شہباز شریف منتظم بہت اچھے تھے

شرافت کی صحافت کا کمال دیکھیے ، بعض جھوٹ اس تواتر سے بولے گئے کہ اقوال زریں بنا دیے گئے ۔ گداگران سخن کی اس چاند ماری کا حاصل ایک زریں قول یہ بھی تھا کہ شہباز شریف بہت اعلی پائے کے منتظم ہیں ۔ ان سے اچھا ایڈ منسٹریٹر اس وقت پورے پاکستان میں کہیں موجود نہیں ۔ شام ڈھلے دستر خوان شریف سے لوگ اٹھتے اور پوری وارفتگی سے قوم کو یہ اقوال زریں سنا کر واپس اسی دسترخوان شریف کو لوٹ جاتے ۔ یہ جھوٹ اس تواتر سے بولا گیا کہ لوگوں نے اسے قدرت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ۔ قانون قدرت مگر اٹل ہے : آپ ایک وقت میں سب لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے اور آپ چند لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن آپ چاہیں کہ آپ تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف بنا لیں تو یہ ممکن نہیں ۔

لاہور میں اس وقت ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع ہے۔ اس آپریشن کو چار روز ہو گئے ہیں ۔ روز حکومتی مشینری اربوں کی زمین قبضہ گروپ سے واگزار کروا رہی ہے ۔ ایٹم بم کا نام تو سب نے سن رکھ تھا پہلی بار لوگوں کو معلوم ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس ایک منشاء بم بھی ہے ، جس کی طاقت کسی ایٹم بم سے کم نہیں ۔ صرف اس کے قبضے سے 86 کنال اراضی واگزار کرائی گئی ہے ۔ لاہور کی صرف ایک سبزہ زار سکیم میں اربوں روپے کی سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ ختم کروا دیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ لاہور وہی شہر ہے جہاں پاکستان کے سب سے بڑے منتظم بقلم خود موجود ہوتے تھے اور اہل دربار ان کی ایڈ منسٹریشن کی قوالیاں پڑھ پڑھ کر خلعتیں اور مناصب لیا کرتے تھے۔

پاکستان کی تاریخ میں پنجاب پر سب سے زیادہ عرصہ شہباز شریف نے حکومت کی ۔ یہ تین دفعہ اس صوبے کے وزیر اعلی رہے ۔ دو دفعہ ان کی وزارت اعلی کے طنطنے کا عالم یہ تھا کہ مرکز میں انہیں کے بھائی وزیر اعظم تھے۔ جلاوطنی کے بعد واپس آئے تو 2008 میں یہ وزیر اعلی بنے۔ 2008 سے 2018 تک یہ پنجاب کے وزیر اعلی رہے ۔ ان دس سالوں میں کیا کیا تماشا اس قوم نے نہیں دیکھا ۔ اہل دربار نے کہا کہ صرف پاکستان ہی نہیں چین بھی شہباز شریف کی ایڈ منسٹریشن کا قائل ہو گیا ہے اور چینی حکومت ان کی اتنی بڑی مداح ہے کہ اس نے ان کی مثالی ایڈ منسٹریشن کے لیے ’ پنجاب سپیڈ‘ کی اصطلاح وضع کی ہے ۔ آج اس پنجاب سپیڈ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹی پڑی ہے اور لوگ حیرت سے سن رہے ہیں کہ خادم اعلی بقلم خود کے اپنے شہر میں اربوں روپے کی زمین پر لوگ ناجائز قبضہ کر کے بیٹھے رہے اور منتظم صاحب کو اس کی پرواہ نہ تھی ۔ جو کام شہباز شریف 10 سالوں میں نہ کر سکے تحریک انصاف کی حکومت نے وہی کام ایک ماہ میں کر دیا ۔ پنجاب سپیڈ یہ کام نہ کر سکی ۔ وہ صرف غریب اور کمزور اساتذہ سے ڈینگی مرواتی رہے اور انگلی نچا نچا کرنچلے درجے کے سرکاری اہلکاروں کو معطل کر کے کارروائی ڈالتی رہی ۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ کیا ہوا اربوں روپے کی سرکاری زمین پر قبضہ ہو گیا ۔ کیا بغلیں بجانے کے لیے یہ کافی نہیں کہ شہباز شریف منتظم تو بہت اچھے تھے۔

راولپنڈی میں ایک میونسپل کارپوریشن موجود تھی ۔ اس کے کرتا دھرتا مسلم لیگ ہی کے لوگ تھے ۔ دادا گیری کا عالم یہ کہ بازار میں کسی نے گاڑی کو بریک لگائی تو کارپوریشن کے اہلکار بیس روپے کا جگا ٹیکس لینے آ گئے۔ ایک عدد راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی بھی موجود تھی ۔ مسلم لیگ ن ہی کا ایم پی اے اس کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ لیکن ایک فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے اتنا نہ ہو سکا کہ یہ انتظامیہ شہر کے کوڑے کو ہی ٹھکانے لگا دیتی ۔ منتظم بھائی جان کی بصیرت کو سلام پیش کیجیے کہ راولپنڈی سے کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ ترکی کی ایک کمپنی کو دے دیا ۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا ہوا پنجاب سپیڈ اپنا کوڑا بھی خود نہ اٹھا سکی اور ترکی کی کمپنی کو لا بٹھایا ۔ اصل بات تو یہ ہے خادم اعلی منتظم بہت اچھے تھے۔

پنجاب کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ لیا گیا ۔ شرافت کی صحافت کے بعد عمل گویا شریف سول سروس قائم کر دی گئی ۔ منظور نظر بیوروکریٹس کو نوازا گیا ۔ پبلک کمپنیاں بنا کر مال غنیمت بانٹا جاتا رہا ۔ صرف صاف پانی کی فراہمی کے لیے بنائی گئی کمپنی میں چار ارب روپے برباد کر دیے گئے لیکن کسی کو پانی نہ مل سکا ۔ نندی پور پراجیکٹ بھی ای ایسا ہی جہنم تھا جس میں 58 بلین جھونک دیے گئے اور جو بجلی پیدا ہوئی جو تاریخ کی مہنگی ترین بجلی تھی ۔ 42 روپے فی یونٹ ۔ یہاں بھی خادم اعلی کی ہنجاب سپیڈ پر انگلیاں اٹھیں ۔ اس پراجیکٹ کے لیے ایم ڈی کی کوئی پوسٹ ہی نہ تھی ۔ پنجاب سپیڈ نے پہلے یہ پوسٹ تخلیق کی پھر مرضی کے ایک افسر کو یہاں تعینات کر دیا گیا ۔ یہ افسر گریڈ انیس کا تھا اور پارکس اینڈ ہارٹیکلچر میں کام کر رہا تھا اور اسے اس کام کا کوئی تجربہ نہ تھا لیکن نواز دیا گیا ۔ ایم ڈی کو 1600 فیصد اضافی الاؤنس بھی عطا کر دیا گیا ۔امریکہ کا دورہ بھی صاحب نے مفت میں فرما لیا ۔ اس مال غنیمت کی تقسیم کے بعد وہی ہونا تھا جو ہوا۔ منصوبہ چالو ہونے کے پانچویں روز ہی بند ہو گیا ۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ 58 بلین برباد کر کے قوم کو یہ تو معلوم ہوا کہ شہباز شریف منتظم بہت اچھے تھے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی پنجاب سپیڈ کا ایک انمٹ شاہکار ہے ۔ دن دہاڑے تخت لاہور میں ماؤں کے جبڑوں میں گالیوں مار کر انہیں قتل کر دیا گیا ۔ درجنوں لوگ شہید کر دیے گئے ۔ بیٹیاں ماؤں کے لاشوں پر بین ڈالتی رہیں ۔ خادم اعلی اس وقت لاہور میں تھے اور صرف لاہور ہی میں نہیں ماڈل ٹاؤن نام کے اسی محلے میں تھے جہاں ان کی پولیس نے یہ قتل عام کیا ۔ معاملہ عدالت میں پہنچا تو ارشاد ہوا مجھے تو کچھ علم نہ تھا مجھے تو ٹی وی سے پتا چلا کہ یہاں یہ سب کچھ ہو گیا ۔ کل مقتولین کے لہو رنگ لاشے اس حقیقت کا اعلان کر رہے تھے اور آج ان کی قبروں کی خشک مٹی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ پنجاب سپیڈ کے فضائل سے انکار کرنے والے جان رکھیں اور کچھ ہو نہ ہو، خادم اعلی منتظم تو بہت اچھے تھے۔

سرکاری تعلیمی اداروں کے نام بدل کر کسی کا نام شہباز شریف کالج اور کسی کا نواز شریف کالج رکھ دیا ۔ لطیفہ یہ ہوا کہ نواز شریف میڈیکل کالج اور نواز شریف یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسے کمالات سامنے آ گئے۔ خود نمائی کا ایسا شوق کہ پبلک توائلٹس کے باہر بینر لگے تو اس پر بھی بھائی جان کی تصویر۔ بال تو لگوا لیے تھے اب جم کون جاتا ، سمارٹ نظر آنے کا شوق چرایا تو اخبارات کو جاری کیے اشتہارات میں جعل سازی کا عالم یہ تھا کہ نیو جرسی الیکٹرانک سیکیورٹی ایسو سی ایشن کے اہلکار مائیکل جے ریونز کے دھڑ پر شہباز شریف کا سر لگا دیا گیا تا کہ پنجاب سپیڈ ذرا ہینڈ سم نظر آئے۔ لیکن ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اصل چیز تو یہ ہے کہ شہباز شریف منتظم بہت اچھے تھے۔

وزیر اعلی عثمان بزدار نے نہ صرف لاہور بلکہ پورے پنجاب میں آپریشن شروع کر دیا ہے۔ اس کی زد میں ان کی اپنی جماعت کے لوگ بھی آئے تو حکومت نے پرواہ نہیں کی۔ طنطنے اور دبدبے والے حکمران جس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیتے تھے جنوبی پنجاب کے اس وزیر اعلی نے جسے ہم سب کٹھ پتلی کا طعنہ دیتے ہیں چند دنوں میں اس پتھر کو توڑ کر پھینک دیا ۔ لیکن اسے تو فائل پڑھنی نہیں آتی ۔ وہ تو پینڈو اور مسکین سا ہے۔ اسے انگلی تک نچانا نہیں آتا ۔ اس کے دور میں پولیس مقابلے بھی نہیں ہوتا ، وہ صحافیوں کو ساتھ لے کر دورے بھی نہیں فرماتا ، اس کی سر راہ کوئی بھی توہین کر دیتا ہے۔ یہ تو لگتا ہی نہیں کہ وزیر اعلی ہے ۔ وزیر اعلی تو شہباز شریف تھے۔ دنیا مانتی ہے شہباز شریف میں اور کوئی خوبی ہو نہ ہو وہ منتظم بہت اچھے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے