مریم نوازکی قیادت کا لمحہ آن پہنچا؟

سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب کئی ماہ بعد تازہ ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ بدھ کی سہہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا کے خلاف کی گئی ان کی اپیل کا فیصلہ سنا دیا اور نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر)محمد صفدر کی رہائی کا حکم دے دیا ۔ عدالتی حکم کے چار گھنٹے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ضروری کارروائی کے بعد نواز شریف و دیگر رہا کر دیے گئے۔ جب سہہ پہر کے وقت عدالت نے ان کی رہائی کو حکم دیا تو وہاں موجود ایک متحرک رپورٹر سے میری بات ہوئی ۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آتے ہی عدالت کے احاطے میں ’’وزیراعظم نواز شریف‘‘ اور ’’ٓآیا آیا شیر آیا ‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے۔جب رات اڈیالہ جیل سے نواز شریف نکل رہے تھے تو کئی کلومیٹر طویل گاڑیوں کی قطاریں اُن کے استقبال کے لیے سڑک پر موجود تھیں۔مسلم لیگ نواز کے کارکنوں میں جوش اور خوشی کی سرشاری عیاں تھی۔

پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتوں کو جذبات سے لبریز کارکنوں کی بڑی تعداد میسر ہے۔ یہ کارکن جرم وخطا کی بحث سے بالا تر ہو کر اپنی پسندیدہ شخصیتوں پر جان چھڑکتے ہیں۔ ماضی میں عوام کی جانب سے ایسا والہانہ پن ذوالفقار علی بھٹو کے لیے دیکھا گیا۔ اس کے بعد اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بڑی عوامی مقبولیت ملی۔ نواز شریف کا ابتدائی سیاسی کرئیر توایسا عوامی نہیں تھا لیکن 1999ء میں جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس پر قبضہ کیا تو نواز شریف کی سیاسی عصبیت نے ایک اور ہی رخ اختیار کر لیا۔ نواز شریف پہلے پسِ دیوارِ زنداں دھکیلے گئے اور پھر انہیں سعودی عرب اس یقین دہانی کے بعد جلا وطن کر دیا گیا کہ وہ 10 برس سیاست کا سوچیں گے بھی نہیں ۔

پاکستان میں ان کی پارٹی پر یہ ابتلاء کا دور تھا جس نے چَھلنی کا کام کیا ۔ مسلم لیگ کی کوکھ سے مسلم لیگ قائداعظم نے جنم لیا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لی۔ گجرات کے چوہدری برادران اس کے روح رواں اور فوجی آمر مشرف کی آنکھ کے تارے قرار پائے۔موسمی ہوا کا رُخ دیکھ کر کئی لوگ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ گئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی ، خواجہ آصف ،مشاہد اللہ ، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور دیگر چند لوگ مگر میدان میں ڈٹے رہے اورکڑا وقت گزر گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ فوجی آمر کمزور پڑ گیا کہ اس کے پاس ناجائز طور پر اقتدار میں رہنے کی گنجائش کم ہورہی تھی۔ این آر او نامی ایک سمجھوتا ہوا جس کے بعد بے نظیر ملک میں واپس آئیں،بدقسمتی سے وطن واپسی کے کچھ ہی دن بعد اسی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اندھی گولی کا نشانہ بن کر وہ چل بسیں۔ بعد ازاں نواز شریف بھی وطن آگئے۔ کچھ لوگوں نے 1999ء میں نواز شریف کی جلا وطنی کو ان کی سیاسی موت سمجھناوہم ثابت ہوا ۔ بے نظیر کے قتل کے بعد جو الیکشن ہوئے ان میں پیپلز پارٹی کو حکومت ملی ۔ اس دوران مسلم لیگ کا پیپلز پارٹی سے تعاون ناقدین کے ہاں ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کہلاتا رہا لیکن وہ دونوں فوجی آمروں کے ڈسے ہوئے تھے، ساتھ چل رہے کہ کہیں تیسری قوت نقب نہ لگا لے ۔

2013ء میں وہی نواز شریف تیسری بار حیران کن اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بن گیا جسے ایک آمر نے بدعنواناور غدار تک ثابت کرنے کے جتن کیے تھے۔ نواز شریف نے آئین کو پامال کرنے والے اس فوجی آمر کے خلاف آرٹیکل 6 یعنی سنگین غداری کا کیس دائر کیا تو وہ ڈکٹیٹر پہلے بیمار بن کر ہسپتال پہنچا اور پھر اپنے ہی بیان کے مطابق اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدد سے دبئی کی نشاط انگیر عشرت گاہ میں باحفاظت پہنچ گیا۔

نواز شریف اب کی بار اقتدار میں آتوگئے لیکن یہ تخت کانٹوں کا ثابت ہوا۔ وہ مسلسل دباؤ اور غیر جمہوری قوتوں کی نئی ’’ڈاکٹرائن‘‘ کے نشانے پر رہے ۔اس بیچ لمبی کہانی ہے۔ مختصر یہ ہے نواز شریف ملک کی احتساب عدالت سے ’’بدعنوانی‘‘ کی ’’سند‘‘ لے کر ایک بار پھر اڈیالہ جیل کا مکین بن گیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب کی بار چھوٹے بھائی شہباز شریف کی بجائے اس کے ساتھ اس کی بیٹی مریم اور داماد صفدر تھے۔ اب بھی بہت سوں نے یقین کر لیا تھا کہ کہانی ختم چکی۔باب بند ہو چکا، لیکن بدھ 19 ستمبر2018 کی شام کہانی نے ایک اور ڈرامائی موڑ لے لیا ہے۔

نواز شریف کی سیاسی موت کے مژدے سنانے والے دانشوروں سے جب پوچھا جاتا کہ وہ رہا ہو جائے گا تو وہ بڑے یقین سے کہتے کہ موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ تک تو ایسی کوئی توقع نہیں ہے یعنی نومبر 2019ء کی 29 تاریخ تک ۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا ۔بدھ کی شام یہ بات ایک مفروضہ ثابت ہوگئی۔

اس مقدمے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ نواز شریف کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے ان ججوں نے نااہل قرار دیا جنہوں نے ماضی فوجی آمر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی تہمت اپنے سر رکھی ہوئی ہے اور اپیل کے بعد ہائی کورٹ کے جن دو ججوں کا بینچ بنا ، وہ پی سی او کی تہمت سے محفوظ تھے ۔ عدالت کی کارروائی کی رپورٹنگ کرنے والوں کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن کے سامنے سماعت کے دوران نواز شریف کو سزا سنانے والے قومی احتساب بیورو(نیب) کے پراسیکیوٹرز جس انداز میں بد حواس نظر آرہے تھے، اسے دیکھ کر متوقع فیصلے کی پیشین گوئی بہت آسان ہو گئی تھی۔

نوازشریف چند دن قبل اپنی اسیری کے دوران اپنی 48برسوں کی رفیقۂ حیات بیگم کلثوم نواز کی جدائی کے صدمے سے بھی دوچار ہوئیتوحکومت نے اہلیہ کی تجہیز وتکفین کے لیے انہیں پانچ دن کیلئے پیرول پر رہاکیا۔ پیرول کا دورانیہ مکمل ہوتے ہی وہ دوبارہ جیل کی کوٹھڑی میں پہنچائے جا چکے تھے۔میڈیا میں چلنے والی ان کی تصاویر میں وہ کافی شکستہ دکھائی دیتے تھے لیکن اب ایک بار پھر نواز شریف اور ان کی بیٹی کو موقع ملا ہے۔ اب دیکھیے کہ وہ محتاط کھیل کھیلتے ہیں یا پھر پوری توانائی سے پارٹی کا شیرازہ جمع کرتے ہیں۔ ان کے سروں پر العزیزیہ ریفرنس نامی تلوار ابھی لٹک رہی ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس پر نظرثانی کی اپیل بھی سنی جارہی ہے۔ کل کا کچھ علم نہیں کہ تاریخ اُن کے لیے کون سی جگہ کا انتخاب کرتی ہے۔

نواز شریف کو جیل کی سزا سنانے والی احتساب عدالت کے وکیلوں کی اپنے دفاع میں ناکامی اور اس کے نتیجے میں نواز شریف کی رہائی کے فیصلے کے بعد اُن لوگوں کو اپنی دلیل درست لگنے لگی کہ احتساب کایہ اسٹیج شو صرف الیکشن کے نتائج کو منیج کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ نواز شریف کی عدالت سے نااہلی کے بعد وہ اور ان کی بیٹی پے درپے بڑے بڑے جلسے کر رہے تھے۔ ان جلسوں میں عدالتوں اور دیگر درپردہ طاقتور قوتوں پر کبھی کھلی تو اکثر کنایوں میں تنقیدکی جاتی تھی۔ مریم نواز کا انداز کچھ زیادہ ہی جارحانہ تھا۔وہ سوشل میڈیا پر بھی برابر طنز کے نشتر چلاتی تھیں اور ان کی ٹیم تو کافی آگے نکل جایا کرتی تھی، نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف، دیرینہ مگر اکھڑمزاج ساتھی چوہدری نثار البتہ انہیں سمجھانے کی کوششیں کرتے رہے کہ بڑی طاقت سے ٹکر نہ لو، مفاہمت میں سلامتی ہے ۔لیکن اب کی بار کا نوازشریف نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں کے نواز شریف سے بالکل ہی الگ کوئی شخص تھا۔

نواز شریف کامیابی سے لوگوں میں یہ تاثر قائم کر رہے تھے کہ وہ پاکستان میں سویلین بالادستی اور جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انجام مگران کا وہی ہوا جس سے انہیں ڈرایا جا رہا تھا ۔الیکشن کے عمل سے نواز شریف کی علیحدگی نے اپنا اثر ان کی پارٹی شکست کی صورت میں دکھایا اور اپنی نوعیت کے اس ’’منفرد‘‘ مقابلے میں ان کے سیاسی حریف عمران خان اپنی منزل مقصود یعنی وزرات عظمیٰ تک پہنچ گئے۔اب لوگ نواز شریف کی قید اور الیکشن کے لیے بنائے گئے ماحول کو ملا کر دیکھتے ہیں تو شکوک مزید گہرے ہوتے جاتے ہیں۔

اس وقت سوال یہ ہے کہ اب ہو گا کیا؟ کیانواز شریف کَم بیک کریں گے؟ اس کا جواب ابھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ موجودہ حکومت ، عدلیہ اور عسکریہ ایک ’’صفحے‘‘ پر ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔ نواز شریف کے سر پر العزیزیہ ریفرنس کی تلوار ابھی تک موجود ہے۔ تیسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی سیاست کچھ عرصے سے گومَگو کا شکار نظرآتی ہے۔ ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف شاید لیڈر کے روپ میں سامنے آ جائیں ۔ پاکستان میں سیاست دانوں کا جیل میں جانا ان کی سیاسی اہمیت کو بڑھاتا ہے اور مریم تو خاتون بھی ہیں ۔ سو عوامی ہمدردی کا ایک اورپہلو یوں بھی نکل آتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز اسی پہلے والے جارحانہ انداز میں اپنی سیاسی اننگز کاآغاز کرتی ہیں یا پھر مناسب سَمے کا انتظار !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے