راولپنڈی:گرلز ہاسٹل میں فوت ہونے والی طالبہ عروج فاطمہ کی اصل کہانی

عروج اپنی بیوہ اور بزرگ ماں کی جینے کی آخری امید اور اکلوتی اولاد تھی وہ راولپنڈی کے ایک کالج میں بی ایس انگلش تھرڈ سمسٹر کی طالبہ تھی، اُس کے والد 2011 میں فوت ہوگئے تھے .

عروج کی رومیٹس کا کہنا ہے کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ہم جب سونے لگے تو عروج نے کہا کہ ” لائٹ نہ بند کرنا ، میں پڑھ رہی ہوں . میں خود بند کردوں گی . ہم سو گئے . صبح جب ہم جاگے تو دیکھا کہ عروج کا ہاتھ اور پاوں چارپائی سے نیچے لٹک رہا تھا اور اس کے ہونٹ نیلے پڑے ہوئے تھے . ہم نے فورا ہاسٹل کی وارڈن شاہینہ کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا .

ہاسٹل وارڈن نے ریسکو 1122 کو اطلاع کی جس نے عروج کا ابتدائی معائنہ کرنے کے بعد اُس کی موت کی تصدیق کردی . عروج کی موت کی خبر چند ہی لمحوں میں جنگل کی آگ کی مانند کالج میں پھیل گئی اور میڈیا بھی اپنی ڈی ایس این جیز کے ساتھ پہنچ گیا.

کالج پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عالیہ سہیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عروج عارضہ قلب کی پیدائشی مریض تھی، پیدائش کے دوسرے سال ہی اسے دل کی تکلیف شروع ہو گئی تھی . عروج کی وفات بھی حرکت قلب بند ہونے کے سبب ہی ہوئی . ساتھی طالبات نے وارڈن کو صبح عروج کی ہلاکت کی اطلاع دی .

[pullquote]کیا عروج کی وفات کسی زہریلی چیز کے کاٹنے سے ہوئی ؟[/pullquote]

کالج کی کچھ طالبات نے عروج کی موت کا ذمہ دار کالج انتظامیہ اور ہاسٹل وارڈن شاہینہ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ عروج کی ہلاکت کسی زہریلی چیز کے کاٹنے سے ہوئی . ان کے مطابق انہوں نے عروج کی طبعیت خراب ہونے پر ہاسٹل وارڈن کو مطلع بھی کیا تھا کہ اس کو اسپتال منتقل کیا جائے مگر وارڈن نے اسپتال منتقل نہیں کیاجس کی وجہ سے عروج جان سے ہاتھ دھو بیٹھی . اس وجہ سے کالج کی طالبات نے ہڑتال کردی اور کالج انتظامیہ سمیت وارڈن کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کردیا. کالج پرنسپل نے وراڈن شاہینہ کو معطل کر دیا . طالبات کے احتجاج کے باعث کالج کو پیر تک بند کردیا گیا جبکہ وزیراعلی پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کرنے کا حکم دیا.

[pullquote]ڈاکٹروں کا موقف [/pullquote]

پولیس اور ڈاکٹروں سے معاملے پر بات چیت ہوئی . ابتدائی معلومات کے مطابق عروج کی موت زہریلی چیز کے کاٹنے سے نہیں بلکہ دل کی دھڑکن بند ہونے سے ہی ہوئی، پولیس کے مطابق موت کے حقائق جاننے کے لیے نمونے لاہور بھجوائے گئے ہیں اور جلد ہی رپورٹ میں عروج کی موت کی وجہ سامنے آ جائے گئی.

[pullquote]کون سچ بول رہا ہے اور جھوٹا کون ہے ؟[/pullquote]

کالج انتظامیہ کے وفد نے عروج کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی ، اور فاتحہ خوانی کی

عروج کی موت اور کالج انتظامیہ کا موقف اب ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے . طالبات کے الزام اور پر نسپل کے موقف کے بعد کون کتنا سچ بول رہا ہے اور کون کتناجھوٹ اس بات کا سراغ لگانے کے لئےڈاکٹر کی رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا تھا چنانچہ پولیس نے لاش کو قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ہولی فیملی اسپتال منتقل کیا اور لیڈی وارڈن کو بھی حراست میں لے کر تھانہ میں منتقل کردیا، ہولی فیملی اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کی عدم موجودگی کے باعث پوسٹ مارٹم تاخیر سے شروع ہوا، پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی اور جمعہ کی رات 8 بجے عروج کو منوں مٹی تلے دفن کردیا. کالج انتظامیہ کی جانب سے ایک وفد نے عروج کے خاندان سے تعزیت کی اور اس کی قبر پر پھولوں کی چادر بھی چڑھائی . وفد میں وائس پرنسپل پروفیسر چمن ، کالج کونسل کے ارکان ، شعبہ انگریزی کی سربراہ اور کوآرڈینیٹر شامل تھیں .

[pullquote]عروج کے خاندان کا موقف [/pullquote]

عروج کی والدہ کالج انتظامیہ کے خلاف کاروائی کوئی نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لئے پولیس نے جمعہ کو ہی کالج کی وارڈن کو اپنی تحویل سے رہا کر دیا . یہ کیس مزید پیچیدہ ہوچکا تھاتجسس بڑھنے لگا کہ آخر عروج کی موت کیسے واقع ہوئی ؟ وزیر اعلی کے حکم پر بنائی کی تحقیقاتی ٹیم بدھ کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی . عروج کا خاندان اس کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کرانا چاہتا تھا تاہم کالج انتظامیہ اور پولیس کے اصرار پر پوسٹ مارٹم کیا گیا .

[pullquote]صوبائی وزیر برائے تعلیم کا موقف [/pullquote]

عروج کی والدہ کالج انتظامیہ کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتیں لیکن صوبائی وزیر برائے خواندگی راجہ راشد حفیظ نے کہا ہے کہ اگر والدہ نے کاروائی نہیں کی تو میں خود مدعی مقدمہ بنوں گا.

[pullquote]تحقیقاتی ٹیم بن جانے کے بعد اور رپورٹ آنے سے پہلے مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں ؟[/pullquote]

گذشتہ روز 30 کے قریب طالبات نے کالج کے مین گیٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور اپنا مطالبہ پھرسے دھرایا کہ کالج انتظامیہ اور وارڈن شاہینہ کے خلاف کاروائی کی جائے، طالبات نے قصوروار کالج انتظامیہ اور ہاسٹل کو قراردیا طالبات کا ایک مطالبہ مان لیا گیا اور اس تحقیقاتی ٹیم میں تین طالبات کو بھی شامل کرلیا گیا.تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ آج پیش کی جائے گی جس کے بعد ہی علم ہو سکے گا کہ عروج کی وفات کی اصل وجہ کیا تھی اور جو احتجاج ہو رہا ہے ، اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے ؟

[pullquote]کالج انتظامیہ کا موقف[/pullquote]

کالج انتظامیہ کا موقف ہے یہ واقعہ ہاسٹل میں پیش آیا ، کالج سے اس کا کوئی تعلق نہیں .
دوسری بات یہ ہے کہ عروج کی وفات ہارٹ اٹیک سے ہوئی .
تیسری بات یہ ہے کہ طالبات کے احتجاج پر ہاسٹل وارڈن شاہینہ کو معطل کیا جا چکا ہے .
چوتھی بات یہ ہے کہ الزام لگانے والی طالبات کو تحقیقاتی کمیٹی میں شامل کیا جا چکا ہے .
پانچواں نکتہ یہ ہے کہ عروج کی والدہ اور خاندان کالج انتظامیہ نے کالج انتظامیہ کے خلاف کسی کارروائی کی درخواست نہیں کی بلکہ انہوں نے عروج کی وفات کو ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق ہارٹ اٹیک ہی قرار دیا .

[pullquote]احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟[/pullquote]

اطلاعات کے مطابق اسی کالج میں رمضان المبارک کے دوسرے دن کھانے پکانے کا انتظامہ درست نہ ہونے پر طالبات نے ہاسٹل وارڈن قرۃ العین فاروقی کے خلاف احتجاج کیا تھا ، طالبات نے وارڈن پر الزام لگایا تھا کہ ملازمین ان کے گھر میں کام کرتے ہیں اور ان کا کھانا بھی ہاسٹل سے پک کر جاتا ہے جبکہ طالبات کے لیے سحری اور افطاری میں کھانے کا بندوبست ٹھیک نہیں ہوتا . اس احتجاج کے بعد پرنسپل نے ہاسٹل وارڈن سے کچن سے متعلق اختیارات واپس لے لیے تھے . کالج کی کچھ ٹیچرز نے الزام عائد کیا ہے کہ عروج کی وفات کو بہانہ بنا کر قرۃ العین فاروقی اور ان کی لابی کالج اتنظامیہ کے خلاف احتجاج کروا رہی ہے . ایک ٹیچر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ قرۃ العین فاروقی اپنے شوہر کو بھی اپنے ساتھ ہاسٹل میں رکھنا چاہ رہیں تھیں تاہم کالج انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر وہ کالج انتظامیہ کی مخالفت کر رہی ہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے