عمران خان اور اردوان کا موازنہ کیونکر

میرے دوست ندیم ملک نے اپنے ٹی وی پروگرام کے لئے ایک انٹرویو کیا۔ ناظرین کی ایک ریکارڈ توڑ تعداد اسے سوشل میڈیا کی بدولت بھی دیکھ چکی ہے۔اس انٹرویو کے نشر ہونے کے بعد محمد حنیف جیسے تخلیقی اذہان ”مادی“ اور ”روحانی“ دنیاﺅں کے مابین فرق تلاش کرنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔میں ان دونوں دنیاﺅں کے مابین فرق ڈھونڈنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں۔ زاہدوں کی پاک بازی سے زیادہ ان کے فتوے سے ڈرلگتا ہے۔ نادانستگی میں کوئی چوک ہوگئی تو جان بچانے سے زیادہ فکر ضمانتیوںکی تلاش کے بارے میں لاحق ہوجائے گی۔

محمد حنیف کی اس سوچ سے مگر کامل اتفاق ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے اہم ترین سرکاری عہدوں پر فائز رہتے ہوئے بھی ”بابوں“ کے ذریعے ریاستِ پاکستان کی رہ نمائی اور تحفظ کی تلاش کا جو سفر قیامِ پاکستان کے فوری بعد والے برسوں میں شروع کیا تھا 25جولائی 2018کے بعد شاید اپنی منزلِ مراد تک پہنچ گیا ہے۔

چند روز قبل تحریک انصاف کے ہونہار بروا اسد عمر صاحب نے سابقہ حکومت کے مفتاح اسماعیل کے متعارف کردہ بجٹ کو ”غریب دوست“ بنانے کے لئے چند اقدامات اٹھائے۔ ان اقدامات کی تفصیل بتانے وہ قومی اسمبلی میں کھڑے ہوئے تو ریاست کے مختلف شعبوں کے لئے گزشتہ حکومت کی جانب سے مختص ہوئی رقوم کا شق وار جائزہ لیتے ہوئے ان میں مجوزہ تبدیلیوں کی نشاندہی کے بجائے Big Pictureدکھانے میں مصروف ہوگئے۔ ان کی تقریر دل پذیر کو حکومتی اراکین کے علاوہ اپوزیشن کے اراکین نے بھی مسحور ہوئے سنا۔

پریس گیلری میں بیٹھا میں اگرچہ اپنے ذہن میں کئی دنوں سے کھدبد کرتے ایک سوال کا ٹھوس جواب ڈھونڈنے کی تمنا میں مبتلا رہا۔ سوال یہ تھا کہ پاکستان اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کے لئے ایک بار پھر IMFسے رجوع کرنے کی تیاری کررہا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب قطعاََ نہیں ملا۔ اسد عمر صاحب نے البتہ اپنی تقریر کے اختتام پر پاکستانیوں کو پُرجوش انداز میں اس حقیقت پر زور دیتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کا قیام 27رمضان کے روز مقدس عمل میں آیا تھا۔ اس ملک کے قیام کی گھڑی سعد تھی اور ایک حوالے سے اس امرربیّ کا اظہار بھی کہ ہمارے ملک کو نہ صرف اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پاناہے بلکہ بہت تیزی سے اور جلد ہی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں اپنی جگہ بھی بنالینا ہے۔ میں یہ سوچتے ہوئے گھر لوٹ آیا کہ ”وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے“ آکر رہے گا خواہ پاکستان کا وزیر خزانہ اسد عمر ہی کیوں نہ ہو۔

جس انٹرویو کے ذکر سے اس کالم کا آغاز ہوا اس کا فقط ایک جملہ میرے ذہن میں کئی دنوں سے اٹکا ہوا ہے۔ اس کے مطابق موجودہ صدی نے صرف دوہی رہ نما(سیاسی) پیدا کئے ہیں۔ عمران خان اور اردوان۔ ان دونوں کے سوا سب حکمران محض سیاست دان ہیں۔ قوموں کی تقدیر بدلنے کی بصارت سے محروم۔

”اس صدی“ کا ذکر کرتے ہوئے اگرچہ دل مضطر میں خیال یہ بھی آیا کہ ابھی تو اس صدی کے صرف 18سال گزرے ہیں۔ اس کے بقیہ 82برس عمران خان اور اردوان کے لئے وقف رہنا منطقی اعتبار سے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یہ خیال ہی مگر اپنی سرشت میں ”مادی“ ہے۔ ”روحانیت“ کی بنائی تقویم سے لاعلمی ظاہر کرتا ہے۔

”اس صدی“ کو اگر عمران خان اور اردوان ہی کی ٹھہرادیا جائے تو بھی ترکی کی سیاست کے واجبی علم کے باعث یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور اردوان کی شخصیات اور سیاسی کیرئیر میں ہرگز کوئی مماثلت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ کئی دنوں سے ارادہ باندھ رکھا ہے کہ ”مادی“ اور ”روحانی“ دنیاﺅں کے درمیان فرق کو سمجھنے کے بجائے عمران خان اور اردوان کے درمیان تفریق کے بارے میں تفصیلی انداز میں لکھا جائے۔ ڈنگ ٹپاﺅ کالم لکھنے والوں کے پاس مگر تھوڑی تحقیق کے بعد اپنی بات سمجھانے کا ہنر میسر نہیں ہوتا۔ جب بھی اس موضوع پر لکھنے کا سوچا تو طے ہی نہ کرپایا کہ آغاز کہاں سے کروں۔

اردوان کے بارے میں سب سے پہلے یہ حقیقت نگاہ میں آتی ہے کہ وہ بذاتِ خود عمران خان صاحب کی طرح کسی تحریک یا سیاسی جماعت کا بانی نہیں ہے۔اس کی سیاسی منظر پر نموداری کے پیچھے کئی برسوں تک پھیلی ایک سوچ اور تحریک ہے جس نے مصطفےٰ کمال اتاترک کے ”سیکولر انقلاب“ کو ہرگز قبول نہیں کیا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کے دور شکوہ کی یادوں سے پھوٹی اس سوچ نے مصر کے اخوان المسلمین اور پاکستان کی ”فکر مودودی“سے رجوع کیا۔ مبادیاتِ اسلام سے دور حاضر کے مسلمان ممالک کے لئے کوئی سیاسی لائحہ عمل تیار کرکے اسے لاگو کرنے کی کوشش کی۔

ترکی کی فوج خود کو اتاترک کی تعلیمات کا وارث اور محافظ تصور کرتی تھیں۔ اس نے بہت شدت سے ردِ اتاترک والی تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ٹھوس معاشی وجوہات نے مگر اسکے جبر کو کمزور کیا۔ اناطولیہ کے پہاڑی دیہاتوں اور قصبات سے رزق کی تلاش کے لئے ”کاسمپولئین“ استنبول میں آئے بے زمین اور دیہاڑی دار لوگوں نے احیائے اسلام کے نام پر اٹھی تحریک کو ہجوم کی قوت عطا کی۔ استنبول کا میئر ہونے کے سبب اردوان اس ہجوم کا ہیرو بن کر ابھرا۔

اردوان نے بحیثیت میئر استنبول کی کچی بستیوں کو ”ریگولر“ کیا۔ دیہاتوں میں زمینیں گنواکر شہر میں آئے مفلس دیہاڑی دار اس کے فیصلوں کی وجہ سے ”مالک مکان“ ہوگئے۔ ان مکانوں میں بجلی کنڈوں کے ذریعے چوری کرکے فراہم کی جاتی تھی۔اردوان نے بجلی کی ترسیل کویقینی اور قانونی بناکر مالکِ مکان بنائے افراد کو اس کے بل دینے پر مجبور کیا۔

اردوان کی بدولت لاکھوں افراد پر مشتمل سیاسی طورپر متحرک ایک ہجوم بھرپور انداز میں نمودار ہواجسے استنبول کی روایتی اشرافیہ ”قبضہ گروپوں“ کے محتاج اَن پڑھ اور اجڈ دیہاتی تصور کرتے ہوئے رعونت سے نظرانداز کرتی رہی تھی۔تازہ ترین سیاسی زبان میں یوں کہہ لیجئے کہ اردوان نے نچلے ترین متوسط طبقے کی Upward Mobilityمیں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ استنبول کو پاکستان کا کراچی تصور کرلیجئے اور اناطولیہ کو ہمارے ہاں کا پوٹھوہار۔ ترکی کے پوٹھوہاری اب وہاں کے استنبول جسے تاریخ میں قسطنطنیہ کہا گیا ہے کے اصل وارث اور مالک بن چکے ہیں اور اپنی ”مالکی“ کا کریڈٹ اردوان کو دیتے ہیں۔

عمران خان صاحب نچلے متوسط طبقے کی Upward Mobilityکی فکر میں مبتلا نظر نہیں آتے۔ اسلام آباد کی کچی بستیو ں کو بلکہ مسمار کررہے ہیں تاکہ ”قبضہ گروپ“ سے آزاد کروائی زمینیں ریاستِ پاکستان ”ہاﺅسنگ سوسائٹیاں“ بنانے والوں کے حوالے کرسکیں۔ ”جدید ترین رہائشی سہولتوں سے مزین“ ان ہاﺅسنگ سوسائٹیوں میں رہنے والوں کو Gated Communitiesبھی کہا جاتا ہے۔ عام آدمی وہاں جاتے ہوئے گھبراتا ہے۔ منہ اٹھاکر وہاں کوئی چل پھررہا ہوتو اسے ”مشکوک“ گردانا جاتا ہے۔ اس کا شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے۔ اس کی تلاشی لی جاتی ہے۔رزق کی تلاش میں شہروں میں دربدر ہوئے ذلتوں کے مارے افراد کے عمران خان سرپرست بننے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ جہانگیر خان ترین اور علیم خان جیسے افراد ان کی سیاست کے اصل Services Providersہیں۔ سہولت کار۔ ایسے ا فراد کی ہمراہی میں ان کا اردوان جیسا ہونا ممکن ہی نہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے