میں ملحد نہیں ہوں۔

مجھے وضاحتیں کرنا پسند نہیں ہے لیکن سوال زیادہ ہوجائیں تو آگہی کی خاطر جواب دینا پڑتا ہے۔

میں ملحد نہیں ہوں۔ متشکک البتہ ہوں لیکن کوئی وعدہ یا دعویٰ نہیں کہ ہمیشہ رہوں گا۔ میں اپنے علم میں اضافے کی خواہش کے ساتھ تجزیہ کرنے کی صلاحیت میں بھی بہتری کی کوشش کرتا ہوں۔

مذہب اور سیاسی و معاشرتی نظام میں فرق ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مذہب پرست کو لبرل ازم یا سوشلزم بہتر نظام لگتا ہو اور ملحد یا متشکک کو فاشزم یا آمریت پسند ہو۔ چنانچہ کسی ملحد کو لبرل کہنا حماقت ہے۔

مذاہب اکثر اوہام، غیب جاننے کے دعوؤں، معجزات اور مابعد الطبیعات نظریات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ملحد ان کا انکار کرتے ہیں۔ متشکک ان کے درست یا غلط ہونے پر اصرار نہیں کرتے، اگرچہ بیشتر باتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔

الحاد یا تشکیک کوئی مذہب یا نظام نہیں۔ ملحد اور متشکک مل کر کوئی تنظیم نہیں بناتے۔ ہر ملحد اور متشکک دوسرے سے بالکل مختلف ہوسکتا ہے۔ عقل کو امام بنانے کے بنیادی نکتے پر سب متفق ہیں لیکن یہ قطعی ضروری نہیں کہ ایک ملحد کی عقل میں جو آگیا ہو، وہ دوسرے کی سمجھ میں بھی ویسے ہی آجائے۔ تمام عقل پرست علم کے مختلف درجات پر ہوتے ہیں۔

ہر شخص کا ایک ماضی ہوتا ہے جسے وہ مٹا نہیں سکتا۔ اگر کوئی ملحد یہ بتائے کہ وہ ماضی میں گرجاگھر جاکر عبادت کرتا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اب بھی مسیحی ہے۔

ملحد اگر حضرت عیسیٰ کو ایک تاریخ ساز شخصیت مانے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انھیں خدا کا بیٹا بھی تسلیم کرتا ہے۔ ملحد گرجا گھر چلا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے مسیحیت قبول کرلی ہے۔ یہ اپنے کلچر سے جڑے رہنے کی خواہش ہوسکتی ہے۔

ملحد کرسمس کو ایک تہوار کے طور پر منانے سے مسیحی نہیں ہوجاتے۔ ہولی منانے سے کوئی ہندو نہیں ہوجاتا۔ کوئی متشکک رمضان میں افطار کرنے سے سنی نہیں ہوجاتا، محرم میں امام حسین کا غم منانے سے شیعہ نہیں ہوجاتا۔

میں امام حسین کا نام لیتا ہوں تو بعض ملحد یا متشکک مجھ پر تنقید کرتے ہیں۔ گویا کسی مذہبی شخصیت کا نام لینا بھی گناہ ہے۔ لیکن وہ لوگ ملاقات کے موقع پر السلام علیکم اور خداحافظ بھی کہتے ہیں۔ مذہب سے جڑے یہ جملے بولتے ہوئے ان کے الحاد کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔

میں امام حسین کی اولاد میں سے ہوں اس لیے مجھے ان کا ذکر کرنا اچھا لگتا ہے۔ ایک آمرانہ حکومت کے خلاف ان کے آواز اٹھانے میں مجھے بہت کشش محسوس ہوتی ہے۔ انھیں گھیر کر قتل کیے جانے پر احتجاج کرنے کو ضروری سمجھتا ہوں۔ میں ان کے ذکر کو مذہب سے نہیں جوڑتا اور اس کے بدلے میں کسی ثواب یا جنت کا خواہش مند نہیں۔
بیشتر مذہب پرستوں کو عقل سے بیر ہے اور بہت سے عقلیت پرستوں کی سمجھ میں عشق نہیں آتا۔ یہ دونوں ایب نارمل رویے ہیں۔ امام حسین سے عشق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

میں معجزات کو نہیں مانتا لیکن میرے سامنے کچھ عجیب و غریب واقعات ہوئے ہیں۔ میں انھیں بیان کرتے ہوئے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ مجھے کوئی اصرار نہیں کہ دوسرے بھی انھیں مانیں۔ لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ایسا واقعہ نہ لکھوں جس کا گواہ نہ ہو۔

خدا اور تصور خدا میں فرق ہوتا ہے۔ میں نے کبھی خدا کے تصور کا بھی مذاق نہیں اڑایا۔ سوال ضرور اٹھائے ہیں۔ صرف بند ذہن والے اور مولویوں اور پادریوں کے ذہنی غلام مذہب کے بارے میں سوالات سے ڈرتے ہیں۔

میں نے تصور خدا کے بارے میں کئی کہانیاں اور نظمیں لکھی ہیں جن میں خدا پر نہیں بلکہ خدا کو بیچ کر اپنا پیٹ بھرنے والے مولویوں پنڈتوں اور پادریوں پر تنقید کی گئی ہے۔ جنت کے بارے میں ٹوئیٹ بھی مولویوں کے تصورات پر تنقید تھی۔

میں نے تشکیک سے بچنے کی خاطر اسلامی تاریخ کا کافی مطالعہ کیا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ مذہب پرستوں سے بیزار ہوگیا۔ قاری، حافظ اور علامہ صاحبان ہمیشہ اپنی مرضی کی تاریخ اور اپنی مرضی کی حدیثیں سناتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ یہ تعصب کے مریض ہیں۔ ان کا رتبہ شیطان سے کمتر نہیں کیونکہ ایک طرف کا بیانیہ انسان کو گمراہ کرتا ہے۔ پوری تاریخ اور مکمل متن ہولناک ہے جو عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ امریکا پہنچ کر میرے خیالات میں جوہری تبدیلی آئی ہے۔ پانچ سال پہلے چھپی ہوئی میری کتابوں میں ان ہی خیالات پر مبنی تحریریں موجود ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے