ایران میں فوجی پریڈ پر مسلح افراد کے حملے میں اہلکاروں سمیت 24 افراد ہلاک

تہران: ایران میں ہفتہ دفاع کے موقع پر ہونے والی فوجی پریڈ پر مسلح افراد کے حملے میں فوجیوں سمیت 24 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہوگئے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق جنوب مغربی شہر اھواز میں مسلح افراد نے فوجی پریڈ پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کردیا جہاں متعدد کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

ایرانی حکام نے 24 افراد کے ہلاک اور 70 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ہلاک شدگان میں ایرانی فورس ’پاسداران انقلاب‘ کے 12 اہلکار شامل ہیں۔ ہلاک شدگان میں ایک صحافی اور خواتین بھی شامل ہیں۔

جمہوری عرب تحریک نامی ایک تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ایرانی حکام نے بتایا کہ پریڈ جاری تھی کہ اچانک فوجی وردیوں میں ملبوس 4 دہشت گردوں نے اسٹیج کے پیچھے سے فوجیوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں بھگڈر مچ گئی۔

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری طور پر جوابی کارروائی کی گئی۔ شدت پسندوں اور فورسز کے درمیان جھڑپ تقریبا 10 منٹ تک جاری رہی جس میں چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے۔ سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی ہے اور علاقے کا محاصرہ کرکے سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔

ایران نے حملے کا الزام سعودی عرب پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ غیر ملکی عسکریت پسندوں نے کیا جنہیں سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ سعودی حکومت نے ایرانی الزام کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ حملے کے بعد ایران نے عراق کے ساتھ اپنے دو سرحدی راستے بند کردیے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ حملہ آوروں کی امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی۔ دوسری جانب تہران میں پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عراق کے سابق صدر صدام حسین سے تشبیہہ دی۔

واضح رہے کہ عراق کے خلاف جنگ کی یاد میں ایران میں ہفتہ دفاع منایا جاتا ہے۔ 22 ستمبر 1980 کو عراق نے ایران پر حملہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ 8 سال تک جاری رہی جو 20 اگست 1988 کو ختم ہوئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال تہران میں پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مزار پر حملہ ہوا تھا جس میں 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے