سسٹم نے میری 10 سالہ بیٹی مجھ سے کیسے چھینی

13 اگست 2018ء ‘نئے پاکستان’ کے طلوع کا دن تھا اور اس کا آغاز ایک مثبت انداز میں ہوا۔ اسکول میں یومِ آزادی کی تقریبات کے لیے تیاریاں عروج پر تھیں۔ بچے بیجز پہنے ہوئے تھے اور اس وزیرِاعظم کی حلف برداری کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے جو ملک میں انتہائی ضروری تبدیلیاں لانے کا وعدہ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ اس ہلے گلے سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہم نے اپنی دونوں لڑکیوں کو اسٹرنگز کے ایک کنسرٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا جو قریب ہی ہو رہا تھا تاکہ ان میں حب الوطنی کا مزید جذبہ پیدا ہوجائے۔

رات 10 بج کر 5 منٹ پر ہم اپنی گاڑی میں بیٹھے۔ ہم نے رات کا کھانا نفاست سے اپنی 6 سالہ آنیہ کے بیگ میں ڈالا۔ وہ اور میری بڑی بیٹی 10 سالہ عمل دونوں ہی اپنی زندگی کے پہلے کنسرٹ میں جانے کے لیے نہایت پُرجوش تھیں۔ ہم ٹریفک سے بچنا چاہتے تھے چنانچہ ہم نے کنسرٹ کی جگہ تک پہنچنے کے لیے ایک تیز تر راستے کا انتخاب کیا۔

راستے میں، مَیں نے اپنا فون عمل کو دے دیا تاکہ وہ سفر کے دوران میرے حالیہ پراجیکٹ کو بھی دیکھ لے۔ وہ میری اپنی انمول بیٹی سے آخری گفتگو تھی۔

جب ہم سگنل پر رُکے تو ہمیں ایک حرکت کا احساس ہوا۔ کوئی ڈرائیونگ سائیڈ کا شیشہ بجا رہا تھا مگر کچھ لمحوں تک ہم سمجھ نہیں پائے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میرے شوہر عمر نے شیشہ نیچے کیا تو ان پر بندوق تان لی گئی۔ بوکھلاہٹ کے شکار اور آنکھوں میں جنونیت لیے ہوئے ڈاکو نے گالیوں کی بوچھاڑ کردی اور ہمیں سب کچھ دے دینے کے لیے کہا۔ اس نے عمر کا فون چھین لیا اور میرا بیگ بھی کھینچ لیا جو میں اسے ویسے ہی دے رہی تھی۔ پھر وہ ہم سے پچھلی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

اس سے پہلے کہ ہم اپنے حواس میں آتے اور سگنل کے سبز ہونے اور گاڑیوں کے آگے بڑھنے کا انتظار کرتے کہ اچانک ہمیں فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں مُڑ کر اپنے بچوں کو نیچے رہنے اور نہ گھبرانے کا کہہ رہی تھی تو ایک گولی ہماری ونڈ اسکرین پر لگی۔

آنیہ عمر کی سیٹ کے پیچھے چھپی ہوئی تھی اور خوف سے چلّا رہی تھی۔ عمل پچھلی سیٹ پر لیٹی ہوئی تھی۔ اندھیرا تھا۔ پہلے تو مجھے لگا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور بالکل اسی طرح لیٹی ہوئی ہے جس طرح رہنے کے لیے میں نے ان دونوں کو کہا تھا۔ مگر وہ ہلی جلی نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بالکل ہل نہیں رہی تھی جبکہ آنیہ ابھی تک چلّا رہی تھی۔

اگلی سیٹ پر پھنسے ہونے کی وجہ سے کار کی سیٹوں کے درمیان موجود خلا سے میں نے مڑ کر اپنی بیٹی کو چھوا۔ اس کا خون بہہ رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ خون کہاں سے بہہ رہا ہے یا اسے کہاں زخم لگا ہے۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ عمل کو گولی لگ گئی ہے۔ میں نے اسے سانس لیتے ہوئے دیکھا۔ وہ سانس لے رہی تھی۔ میں نے عمر کو بتایا کہ وہ ٹھیک ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی 6 سالہ آنیہ کو کہا تھا کہ وہ پُرسکون رہے اور یہ کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔

آنیہ نے مجھ سے کہا کہ ہم کنسرٹ نہیں جاسکتے کیونکہ ہمیں عمل کو ہسپتال لے کر جانا ہوگا۔ میں نے اس سے کہا کہ ہم عمل کو ڈاکٹر کے پاس ہی لے جا رہے ہیں۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) چلتے ہیں کیونکہ وہ ہم سے قریب ترین ہسپتال تھا۔ انہوں نے شیشہ نیچے کرکے جنونی انداز میں گاڑی بھگائی اور لوگوں سے چیخ چیخ کر راستہ دینے کے لیے کہتے رہے۔

تب تک مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ میری بیٹی کو سر میں گولی لگی تھی۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے عمر سے جلدی کرنے کے لیے کہا تھا، میں نے انہیں بتایا کہ گولی سر میں لگی ہے۔ اتفاق سے ہمیں اگلے چوک پر گاڑی میں میرا کزن مل گیا۔ میں نے اسے بتایا کہ عمل کو گولی لگی ہے۔ وہ ہمارے ساتھ این ایم سی تک آئے۔

ہم ہسپتال پہنچے۔ میرا ایک ہاتھ عمل کے سر اور زخم پر تھا اور دوسرا آنیہ پر۔ عمر نے عمل کو گاڑی سے نکالا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرا فون عمل کے پاس تھا اور اب میری بیٹی کے خون میں پڑا ہوا تھا۔ عمر نے اسے اسٹریچر پر ڈالا اور اسٹاف اسے فوراً ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا جو ایمرجنسی روم کے حصے جیسا معلوم ہو رہا تھا۔

آنیہ کو باہر اسٹول پر انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔ اپنی بہن کے خون میں لت پت بیچاری بچی اپنے والدین کو بھی اس خون میں بھیگا ہوا دیکھتی رہی۔

عمل کو ٹیوبز لگا دی گئیں اور سانس پہنچانے کے لیے غبارہ لگا دیا جو کہ اٹینڈینٹس میں سے ایک اپنے ہاتھ سے پمپ کر رہا تھا۔ اس وقت انہوں نے عمر کو بتایا کہ ہمیں عمل کو یا تو سرکاری ہسپتال جناح پوسٹ گریجوئیٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) لے کر جانا ہوگا یا پھر نجی ہسپتال آغا خان یونیورسٹی ہسپتال (اے کے یو ایچ) کیونکہ وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا تھا اور وہ ہماری بچی کے لیے مزید کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

اس وقت ہمیں کچھ بھی اندازہ نہیں تھا کہ گولی کہاں سے آئی تھی، آیا وہ ابھی تک اس کے سر میں تھی یا نکل گئی تھی۔ اسٹاف نے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا سوائے اس کے کہ ہمیں اسے دوسرے ہسپتال لے کر جانا ہوگا۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کھڑے رہے اور کچھ بھی نہیں کیا۔

ہم نے ان سے ایمبولینس کا انتظام کرنے کے لیے کہا۔ ہمارے اصرار پر آخر کار ہسپتال میں سے کسی نے امن فاؤنڈیشن کو کال ملائی اور تفصیلات کے لیے فون مجھے تھما دیا۔ ایک شدید زخمی بیٹی اور ایک صدمے سے دوچار بیٹی کو سنبھالنے کے دوران فون پر امن فاؤنڈیشن کی نمائندہ نے مجھ سے جناح ہسپتال یا آغا خان ہسپتال میں بستر کا انتظام کرنے اور اس کی تصدیق کرنے کے لیے کہا۔

میں نے اس سے کہا کہ انتظامات ہوجائیں گے مگر انہیں جلد از جلد ایمبولینس بھیجنی چاہیے۔ وہ ایک بات بار بار دہراتی رہی کہ انہیں تصدیق چاہیے ہوگی جس کے بعد وہ واپس کال کرے گی۔ میں نے اصرار کیا کہ وقت نہیں ہے اور میری 10 سالہ بیٹی کو سر میں گولی لگی ہے اور یہ کہ انہیں فوراً ایمبولینس بھیجنی ہوگی۔ فون پر موجود نمائندہ نے مجھ سے فکر نہ کرنے کے لیے کہا اور بتایا کہ جب میں ضروری انتظامات کرلوں گی تو وہ دوبارہ مجھے فون کرلیں گی۔

خون آلود فون اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے میں یہ سوچ رہی تھی کہ کہاں فون کروں اور کیا انتظامات کرواؤں۔ میں نے اپنی والدہ کو فون کیا اور انہیں اپنی دوست کے شوہر سے بات کرنے کے لیے کہا جو آغا خان ہسپتال میں شعبہ پیڈیاٹرکس کے سربراہ ہیں کہ شاید وہ یہ ’انتظامات‘ کروا سکیں۔

میں نے کسی سے چلّا کر دوبارہ امن فاؤنڈیشن کو کال کرنے کے لیے کہا۔ میری بچی ابھی بھی جدوجہد کر رہی تھی اور سانس لے رہی تھی۔ میری چھوٹی بیٹی استقبالیے پر ایک اسٹول پر اکیلی بیٹھی تھی۔ میں اس کے پاس گئی اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا عمل ٹھیک ہوجائے گی؟ میں اسے صرف دعا کے لیے ہی کہہ سکتی تھی۔

10 بج کر 18 منٹ۔ میرے کزن (جو ہسپتال تک ہمارے ساتھ آئے تھے) خاندان کے کچھ لوگوں کو بلا چکے تھے۔ میں ابھی بھی کسی پر ایمبولینس بلانے کے لیے چلّا رہی تھی اور ہسپتال کا اسٹاف میرے شوہر کو میری بیٹی کو گاڑی میں ہسپتال لے جانے پر قائل کر رہا تھا۔ میرے شوہر نے مدد مانگی؛ انہوں نے کسی تربیت یافتہ اہلکار کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے کہا۔ انتظامیہ نے انکار کردیا۔ میرے شوہر نے ان سے سانس کا تھیلا (ایمبیو بیگ) ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی اور اسٹاف سے کہا کہ وہ انہیں بتا دے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔ انتظامیہ نے انکار کردیا۔

میں نے امن فاؤنڈیشن کی نمائندہ سے بات کی اور انہیں بتایا کہ انتظامات ہوگئے ہیں۔ میں نے ان سے ایمبولینس بھیجنے کے لیے کہا اور پوچھا کہ اس میں کتنی دیر لگے گی۔ انہوں نے مجھ سے فکر نہ کرنے کے لیے کہا اور کہنے لگیں کہ کچھ دیر میں پہنچ جائے گی، مگر یہ نہیں بتایا کہ کتنی دیر میں۔ میں ان سے پوچھتی رہی اور وہ بار بار ایک ہی بات دہراتی رہیں۔

میں واپس اس چھوٹے کمرے میں گئی جہاں عمل کو رکھا گیا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، اس کا خون بہہ رہا تھا، وہ اب بھی سانسیں لے رہی تھی۔ عمر اور میں ایک لحظے کے لیے وہاں کھڑے ہوئے اور سوچتے رہے کہ کاش کسی طرح ہم اس کا درد دُور کرسکیں۔ وقت واپس پلٹا دینے کی خواہش کرتے ہوئے ہم اس سے یہ سب کچھ ہونے دینے کے لیے معافی مانگتے رہے۔ اس وقت ہم نے اسے اپنی آخری سانس لیتے ہوئے دیکھا۔

وہ ہمیشہ کے لیے جا چکی تھی۔

ہم ناکام ہوگئے تھے، ہر چیز ناکام ہو گئی تھی، ہر کوئی ناکام ہوگیا تھا۔ یہ پورا نظام ہر ممکن انداز میں ناکام ہوگیا تھا۔

وہاں سے مجھے گھر بھیج دیا گیا۔ عمر عمل کو قانونی کارروائی کے لیے جناح ہسپتال لے گئے۔ جناح ہسپتال میں انہوں نے پولیس کی گولیاں کھانے والے ڈاکو کو میری بیٹی کے ساتھ لٹا دیا۔ ہر کوئی اسے گالیاں دینے لگ گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم ہماری عمل کو مردہ خانے تک لے جاتے، میڈیا عمر سے سوالات پوچھنے لگ گیا۔ مجھے کہا گیا کہ میں وہاں جاؤں اور اسے غسل دلوا دوں۔ میری ننھی بچی اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی اور یہ اسے چھونے کا میرا آخری موقع تھا۔

میں نے کبھی بھی اس دن کا تصور نہیں کیا تھا اور مجھے ذرا بھی تصور نہیں تھا کہ ایسا دن کیسا محسوس ہوتا ہوگا۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ یہ تصور کرنے کے لیے کتنا یقین چاہیے کہ وہ اب اس سے بہت اچھی جگہ پر ہوگی۔

میرے والد اور میرے چچا اس رات دیر سے پولیس اسٹیشن گئے۔ اس وقت ہمیں نظر آنا شروع ہوا کہ اس پورے منظرنامے میں کچھ بے جوڑ سا تھا۔ ڈاکو ہمیں پہلے ہی لوٹ چکا تھا، پھر وہ ہماری گاڑی پر فائرنگ کیوں کرتا؟ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے، مگر اس واقعے کے حوالے سے پیغامات اور تحفظات آنے شروع ہوگئے تھے۔

اگلے 2 دنوں 14 اور 15 اگست تک دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ پولیس حکام بشمول ایس ایس پی ساؤتھ عمر شاہد حامد بھی ہمارے گھر آئے۔ عمر سے ملنے کے بعد ایس ایس پی عمر نے کہا کہ بظاہر گولی ڈاکو کی تھی۔ یہ ابتدائی 2 دنوں تک پولیس کا مؤقف تھا۔

16 اگست کو سندھ پولیس کے آئی جی امیر شیخ بھی ایس ایس پی عمر شاہد حامد، ڈپٹی انسپکٹر جنرل ساؤتھ جاوید اوڈھو اور پولیس کے دیگر بالا حکام کے ہمراہ ہمارے گھر آئے۔ ان کے ساتھ گفتگو میں عمر کا بنیادی خدشہ یہ تھا کہ اتنے مصروف اور پُر ہجوم ٹریفک سگنل پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا کیوں، وہ بھی ہمارے گاڑی پر جب کہ ڈکیت پہلے ہی ہمیں لوٹ کر دوسری گاڑیوں کی جانب بڑھ چکا تھا۔ میٹنگ کے دوران ایس ایس پی منیر شیخ نے ہماری گاڑی کی تصاویر دیکھ کر محسوس کیا کہ گولی کے سوراخ ڈاکو کے پاس موجود بندوق سے زیادہ بھاری بندوق کے تھے۔

اس دن فیصلہ ہوا کہ اس واقعے کی ایک اور انکوائری کی جائے گی۔ ڈی آئی جی اوڈھو کو انکوائری پر مقرر کیا گیا۔ آرڈر میں کہا گیا کہ اگلے 3 کاروباری دنوں میں واقعے کی تفصیلی رپورٹ اور سفارشات پیش کی جائیں گی۔

ڈی آئی جی اوڈھو نے اپنی انکوائری مکمل کی اور یہ تسلیم کیا کہ انہیں ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ گولی ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر کی رائفل کی تھی۔ ڈی آئی جی اوڈھو نے وضاحت کی کہ بظاہر گولی سڑک سے ٹکرا کر گاڑی کی ڈگی میں داخل ہوئی، ڈگی اور پچھلی سیٹ کو چیرتی ہوئی میری بچی کو لگی اور پھر ہماری گاڑی کی اگلی ونڈ اسکرین کو لگی۔ پولیس کی جانب سے میڈیا کو ایک بیان جاری کیا گیا اور ریاست نے بالآخر اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی۔

27 اگست کو ڈی آئی جی اوڈھو کے ساتھ ایک اور میٹنگ میں اسٹریٹ کرائمز روکنے کے لیے اسالٹ رائفلز کے استعمال پر بحث ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح افغان جنگ کے بعد ہمارے ملک میں اس طرح کا اسلحہ عام ہوا جس کے نتیجے میں پولیس کو بھی اتنے ہی مہلک ہتھیاروں سے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسا بھاری اسلحہ دنیا میں کوئی بھی پولیس استعمال نہیں کرتی اور پاکستان میں پولیس کا محکمہ فوج کی استعمال شدہ بندوقیں استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس جرائم کے خلاف اور مجرمان کو ہلاک کرنے میں اوسط کتنی بہترین ہے، اور یہ کہ پولیس کی جانب سے مارے گئے 10 میں سے ’صرف‘ 2 لوگ ’کولیٹرل ڈیمیج‘ تھے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پولیس مقابلوں کے دوران ‘کولیٹرل ڈیمیج’ کے طور پر ہلاک ہونے والے 2 افراد میں سے ایک 10 سالہ بچی کے والدین کے طور پر ہمیں محکمہ پولیس سے کافی تحفظات ہیں۔

2 محکمے، جو کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، 13 اگست 2018ء کی رات ہمارے نقصان کی وجہ بنے۔ ہم اس نظام پر سوال اٹھاتے ہیں جس نے ہمیں اس قدر پسماندہ کردیا ہے کہ ایک آزاد ملک کی سڑکوں پر ہم اسٹریٹ کرائم کا مقابلہ اسالٹ رائفلز سے کر رہے ہیں، جہاں ایک ڈاکو کو پوائنٹ بلینک فاصلے سے مارنے کے لیے ایک کانسٹیبل کلاشنکوف کی 7 گولیاں چلا دیتا ہے۔ مگر اس نے فائرنگ کی، اور نشانہ اتنا خطا تھا کہ اپنی گاڑی میں بیٹھی جشنِ آزادی کی خوشیاں مناتی ہوئی بچی کو ہی مار ڈالا۔

اب ایک ماہ بعد باآسانی رائفل کی گولی چلا دینے والے اہلکار معطل ہوکر بظاہر اپنے گھروں پر بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب ہماری زندگیاں برباد ہوچکی ہیں۔ ہماری گاڑی تھانے سے کلیئرنس کے ایک طویل انتظار کے بعد تباہ حال اور اپنی قیمت گنوا کر ورک شاپ میں کھڑی ہے۔ دوسری جانب پولیس نے کاغذی کارروائی کے بارے میں بالکل درست معلومات فراہم کیں مگر معاوضے کی کوئی پشیمان پیشکش نہیں کی گئی۔

جب عمل کو این ایم سی لے جایا گیا تو اسے ابتدائی طبی امداد نہیں دی گئی۔ اسے خون نہیں چڑھایا گیا، اسے مجوزہ ہسپتالوں تک منتقل کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ جب طبی اسٹاف (جن سب نے زندگیاں بچانے کا عہد کیا ہوا ہے) کو بچی کے ساتھ چلنے کے لیے کہا گیا تو سب نے انکار کردیا۔ جب ہم نے ہسپتال سے ایمبیو بیگ لے جانے کی درخواست کی گئی، تو ایک 10 سالہ بچی کے لیے یہ بھی منع کردیا گیا۔ امن فاؤنڈیشن نے ایمبولینس بھیجنے سے انکار کردیا اور یوں لگا جیسے ہر کوئی ہماری انمول عمل کو سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہوئے دیکھتا رہا اور پھر پاس کھڑا اس کے مرنے کا انتظار کرتا رہا۔

اس رات پولیس اور صحت کے شعبوں نے اپنے بس میں موجود ہر کوشش کی کہ میری بچی زندہ سلامت اپنے گھر نہ لوٹے۔ انہوں نے یقینی بنایا کہ وہ یومِ آزادی اور اس کی اپنی سالگرہ کبھی نہ دیکھے۔ انہوں نے یقینی بنایا کہ وہ کبھی بھی اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ نہ ہنسے، نہ گائے اور نہ اسے گلے لگائے۔ ہماری چھوٹی بیٹی آنیہ اب بھی بڑی بہن کی موت کو سمجھنے کی جدوجہد کر رہی ہے اور صدمے سے باہر آنے کی ناامید کوششیں کر رہی ہے۔ دوسری جانب ہم اب بھی یہ سمجھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں کہ ہماری عمل کے بغیر کس طرح واپس زندگی کی جانب آیا جائے، گاڑی میں بیٹھا جائے، سڑک پر نکلا جائے، کام پر پہنچا جائے، اور دن گزارا جائے۔

ہماری بیٹی کو محکمہ پولیس اور ہسپتال نے قتل کیا ہے اور جب ہماری عمل ہم سے لے لی گئی تو پولیس، ہسپتال اور ریاست بے حسی سے آگے بڑھ گئے۔ مگر ایک اور بیٹی اور اس ملک کے کروڑوں بچوں میں سے ایک کے والدین کے طور پر ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ سب دوبارہ نہ ہو۔

ہم والدین اور ہر فکرمند شہری سے کہتے ہیں کہ وہ متحد ہو کر اٹھیں اور اصلاحات کا مطالبہ کریں۔ ہم احتساب چاہتے ہیں اور ان بے حس محکموں سے انسانیت اور ہمدردی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم ہمارے معاشرے اور اس کے نظام میں بہتری اور انصاف چاہتے ہیں اور ہمیں یہ سب ابھی چاہیے۔

شہریوں کے سوالات اور ان کے جوابات

دی کاز اسکول (The CAS School)، جہاں عمل عمر زیرِ تعلیم تھی، کے پرنسپل سمیع مصطفیٰ نے ڈان اخبار کے ای او ایس (EOS) میگزین کو اپنے خط میں پاکستان کے پولیسنگ اور صحت کے نظام پر کچھ سخت سوالات اٹھائے ہیں۔

یہی سوال دوسرے حلقوں میں کئی فکرمند والدین اور عام شہری اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے سندھ پولیس کے ایس ایس پی ساؤتھ عمر شاہد حامد، نیشنل میڈیکل سینٹر کے ایڈمنسٹریٹر میڈیکل سروسز ڈاکٹر عمر جنگ اور امن فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس سے یہی سوالات لے کر رابطہ کیا۔

شہری بنام محکمہ پولیس

کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے کہ ڈکیتی اور ایک 10 سالہ بچی کی افسوسناک موت ایک پولیس اسٹیشن کے بالکل ساتھ ہوئی؟ اگر کوئی پولیس اسٹیشن کے پاس بھی محفوظ نہیں تو پھر کہاں محفوظ ہوگا؟

عمر شاہد حامد: علاقے میں پولیس اہلکاروں کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ جرائم کا گڑھ ہے جس کی وجہ سے یہاں پولیس اہلکاروں کو گشت کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ مگر میں کہوں گا کہ موقعے کے لحاظ سے پولیس اہلکار کا ردِ عمل بالکل درست تھا۔

پولیس عمل کی ڈاکو کی گولی سے ہلاکت کی کہانی بار بار کیوں دہراتی رہی؟

عمر شاہد حامد: یہ ہماری جانب سے بدنیتی نہیں تھی بلکہ مزید ثبوتوں کے سامنے آنے پر صورتحال واضح ہوئی۔ شروعات میں اس حوالے سے ابہام تھا کیونکہ جن اہلکاروں نے ڈاکو کو مارا، انہیں بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک معصوم شہری کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ بینش اور عمر ایسی صورتحال میں فوراً ہسپتال کی جانب بھاگتے اور یہی ہوا۔ انہوں نے ٹریفک سگنل سبز ہونے کا انتظار کیا اور گاڑی فوراً ہسپتال کی جانب موڑ دی۔ ہمارے اہلکاروں کو اس حوالے سے معلوم نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ یہ واقعہ 13 اگست کو ہوا اور اگلے دن عام تعطیل تھی چنانچہ ہمیں 2 دن تک سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں ملی۔ فارنسک ثبوت ناکافی تھے۔ جب ایک بار مزید ثبوت سامنے آئے تو ہم پر صورتحال واضح ہوگئی۔

کیا پولیس اہلکاروں کے لیے مجرمان سے الجھنے کے لیے کوئی قواعد و ضوابط موجود ہیں؟ ان قواعد و ضوابط پر کتنی دیانتداری سے عمل کیا جا رہا ہے؟

عمر شاہد حامد: اس طرح کے واقعات جو لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہے ہوں، ان کے لیے آپ قواعد و ضوابط طے نہیں کرسکتے۔ یہ مکمل طور پر پولیس اہلکار کے فیصلے پر منحصر ہے جو کرنے کے لیے اس کے پاس ایک سے بھی کم سیکنڈ ہوتا ہے۔ فائرنگ کرنا روایت نہیں ہے۔

جو پولیس اہلکار ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لیے موقعے پر پہنچے تھے، کیا وہ اتنے تربیت یافتہ تھے کہ انہیں گولی چلانے کے احکامات کے ساتھ بھاری اسلحہ تھما دیا جائے؟ کیا پُرہجوم جگہوں پر بھاری اسلحے کا استعمال عقلمندانہ حکمتِ عملی ہے؟

عمر شاہد حامد: بھاری اسلحے کے متعلق بحث کرنا جائز اور منصفانہ ہے۔ اہلکار تربیت یافتہ تھے، مگر ظاہر ہے کہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں مجرم کے اوپر فائرنگ کرنا پولیس اہلکار کا فوری فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر اہلکار اس نتیجے پر پہنچے کہ مجرم فائرنگ کرکے قتل کرنے پر آمادہ ہے، تو پولیس اہلکار بھی جواب میں فائرنگ کرسکتا ہے۔ یہ کہنے کے بعد بھی میں یہ کہوں گا کہ اس پر بحث ہوسکتی ہے۔ کراچی میں پولیس کے لیے ماحول کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ گزشتہ 2 دہائیوں میں کراچی پولیس کی تعداد اور اس کا اسلحہ کئی طرح کے مجرمان سے کم ہی رہا ہے۔ سب سے پہلے پولیس کو بھاری اسلحہ 1990ء کی دہائی میں فراہم کیا گیا تھا تاکہ وہ خود کو لاحق خطرے سے نمٹ سکیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔ آج صرف دہشتگرد ہی نہیں بلکہ اسٹریٹ کرمنلز بھی بھاری اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ مسئلہ دہشتگردی سے کہیں آگے کا ہے اور پولیس کے طور پر آپ کے پاس وہی کچھ [اسلحہ] ہونا چاہیے جو آپ کے مخالف کے پاس ہے۔

ایک سانحہ ہوا ہے، ایک 10 سالہ بچی ہلاک ہوئی ہے۔ اگر پولیس مزید ذمہ داری سے کام لیتی تو کیا اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا؟ کیا اس طرح کے سانحات سے مستقبل میں بچا جاسکتا ہے؟ اگر ہاں، تو کیسے؟

عمر شاہد حامد: ہم جب عمل کے گھر تعزیت کے لیے گئے تو وہاں ہم عمل کے والدین سے بھی ملے۔ ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر ہم نے [کراچی کے] ضلع جنوبی میں آزمائشی بنیادوں پر پولیس اہلکاروں کو پستولیں فراہم کی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ عملی طور پر کتنا کارگر رہتا ہے۔

اس سانحے کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟ وہ 2 پولیس اہلکار جو معطل ہوئے یا پولیس نظام جس نے غیر تربیت یافتہ، غیر پروفیشنل اور ‘اسٹریٹ کرائم روکنے کے نام پر’ بغیر سوچے سمجھے ٹریگر دبا دینے والے پولیس اہلکاروں کو بھرتی کیا؟

عمر شاہد حامد: یہ 2 طرح سے انتہائی افسوسناک سانحہ ہے۔ ایک والد کی حیثیت سے میں بینش اور عمر کا درد سمجھ سکتا ہوں۔ مگر مجھے اس اہلکار سے بھی ہمدردی ہے جس نے ڈاکو پر گولی چلائی۔ اس نے وہی ایکشن لیا جو اسے بہتر لگا۔ اگر میں اس کی جگہ پر نہیں ہوں تو میں اس پر فیصلہ نہیں دے سکتا۔

شہری بنام نیشنل میڈیکل سینٹر

شدید زخمیوں سے متعلق نیشنل میڈیکل سینٹر کا معیاری طریقہ کار (ایس او پی) کیا ہے؟

ڈاکٹر عمر جنگ: ہم وہ بہترین طریقہ کار اختیار کرتے ہیں جو دنیا میں دیگر جگہوں پر رائج ہے۔ لائے جانے والے ہر مریض کو ایمرجنسی روم لے جایا جاتا ہے جہاں پہلے ان کی حالت بحال کی جاتی ہے اور ابتدائی طبی امداد دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر انہیں آپریشن کی ضرورت ہو تو انہیں آپریشن تھیٹر بھیجا جاتا ہے۔ اگر انہیں آئی سی یو میں بھیجنے کی ضرورت ہو تو انہیں وہاں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جسم کے ایسے حصوں پر گولیوں کے زخم جن سے جان کو خطرہ نہ ہو، ان کی صورت میں ہم پہلے انہیں ابتدائی طبی امداد دیتے ہیں اور پھر مریضوں کو ہسپتال بھیج دیتے ہیں جہاں میڈیکو لیگل سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ مگر اس کیس میں یا پھر بینظیر بھٹو کی واپسی کے موقع پر کارساز دھماکے کے جیسے معاملات میں ہم پہلے علاج کرتے ہیں۔ کسی بھی مریض کو اس حوالے سے واپس لوٹایا نہیں جاتا۔ مگر ہم ڈیفینس پولیس تھانے کو ضرور اطلاع کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایسے تمام کیسز کا ریکارڈ ہوتا ہے اور آپ ان سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔

عمل کو ضروری ابتدائی طبی امداد کیوں نہیں دی گئی اور فوراً آئی سی یو میں منتقل کیوں نہیں کیا گیا؟

ڈاکٹر عمر جنگ: جب عمل حادثے کے 10 سے 15 منٹ کے بعد ہسپتال لائی گئی تو اس کی آکسیجن سیچوریشن 20 سے 30 فیصد تک تھی۔ جان بچنے کے لیے کم سے کم 85 فیصد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسے سانس کی نالی لگائی گئی جسے ہاتھ سے پمپ کیا گیا۔ اس کا دل رک چکا تھا اور مصنوعی تنفس کے علاوہ وہ سانس نہیں لے پا رہی تھی اور اس کا بلڈ پریشر نہیں تھا۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ہم ایک بچی کی بات کر رہے ہیں۔ گولی اس کے سر کے پیچھے سے داخل ہوئی اور اس کی پیشانی سے نکل گئی۔ اس کا پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا ہے اور آپ تصدیق کرسکتے ہیں کہ اس کا آدھا دماغ اپنی جگہ موجود ہی نہیں تھا۔

میں احترام کے ساتھ اس دعوے سے اختلاف کرتا ہوں کہ ہم نے عمل کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ درحقیقت جب اسے اندر لایا جارہا تھا تو ہمارا اسٹاف پہلے ہی تیار تھا کیونکہ خاندان نے ہسپتال کے ڈائریکٹر کو پہلے سے فون کردیا تھا۔ انہوں نے ہسپتال انتظامیہ کو آگاہ کردیا تھا کہ ایک آشنا کو ایمرجنسی کی صورتحال میں لایا جا رہا ہے چنانچہ سب سے بہترین نگہداشت کے لیے تیار رہا جائے۔ ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر ماہرِ اطفال ہی تھے۔ انہوں نے عمل کی حالت میں استحکام لانے کی کوشش کی مگر یہ دماغی زخم تھا اور اس کا اتنا خون بہہ چکا تھا کہ ہم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے۔ مگر پھر بھی ہم نے اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کی۔

ایسی صورتحال میں ڈاکٹر ایپی نیفرین نامی ایک دوائی کا استعمال کرتے ہیں جو دل کی دھڑکنیں دوبارہ بحال کرنے (سی پی آر) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی ای سی جی دیکھیں تو آپ تصدیق کرسکتے ہیں کہ اسے ایپی نیفرین دیا گیا تھا۔ اگر کوئی شخص طبّی طور پر مردہ ہو، تب بھی ای سی جی میں اونچائی ریکارڈ ہوتی ہے۔ عمل کی ای سی جی میں بھی یہی چیز دیکھی جا سکتی ہے۔

ہسپتال انتظامیہ اور طبی عملے نے عمل کو دوسرے ہسپتال منتقل کرنے میں مدد کیوں نہیں کی؟

ڈاکٹر عمر جنگ: بچی کی طبی طور پر موت واقع ہوچکی تھی۔ ہم اس کے بعد مدد نہیں کرسکتے تھے۔

شہری بنام امن فاؤنڈیشن

گولی لگنے جیسی نازک صورتحال میں ایمبولینس بھیجنے کے حوالے سے ان کا معیاری طریقہ کار (ایس او پی) کیا ہے؟ کیا انہیں ایمرجنسی پر ردِ عمل دیتے ہوئے مریض کو قریبی ہسپتال منتقل نہیں کرنا چاہیے؟ کیا انہیں مدد بھیجنے سے قبل ہسپتال میں ’بکنگ‘ کے لیے انتظار کرنا چاہیے؟

پے در پے کوششوں کے باوجود امن فاؤنڈیشن کے متعلقہ افسر نے اس مضمون کی اشاعت تک یقین دہانی کے باوجود جواب نہیں دیا۔

بشکریہ: ڈان نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے