتا ہے تو یہ تجارتی جنگ قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔

ایسے میں مالیاتی ادارے گولڈمین سیکس نے انڈیا کی ریٹنگ ‘اوور ویٹ’ سے کم کر کے ‘مارکٹ ویٹ’ کر دی ہے۔ آسان زبان میں اس کا مطلب یہ ہےکہ ایجنسی کو معیشت کی صحت اور موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت پر اب اتنا بھروسہ نہیں ہے جتنا اس وقت تھا جب نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تھا۔

اور اس سب پر کانگریس پارٹی بھی ہندوتوا کا کارڈ کھیلنے کی تیاری میں نظر آ رہی ہے۔ وسطیٰ ریاست مدھیہ پردیش میں کانگریس کے سینیئر لیڈر کمل ناتھ نے ‘رام پتھ یاترا’ نکانلے کا اعلان کیا ہے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کانگریس پارٹی بھی اب سیاست میں مذہب کو استعمال کرے گی تو ان کا جواب کچھ یہ تھا کہ رام پر صرف بی جے پی کی اجارہ داری نہیں ہے۔

اگر معیشت مشکلات کا شکار ہو گی، امریکہ چین اور باقی بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ ہو گی، تیل اور ڈالر دونوں مہنگے ہوں گے اور حزب اختلاف متحد، تو پھر آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں کیا ہو گا؟

بس یوں سمجھ لیجیے کہ قیامت ہو گی۔ نریندر مودی نے وزیراعظم بننے سے پہلے کہا تھا کہ’رویے آج ہسپتال میں زندگی اور موت کے بیچ کھڑا ہے۔۔۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ دہلی کی حکومت اور روپے کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے، کس کی آبرو زیادہ تیزی سے گرے گی۔۔۔’

وزیراعظم نریندر مودی کو یہ فکر تو ضرور ہو گی کہ پانچ سال پہلے جو بات انھوں نے ووٹروں کے ذہن میں ڈالی تھی، وہ انھیں ابھی یاد نہ ہو۔ کیونکہ ایسا ہوا تو یہ مسٹر مودی کے لیے بری خبر ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے