شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی …..ایک لائق تحسین شخصیت

ان کا تحمل اور حوصلہ ملاحظہ کیجیے کہ وہ بخاری شریف کا درس دے رہے تھے کہ کسی صاحب نے ایک پرچی بھیجی جس میں لکھا تھا کہ آپ حلال زادے نہیں ہیں،آپ کے نسب میں شک ہے ۔وہ یہ پڑھ کر نہایت نرمی اورشائستگی سے فرمانے لگے کہ کسی دوست نے مجھے رقعہ لکھا ہے کہ تو اپنے باپ کا نہیں ہے ۔یہ سننا تھا کہ اس مجلسِ علم میں ہیجان برپا ہوگیا اور ہر طالب علم میں غیض و غضب کی لہر دوڑگئی کہ ان کے محبوب ترین اور عظیم ترین استاد، ممتاز ملی ،دینی ،سیاسی اور سماجی لیڈر، شیخ العرب و العجم مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی ذات بے مثال پر اسقدر ہتک آمیز اور گستاخانہ الزام لگادیا گیا ۔مگر آپ طلبہ کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر فرمانے لگے کہ خبردار…!! کسی کو غصہ کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اس دوست کو مطمئن کرنے لیے جواب دوں ..پھرآپ نے فرمایا کہ میں ضلع فیض آباد ،قصبہ ٹانڈہ ،محلہ الہ داد پور کا رہائشی ہوں ،وہاں اس وقت بھی میرے والدین کے گواہ زندہ ہیں ۔ان سے جاکر تحقیق کرلی جائے یا خط لکھ کر معلوم کرلیاجائے …اللہ ..اللہ …! یہی وہ حقیقی پہلوان ہیں جنہیں محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی پر عمل کرنے کاکیسا بہترین سلیقہ آتا ہے کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو لڑائی کے وقت کسی کو بچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے اوپر قابو اور نفس کو مغلوب رکھے ۔

ان کی تواضع و انکساری کا حال دیکھیے کہ ٹرین میں سفر کررہے تھے کہ ایک ہندو نوجوان واش روم گیا لیکن بادل نخواستہ الٹے پاؤں واپس ہوگیا ۔آپ سمجھ گے کہ واش روم گندا ہے ،صاف نہیں ۔تو آپ چپکے سے اٹھے اور سگریٹ کی چند ڈبیاں اِدھر اُدھر سے اکٹھی کیں ،لوٹا پانی کا اٹھایا اور لیٹرین میں گے اوراس کی اچھی طرح صفائی کرڈالی ۔پھر واپس آکر فرمانے لگے کہ جائیے ..واش روم بالکل صاف ہے ..وہ کہنے لگا کہ نہیں ،وہ تو بالکل خراب ہے ۔آپ نے فرمایا کہ جاکر دیکھیے تو….وہ گیا تو دیکھا کہ واش روم تو خوب صاف ستھرا ہوچکا ہے ..اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ ،حضرت مدنی رحمہ اللہ کا بریلوی مکتبہ فکر کےمشہور عالمِ دین خواجہ نظام الدین تونسوی صاحب کے ساتھ بھی پیش آیا ،تو وہ بے اختیار ،حضرت کے پاؤں سے لپٹ کر رونے لگے ۔حضرت نے جلدی سے پاؤں چھڑائے اور پوچھا کہ حضور کیا ہوا …؟؟ خواجہ صاحب جوابا فرمانے لگے کہ حضرت ..!! سیاسی اختلافات کی وجہ سے میں نے آپ کے خلاف ،فتوے لکھے اور برا بھلا کہا ۔اگر آج ،آپ کے اس اعلی کردار کو دیکھ کر توبہ نہ کرتا تو شاید سیدھا جہنم رسید ہوتا ۔اس پر حضرت فرمانے لگے کہ اس میں کیا حرج ہے بھائی …میرے سامنے تو سرور دوعالم صلی اللہ کا عمل تھا کہ آپ کے ہاں ایک یہودی مہمان ہوا اور اس نے بستر پر بیشاب کردیاتھا ور صبح جلدی سے اٹھ کر چلا گیا تو آپ علیہ السلام بذاتِ خود وہ بستر دھونے لگے ،اسی دوران وہ اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے واپس ہوا تو یہ ایمان افروز ماجرا دیکھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا ۔

حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ 19 شوال 1296ھ مطابق 6 اکتوبر 1879ء اتوار اور سوموار کی درمیانی شب کو ضلع اناؤ کے قصبہ بانگڑ مئو میں پیدا ہوئے ۔یہاں آپ کے والد محترم مولانا حبیب اللہ صاحب رحمہ اللہ پڑھاتے تھے ۔آپ کے پدر محترم ،مولانا فضل الرحمن گنجِ مرادآبادی رحمہ اللہ کے خلیفہ اور بڑے پایہ کے بزرگ تھے ۔مستجاب الدعوات ہستی کے مالک تھے ۔اور آپ کی والدہ بھی نیک پارسا اور قناعت پسند خاتون تھیں ۔ہروقت اپنی زبان کو ذکر وفکر اور تسبیح و تہلیل سے معطر رکھتی تھیں۔آپ کا سلسلہ نسب شہید کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔ حضرت مدنی ،تین سال کے تھے کہ آپ کے والد ،ضلع اناؤ سے اپنے وطن ٹانڈہ تشریف لے آئے اور یہیں رہائش پزیر ہوگے ۔آپ نے ابتدائی تعلیم وتربیت بھی اپنے والد ماجد سے پائی ۔جب آپ تیرہ برس کے ہوئے تو آپ کو چشمہ فیض رساں دارالعلوم دیوبند ،حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں پہنچایا گیا ۔حضرت شیخ الہند کی جوہرِ شناس نظر نے پہلی ملاقات ہی میں بھانپ لیا یہ جوہر قابل ہے ۔تو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے ان دنوں بہت مشغول ہونے کے باوجود بھی آپ کو ابتدائی کتابیں خود پڑھائیں۔ ان کو حضرت مدنی سے وہی تعلق تھا جو ایک شفیق باپ کو اپنی خدمت گزار اور فرمانبردار اولاد سے ہوتا ہے ۔
مولانا مدنی نے ان کے علاوہ حضرت مولانا ذولفقار علی صاحب (والد ماجد حضرت شیخ الہند) مولانا خلیل احمد سہارنپوری ،مفتی عزیزالرحمن عثمانی ،مولانا عبدالعلی دہلوی اور مولانا حبیب الرحمن عثمانی جیسے یگانہ روزگار اساتذہ سے بھی کسبِ فیض کیا۔خالقِ کائنات نے آپ کو ذہانت و ذکاوت کی عظیم نعمت سے نوازنے کے ساتھ ساتھ بلا کا محنتی بھی بنایا تھا ۔آپ ہر امتحان میں اعلی اور امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرتے تھے ،اس وقت عموما ہر پرچہ پچاس نمبروں کا ہوتاتھا لیکن آپ اکثرو بیشتر ہر پیپر میں 53،52،51 نمبر حاصل کرتے ۔

آپ نے، دارالعلوم دیوبند سے سند فراغ حاصل کی پھر اپنے بڑے بھائی مولانا محمد صدیق صاحب رحمہ اللہ کے ہمراہ ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی خدمت میں بغرضِ بیعت پہنچے ۔تو آپ نے انہیں بیعت کرلیا ۔(انہی دنوں آپ کے والد صاحب ارض حرم کی طرف ہجرت کا ارادہ کرچکے تھے ۔) اور فرمایا کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی رحمہ اللہ کے ہاں حاضری دیتے رہیے گا۔اور ان سے روحانی فیض حاصل کرلیجیے گا۔چنانچہ جب آپ کے والدِ بزگوار نے اہلخانہ کے ہمراہ 1316ھ میں بیت اللہ شریف، ہجرت فرمائی ۔تو آپ اسی سال مناسکِ حج سے فارغ ہونے کے بعد حضرت حاجی صاحب کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور پھر گاہے بگاہے حاضر ہوکر آپ کے فیوض وبرکات سے بہرہ اندوز ہوتے ۔حضرت حاجی صاحب نے بھی آپ پر خصوصی توجہات مبذول کیں ۔

مدینہ منورہ میں قیام کے دوران آپ نے ابتداءَ ایک مدرسہ میں پڑھانا شروع کیا مگر وہاں کے اندازِ تعلیم سے آپ کبیدہ خاطر ہوئے تو پڑھانا چھوڑدیا ۔آپ کو اقتصادی مشکلات اور معیشت کی تنگی کا سامنا کرنا پڑا ۔تیرہ افراد پر مشتمل یہ خاندان بہت کم غذا پر اکتفاء کرتا تھا ۔آپ نے شروع میں ایک دوکان بنائی لیکن اس کی آمدنی نہ ہونے کی سی تھی ۔بعد ازاں آپ نے مدینہ منورہ کے مکتبہ شیخ الاسلام اور مکتبہ محمودیہ میں عربی کتابوں کی نقل کاکام بہت تندہی سے شروع کردیا ۔دیگر ممالک سے آنے والے اہل علم حضرات ،بڑے شوق سےقلمی کتابوں کی "نقول” لے جاتے تھے ۔اور اس کے ساتھ آپ مدینہ منورہ میں موجود مایہ ناز اور عمر رسیدہ، ادیب مولانا شیخ عبدالجلیل آفندی رحمہ اللہ سے ادبی کتابیں بھی پڑھتے رہے ۔ادبی فنون کی تکمیل کے بعد آپ نے مسجد نبوی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع فرمایا۔ماہ شوال 1318ھ تک آپ کا درس اگرچہ امتیازی حیثیت کا حامل شمار ہوتا لیکن ابتدائی پیمانہ پر رہا۔پھر آپ،اسی سال 18ھ میں پیر و مرشد مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پہلی بار ہندوالستان آئے ۔اس موقع پر حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے آپ کو دستارِ خلافت سے نوازا ۔ یہاں دوسال قیام کے بعد محرم 1320ھ میں مدینہ منورہ واپسی ہوئی ۔تو خلقِ خدا آپ کے درس پر ٹوٹ پڑی ۔طلباء کا ایک جمَِ غفیر آپ کے ارد گرد جمع ہوگیا۔آپ کا حلقہ درس ،وسیع سے وسیع تر ہوتاگیا۔اس قدر وسعت ہوئی کہ مصر وشام ،فلسطین و یمن ،تیونس و افغانستان ،افریقہ والجزائر اور چین وایران سے تشنگانِ علوم آپ کی طرف کھنچے کھنچے آنے لگے ۔آپ ہر روز 14 ،15 گھنٹے علم و عرفان کی بارش برساتے ۔دورانِ درس اپنے سامنے کتاب نہیں رکھتے تھے ۔صرف تین گھنٹے آرام فرماتے بقیہ وقت ،درس و مطالعہ اور زکر وفکر میں گزارتے ۔آپ کے درس کی نہ صرف پورے حجاز بلکہ دیگر ممالک تک بھی شہرت پہنچ گئی تھی ۔آپ صرف 24 سال کی عمر میں ہی "شیخ العرب والعجم” کے معزز و محترم لقب سے یاد کیے جانے لگے ۔

دوسری بار 1326ھ میں حضرت مدنی رحمہ اللہ ہندوالستان تشریف لائے اور حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی قائم کردہ انقلابی تنظیم مؤتمرالانصار کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔اس موتمر کے مختلف مقامات میں ہونے والے جلسوں میں شرکت کی ۔اب کی بار بھی دوسال قیامِ ہند کے بعد آپ عازمِ حجاز ہوگے ۔درس و تدریس کا وہی سلسلہ شروع کیا ۔1330ھ میں بھی تیسری بار چند ماہ کے لیے تشریف لائے ۔

حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ بھی 1333ھ میں حج کے لیے حرمین شریفین حاضر ہوئے ۔اسی سال جمال پاشا اور انور پاشا بھی وارد حرم ہوئے ۔آپ اور حضرت شیخ الہند نے ان حضرات سے ملاقاتیں کیں ۔اور انہیں انگریز کی شاطرانہ چالوں سے اگاہ کیا۔انہی دنوں شریف حسین والی مکہ نے انگریز سامراج کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے ترکی حکومت کے خلاف ،اپنے من پسند علماء سے فتوی تیار کرایا۔اور شریف مکہ کو کسی نے کہا کہ اگر اس پر حضرت شیخ الہند کے بھی دستخط ہوجائیں تو یہ فتوی زیادہ وزنی اور معتبر شمار ہوگا ۔جب شریف کا قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے انکار کردیا ۔تو اسی انکار کی پاداش میں حضرت شیخ الہند اور آپ کے رفقاء کو انگریز کی تحویل میں دے دیا گیا ۔حضرت مدنی رحمہ اللہ بھی اپنے استاد محترم کے ہمراہ تھے ۔انہی ایام میں حضرت مولانا مدنی رحمہ اللہ کے والد ماجد اور آپ کے بھائیوں کو ایڈریا نوپل میں نظر بندی کی مصیبتیں جھیلنی پڑیں ۔ آپ کے والد اور آپ کے بھائی مولانا صدیق احمد صاحب اسی حالت کسمپرسی میں دار فانی سے کوچ کرگے ۔ آپ کی اہلیہ محترمہ اور آپ کے صاحبزادے بھی مدینہ منورہ میں دم توڑگے ۔ادھر قافلہ شیخ الہند کو جدہ سے مالٹا جیل بھیج دیا گیا۔یہں آپ نے ایک ماہ میں حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی ۔اور حضرت شیخ الہند نے قرآن پاک کا ترجمہ مکمل کیا اور سورة مائدہ تک کے حواشی بھی پورے کیے ۔اسارت کے اس زمانہ میں حضرت مدنی نے اپنے استاد محترم حضرت شیخ الہند کی وہ خدمت کی کہ جس کی نظیر ومثال ممکن نہیں ،حضرت شیخ الہند ایک معمر اور مریض شخص تھے ۔آپ کو ٹھنڈا پانی استعمال کرنے سے تکلیف ہوتی تھی جبکہ مالٹا میں سخت سردی پڑتی تھی ۔تو آپ، استاد محترم کو گرم پانی مہیا کرنے کے لیے ساری رات پانی والا برتن ،پیٹ کے ساتھ لگاکر بیٹھے رہتے اور نماز تہجد کے وقت استادِ محترم کی خدمت میں وہ نیم گرم پانی پیش کردیتے ۔

1338ھ میں پونے چارسال کے بعد ،حضرت شیخ الہند اور آپ کے رفقاء رہا ہوئے تو اس وقت ہندوالستان میں تحریک خلافت اور تحریک استخلاصِ وطن کا آغاز ہوچکا تھا لہذا آپ بھی حضرت شیخ الہند کے ہمراہ ہندوالستان چلے آئے ۔اور بڑی گرمجوشی سے اس تحریک میں شریک ہوئے ۔حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی عمر نے وفا نہ کی وہ آغاز تحریک کے چھ ماہ بعد انتقال کرگے ۔ان کے سانحہ ارتحال کے بعد حضرت مدنی کو جانشینِ شیخ الہند منتخب کرلیا گیا ۔آپ نے اپنے استاد محترم کے مشن کو بڑی آب وتاب کے ساتھ آگے بڑھایا۔1340ھ میں آل انڈیا خلافت کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا ۔اس عظیم الشان کانفرنس میں حضرت مدنی رحمہ اللہ نے تجویز پیش کی کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے انگریزی فوج میں ملازم رہنا یا بھرتی ہوجانا یا دوسروں کو بھرتی ہونے کی ترغیب دینا حرام ہے اور ہرمسلمان کا فرض ہے کہ یہ بات فوجی مسلمانوں کے ذہن نشین کردے ۔اس بیباک اور جراتمندانہ تجویز کے نتیجہ میں آپ کی گرفتاری ،عمل میں آئی ۔خالق دینا ہال کراچی میں آپ کے مقدمہ کی سماعت تھی ۔آپ عدالت میں پیش ہوئے ۔انگریز جج نے سوال کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کو انگریز گورنمنٹ کے خلاف فتوی کی پاداش میں کیا سزا ملے گی ۔آپ نے فرمایا کی جی ہاں ..اور اپنے کاندھے پر موجود کفن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اسی لیے تو دیوبند سے کفن ساتھ لایا ہوں ۔

آپ کو پھر دوسال کے لیے پابندِ سلاسل کردیا گیا ۔جب آپ دوسال بعد رہا ہوئے تو آپ اپنے موقف سے باز نہ آئے ۔ آپ نے جرات واستقلال کا دامن مظبوطی سے تھامے رکھا ۔آپ نہایت خلوص ،محنت اور نیک نیتی سے تحریک آزادی میں حصہ لیتے رہے۔

حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے دارالعلوم دیوبند سے تشریف لے جانے کے بعد آپ سے درخواست کی گئی کہ وہ دارالعلوم کی صدارت قبول فرمالیں اور منصبِ شیخ الحدیث پر جلوہ افروز ہوجائیں ۔آپ نے اس کو مندرجہ ذیل چار شرائط کے ساتھ قبول فرمایا
1:سیاسی خدمات پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ ہوگی ۔
2:دارالعلوم کی جانب سے سیاسی امور میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی ۔

3:ہر مہینہ میں ایک رخصت دی جائے گی تاکہ سیاسی کاموں کی تکمیل کے لیے دیوبند سے باہر دیگر مقامات کا سفر کیا جائے ۔

4: ایک ہفتہ سے زائد اگر چھٹی لی گئ تو اس پر تنخواہ کی کٹوتی ضرور ہوگی ۔

تو اس طرح خا لق کائنات نے دارالعلوم جیسے ادارہ میں شیخ الحدیث اور صدارت کے لیے قبول فرمالیا ۔دارالعلوم نے بھی آپ کی سرپرستی میں جو علمی ترقی کی ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔جب حضرت مدنی رحمہ اللہ نے حدیث کی شمع روشن کی تو اس پر دور و نزدیک کے اسقدر پروانوں کا ہجوم ہوا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی ۔آپ کو آل انڈیا جمعیت علمائے ہند کے اجلاس میں جمعیت کی صدارت بھی سونپ دی گئی ۔آپ نے اس سلسلہ میں گرانقدر خدمات انجام دیں ۔

حضرت مدنی رحمہ اللہ کی پوری زندگی جہد مسلسل اور عمل پیہم کا نام تھی ۔اکثر ایسے ہوتا کہ آپ رات کو کئی کئی گھنٹے خطاب فرماتے ۔پھر سفر کی زحمت گوارا کرتے اور صبح کو گھنٹوں گھنٹوں پورے انہماک اور توجہہ کے ساتھ درسِ حدیث دیتے اور کبھی کبھار تو طلبہ حدیث کو رات کے کسی لمحہ میں سبق کے لیے بلایا جاتا تو وہ پروانہ وار جوق در جوق چلے آتے ۔

حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ دنیائے علم وعمل کے آفتاب تھے ،جہاں آپ نے گلستان روحانیت کو تازگی بخشی ۔اور علم کے سبزہ زاروں کو سینچا ۔سیاسی دنیا کوبھی صبرواستقلال ،متانتِ فکر ،اصابت رائے ،یقینِ محکم اور جہدِ مسلسل کا درس دیا۔مذہب اسلام کو ایک نیا جوش اور نئی امنگ دی ،زندگی کو عظمت اور وقار عطا کیا۔وہیں آپ نے اپنے قلم کے ذریعے علمی ،مذہبی ،روحانی اور سیاسی خدمات انجام دی ہیں ۔اسیر مالٹا ،نقش حیات ،متحدہ قومیت ،اور الشہاب الثاقب آپ کی علمی یادگار
حضرت شیخ العرب والعجم رحمہ اللہ جیسا متبحر عالم ،ممتاز سیاست دان ،قومی راہنما اور روحانی دنیا کا امام 12جمادی الاول 1373ھجری مطابق 5دسمبر 1957عیسوی کو دار فانی سے کوچ کرگیا …….انا للہ وانا الیہ راجعون ….

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے