اوپر اللہ نیچے آپ ہیں، میرے بیٹے کو بازیاب کروائیں

سپریم کورٹ نے پاکستان بھر سے مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے مقدمات کی سماعت کے لیے عدالت عظمی کے دو ججز پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دیا ہے۔

جسٹس منظور ملک اور جسٹس سردار طارق پر مشتمل بینچ مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کی کارکردگی پر بھی نظر رکھے گا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکم میں کہا ہے کہ برگیڈئیر اور ایڈشنل آئی جی کے رینک کے افسران اس خصوصی بینچ اور کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے۔

چیف جسٹس نے جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے پر ایک اجلاس بھی طلب کیا ہے جس میں فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہان کے علاوہ تمام صوبوں کی پولیس کے سربراہان بھی شریک ہوں گے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی تو کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم نے عدالت کو بتایا کہ درجنوں ایسے افراد ہیں جن کو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن نے خفیہ اداروں کے حکام کو عدالتوں میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس کے باوجود اُنھیں نہ تو عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کے ورثا کو اس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق چیف جسٹس نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام اداروں کو قانون کی حکمرانی کے سامنے سر جھکانا ہوگا۔

وزارت دفاع کے نمائندے فلک ناز نے عدالت کو بتایا کہ جن افراد کا ذکر کیا جارہا ہے وہ فوج کے زیر انتظام چلنے والے خفیہ داروں کے پاس نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کئی بچے جہاد پر چلے گئے، کئی بہکاوے میں آگئے اور کسی کو کوئی اٹھا کر لے گیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ وضاحت نہیں کی کہ جہاد کس کے خلاف تھا۔

سماعت کے دوران اس وقت جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے جب ایک بوڑھی خاتون روسٹم پر آئیں اور اُنھوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے مدثر کو گذشتہ نو سال سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے اور وہ ابھی تک واپس نہیں آیا۔

خاتون کا کہنا تھا کہ ’مدثر کے آٹھ بچے ہیں جب بھی کبھی دروازے پر آہٹ ہوتی ہے تو میری ممتا یہ سوچ کر دروازے کی طرف لپکتی ہے کہ شاید میرا بیٹا واپس آگیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔‘

اُنھوں نے عدالت سے کہا کہ کب تک ان کی ممتا کا امتحان لیا جائے گا۔

مدثر کی ماں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اوپر اللہ ہے اور نیچے آپ ہیں لہذا میرے بیٹے کو بازیاب کروائیں‘۔

یہ بوڑھی خاتون جب اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے دہائیاں دے رہی تھیں تو عدالت میں مکمل طور پر خاموشی چھا گئی اور کمرہ عدالت میں موجود متعدد افراد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

چیف جسٹس نے مدثر کی والدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ان کا بیٹا کہاں ہے تو وہ خود جاکر اس کو لے آئیں۔

چیف جسٹس نے مدثر کا کیس الگ کر کے اس بارے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

انسانی حقوق کے بارے میں کام کرنے والی خانون آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ کمیشن نے متعدد افراد کو بازیاب کروایا ہے لیکن ان کے شوہر ابھی تک واپس نہیں آئے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہویے کہا کہ دعا ہے کہ مسعود جنجوعہ زندہ ہوں لیکن اطلاعات کے مطابق ایسا نہیں ہے۔

لاپتہ افراد کے ایک اور وکیل طارق اسد نے عدالت کو بتایا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کے واقعات میں اب پولیس کا ادارہ انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ بھی شامل ہوگیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہت سارے معاملات خفیہ اداروں کو بدنام کرنے کے لیے بھی ہو ہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے