ایک سچا واقعہ

مجھے گھر کا سودا سلف خریدنے کا بہت شوق ہے۔ یہ عادت مجھے اپنے والد صاحب سے پڑی ہے۔ وہ بچپن سے ہمیں بازار لے کر جاتے تھے۔ بازار جانا ایک بہت بڑی ایکٹوٹی ہوتی تھی۔ سبزی منڈی میں آلو ، پیاز ، ٹماٹر کے بھائو تائو کرنا، چن چن کر اچھی سبزی لانا۔ پھر گوشت کی دکان پر قصائی سے اپنی پسند کا گوشت لانا ۔ مرغی کے گوشت کی دکان سے اپنے سامنے مرغی ذبح کروانا۔ صاف گوشت بنوانا۔ پھل فروش سے پھل خریدنے کا طریقہ کہ کس طرح دکان دار پر تول کرتے ہوئے نظر رکھنی ہے۔

گلے سڑے پھلوں کو لفافے میں ڈالنے سے پہلے دکانداد کا ہاتھ روک دینا۔ یہ سب انہی سے سیکھا ہے۔ ہمارے گھروں میں کوئی ملازم وغیرہ تو ہوتا نہیں تھا گھر کے سربراہ کے ذمے ہی سودا لانا ہوتا تھا۔ ہم بھی بڑی خوشی سے ہاتھ میں دادی اماں کے ہاتھ سے سلے ہوئے کپڑے کے تھیلے کو جھلاتے ہوئے ہوئے بازار جاتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس وقت ہم ملازم جیسی عیاشی کے متحمل بھی ہوتے تو بھی ابو نے سودا خود ہی لانا تھا۔ اس لئے کہ ان کے لئےیہ بات صرف اشیائے خورد ونوش کی خرید تک محدود نہیں تھی۔

انکے کے بقول اس طرح لوگوں سے رابطہ رہتا ہے۔ اشیائے صرف کی خرید و فروخت سے لوگوں سے حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے طرز زندگی کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔ ان کے رہن سہن کے دکھ سکھ کا پتا چلتا ہے۔

بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ یہاں پھل ، سبزی اور گوشت کو خریدنا "گروسری شاپنگ "کہلاتا ہے۔ یہاں اشیائے صرف کو خریدنے کے اور ہی طور طریقے ہیں۔ سبزی کی دکان کے باہر گاڑیوں کا رش ہوتا ہے۔ ڈرائیور دکان کے پاس جا کر ہارن بجاتا ہے۔ پچھلی سیٹ سے بیگم صاحبہ شیشہ نیچے کرتی ہیں۔ دکاندار کو آم کی پیٹیوں کی مطلوبہ تعداد بتاتی ہیں، سبزی، پھل کے کریٹوں کی تعداد بتاتی ہیں اور گاڑی سے باہر کھڑا ڈرائیور جلدی جلدی سامان کو گاڑی کی ڈگی میں لوڈ کرواتا ہے۔

بیگم صاحبہ پرس میں سے پانچ پانچ ہزار کے نوٹ نکالتی ہیں اور دکاندار کو رقم ادا کرتے ہوئے یہ کہنا نہیں بھولتیں کہ بہت مہنگائی ہو گئی ہے۔ دکاندار بہت سیانے ہو چکے ہیں ۔ گاڑی کی لمبائی دیکھ کر ہی سودا دیتے ہیں ۔ موٹر سائیکل والے گاڑیوں کی اس قطار میں یتیموں کی طرح اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ گوشت کی دکان پر بھی اسی طرح کا رش ہوتا ہے۔ لمبی چوڑی گاڑیوں میں سے کلو ، یا دو کلو گوشت کا آرڈر نہیں ہوتا بلکہ بکروں کی مطلوبہ تعداد بتائی جاتی ہے۔

مرغی کی دکان پر صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ کتنی مرغیوں کا تکہ ، کتنی کی کڑاہی اور کتنی مسلم رکھنی ہیں۔ اسطرح کی گاڑیوں میں اگر بیگم صاحبہ موجود ہیں تو اسکا مطلب یہ کسی بہت ہی سگھڑ گھرانے کی بات ہو رہی ہے ورنہ سودا سلف کی خریداری عموماََ ڈرائیور حضرات کی ہوتی ہے۔ وہی گھر سے پرچی پر مطلوبہ سودے لکھوا کے شاپنگ کی کلفت سے گزرتا ہے۔ اس دوران اس نے سودے والے سے دگنے پیسوں کی رسید کیسے بنوانی ہے یہ اس کی اپنی کارکردگی پر منحصر ہوتا ہے۔ عموماََ ڈرائیور اس کو بے ایمانی نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ کچھ بھی سودا ، کسی بھی قیمت پر لے جائیں بیگم صاحبہ نے تو یہی کہنا ہے کہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔

ہمارا گھر جس سیکٹر میں ہے وہاں ابھی تعیش کا یہ عالم نہیں ہے۔ یہ نیا نیا سیکٹر ہے ۔ یہاں لوگوں نے بڑے بڑے گھر بنا کر کرائے پر دیئے ہوئے ہیں انہی میں سے ایک بڑے گھر کے پورشن میں خاکسار کرائے پر مقیم ہے۔ یہاں سبزی گوشت خریدنے والے کچھ تو باقی پرتعیش خریداروں والی حرکتیں کرتے ہیں اور کچھ ہمارے جیسے ایک آدھ مرغی خریدنے والے پوری تسلی اور چھان پھٹک کے بعد مرغی کا انتخاب کرتے ہیں اپنے سامنے ذبح کرواتے ہیں اور پلاسٹک کی تھیلی میں ڈلوا کر شاداں و کامراں اپنے گھروں کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں۔

سبزی اور پھل بیچنے والے ہمارے ایسے گاہکوں کو زیادہ لفٹ نہیں کرواتے۔ سودے میں سے اچھا پھل سبزی چننے پر بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ گوشت والا بھی کچھ اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتا۔ اس کو ایسے گاہکوں کی فکر لگی ہوتی ہے جنہیں بکرے پر بکرے تول کر دینے ہوتے ہیں ہم ایسے کلو ، دو کلو گوشت والے اس کے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہیں اور یہ اسے گوارہ نہیں ہوتا۔

چند دن پہلے میں اپنے گھر کی قریبی مرغی فروش کی دکان میں مرغی خریدنے گیا۔ دوکان پر رش اتنا تھا کہ لگتا تھا کہ مرغی کا گوشت مفت بٹ رہا ہے۔ مرغی فروش فٹا فٹ گاڑیوں والوں کے آرڈر بحسن و خوبی بھگتا رہا تھا۔ اسی اثنا میں ایک بوڑھی اماں دکان میں داخل ہوئی۔ مرغی فروش بڑے سیانے ہوتے ہیں۔ مرغی کی گردنیں اور آلائش بھی فروخت کرتے ہیں۔ بوڑھی اماں نے ان گردنوں اور آلائشوں کی قیمت دریافت کی ۔ دکاندار نے ساٹھ روپے قیمت بتائی۔

بوڑھی اماں نے ایک کلو گردنوں اور آلائشوں کی فرمائش کی۔ دکاندار کے پاس اتنی فرصت نہیں تھی کہ ایسے گاہکوں پر فوری توجہ دے سکے تو اس نے اماں کو انتظار کرنے کا کہا اور اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ مجھے اس دوران اس خاتون سے بات چیت کا موقع مل گیا۔ وہ یہیں کوٹھیوں میں کام کرتی تھی۔ انہی کوٹھیوں میں جہاں کے ڈرائیور گوشت کی دکانوں سے بکرے کے بکرے تلواتے تھے۔

انہی کوٹھیوں میں جہاں چار چار گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور ہر گاڑی میں دوسرے روز پانچ سات ہزار کا پیڑول ڈلتا ہے۔ انہی کوٹھیوں میں جہاں بچوں کے اسکول کی فیس کم از کم لاکھ روپے ماہانہ ہوتی ہے۔ انہی کوٹھیوں میں جہاں ایک وقت باہر کھانے کا بل دس سے پندرہ ہزار آجاتا ہے۔ انہی کوٹھیوں میں جہاں بیگم صاحبہ ہر وقت یہ کہتی رہتی ہیں کہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔ بوڑھی اماں کے بیٹے نے میڑک میں ٹاپ کر لیا تھا۔ اب بقول اسکے نخرے بہت ہو گئے ہیں۔آئے روز مرغی کے گوشت کی فرمائش کر تا ہے۔

بوڑھی ماں کبھی کبھار ہی اس کی فرمائش پوری کر سکتی تھیں۔ بوڑھی اماں نے کوڑ ے میں پھینکی ہو ئی یہ گردنیں اور آلائشیں تھیلی میں ڈلوائیں ااور دکاندار سے ساٹھ سے کچھ رعایت کی فرمائش کی اور بات پچاس روپے پر طے ہوگئی۔ بوڑھی اماں جب دکان سے رخصت ہوئی تو ا سکے چہرے پر ایسی طمانیت تھی جیسے اس کو دنیا کی سب سے بڑی خوشی مل گئی ہے۔

جب وہ دکان سے رخصت ہوئی تو اسکو نہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی خبر تھی، نہ سعودی عرب سے بھیک میں تیل ملنے کی خوشخبری اس تک پہنچی تھی، نہ ترقی کے منصوبے اس کے گمان میں تھے نہ معیشت کے فروغ کے اعداد و شمار اس کی دسترس میں تھے ۔ ہمیں ملکی سیاست اور معیشت کے بارے میں دن بھر بات کرتے ہوئے اس بات کا ذرا بھی ادراک نہیں ہوتا کہ ایسے لوگوں سے پاکستان اٹا پڑا ہے اور اب بعید نہیں کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے۔ بات صرف یہ یاد رکھنے کی ہے کہ غیر منصفانہ تقسیم زرسے ہم نے جو انسانوں میں تفریق پیدا کی ہے اب اس تقسیم، اس تفریق کو، ایک کاری ضرب درکار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے