اعتراز احسن کا جرمانے کی رقم بھاشا ڈیم فنڈ میں دینے سے انکار

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے سرکاری اداروں کے مقدمات میں مبینہ طور پر بھاری فیس لینے کے مقدمے میں عدالت عظمی کی جانب سے عائد کیے جانے والے جرمانے کی رقم کو بھاشا ڈیم فنڈ میں جمع کروانے سے معذوری ظاہر کی ہے۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اس طرح کا اقدام اعتراف جرم کے زمرے میں آتا ہے۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کے وکیل اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ ایسے معاملے میں ڈیم فنڈ کو نہ لے کر آئیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو سرکاری اداروں کی جانب سے نجی وکیلوں کو دی جانے والی بھاری رقوم سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں کے نجی وکلا کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر سرکاری اداروں نے نجی وکلا کی خدمات ہی حاصل کرنی ہیں تو پھر سرکاری وکیل کس لیے ہیں اور انھیں ماہانہ وظیفہ کیوں دیا جا رہا ہے؟

اعتزاز احسن نے کہا کہ نجی وکلا کی خدمات نہ لینے سے متعلق ابھی تک کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک سرکلر جاری ہوا تھا جس کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ وکلا اس ضمن میں سرکاری اداروں سے لی گئی فیس کا کتنے فیصد حصہ ڈیم فنڈ میں جمع کروائیں گے جس پر اعتزاز احسن نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح ڈیم فنڈ میں رقم جمع نہیں کروائیں گے۔

بینچ کے سربراہ نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہویے کہا کہ سپریم کورٹ نے انھیں ایک مقدمے میں پیش نہ ہونے پر دس ہزار روپے جرمانہ کرکے اس کی رقم بھاشا ڈیم میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا لیکن انھوں نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا اور چیف جسٹس کے بقول جرمانے کی رقم ان(چیف جسٹس) کے بیٹے نے جمع کروائی تھی۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ فیس یا جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں دینے کا مطلب اعتراف جرم ہو گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ وکلا کو جو فیس دی گئی ہے وہ خلاف قانون تو نہیں ہے۔

ای او بی آئی کے ایک اور وکیل بابر ستار نے کہا کہ وہ اس ادارے کے 42 مقدمات میں عدالت میں پیش ہوئے اور انھیں فیس کی ادائیگی پیپرا رولز کے تحت کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ ہر بار اس مقدمے میں وکلا کو بدنام کیا جاتا ہے جس پر بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الزام یہ ہے کہ مخصوص وکلا کی خدمات حاصل کی گئیں۔

بابر ستار کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے نجی وکلا کی خدمات حاصل نہ کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ان وکلا کو فیسوں کی ادائیگی کے بعد آیا۔

جسٹس اعجاز الااحسن کا کہنا تھا کہ کئی وکلا کو قابلیت نہ ہونے کے باوجود نوازا گیا۔

بینچ کے سربراہ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جن وکلا کے ساتھ رات کو پارٹی چلتی ہے صبح ان کی خدمات حاصل کر لی جاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس مقدمے میں بہت کم فیس لی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفر گوندل نے ایک روپے مالیت والی زمین کو 1200 روپے میں خریدا۔ اُنھوں نے کہا کہ اچھے وکیل کو ایسا کیس لینا ہی نہیں چاہیے تھا۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ عدالت اس معاملے کو دیکھے گی کہ رقم کی وصولی وکلا سے کرنی ہے یا پھر ان افراد سے جنھوں نے اس کی ادائیگی کی۔

سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کے متعلقہ حکام سے وکلا کو دی جانے والی فیس کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔

عدالت نے وزارت قانون کو بھی سرکاری محکموں کے مقدمات کی پیروی کے لیے نجی وکلا کی خدمات حاصل کرنے پر پابندی کے بارے میں 17 اکتوبر کو جواب جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی ایک مقدمے کا التوا مانگنے پر ایک فریق کو بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار کی جانب سے 50 ہزار روپے جرمانے کی رقم بھاشا ڈیم میں جمع کروانے کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اسے ایدھی فاؤنڈیشن میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے