ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیراعلی پنجاب نے اپنا جواب جمع کرا دیا

اسلام آباد: وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کی تردید کر دی۔

سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے کے معاملے پر انکوائری رپورٹ پر فریقین سے رائے طلب کی تھی۔

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے حوالے سے نیکٹا سربراہ اور سینئر پولیس افسر خالد دادلک کی رپورٹ پر اپنا جواب سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا۔

وزیر اعلی پنجاب نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ اپنا دفتر کبھی خلاف قانون استعمال نہیں کیا، قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں اور اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔

عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ خالق داد لک کی رپورٹ خیالات اور قیاس آرائیوں پرمبنی ہے، یہ رپورٹ اس قابل نہیں کہ اس پر انحصار اور بھروسہ کیا جائے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریبی ساتھی احسن جمیل گجر نے بھی اپنا جواب عدالت میں جمع کرایا جس میں انہوں نے سربراہ نیکٹا کی انکوائری رپورٹ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا ہےکہ رپورٹ مبہم اور غیر واضح ہے۔

احسن جمیل گجر کا کہنا ہے کہ انکوائری افسر نے حقائق کے منافی رپورٹ دی، میں کوئی سرکاری یا عوامی عہدہ نہیں رکھتا اور میں ایک عام شہری ہوں اور قانون کی پاسداری کرتا ہوں۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ میرے خلاف ضابطہ کار کی خلاف وزری پر انضباطی کارروائی نہیں کی جاسکتی، مانیکا فیملی کا قریبی دوست ہونے کے ناطے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی میٹنگ میں گیا۔

احسن گجر کے جواب کے مطابق نیک نیتی کے ساتھ پولیس سے معاملہ حل کرانے کی کوشش کی تاہم وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کے دوران انتظامی امور میں مداخلت نہیں کی۔

احسن جمیل گجر نے مؤقف اپنایا کہ میں اپنے اقدام پر پہلے بھی ندامت کا اظہار کرچکا ہوں لہٰذا میری استدعا ہے کہ میری حد تک مقدمہ ختم کردیا جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تھی۔

اس موقع پر پنجاب پولیس کے سینئر افسر خالق داد لک نے انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا تھا کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر ہی کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں احسن جمیل گجر کا رویہ تضحیک آمیز تھا جب کہ آئی جی کلیم امام کا کردار ربر اسٹیمپ کا تھا۔

ڈی پی او پاکپتن تبادلے سے متعلق اس وقت کے آئی جی پنجاب کلیم امام نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سینئر پولیس افسر خالق داد لک کو انکوائری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

[pullquote]ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل تبادلے کا پس منظر[/pullquote]

وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔

پولیس نے جمعرات 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا مگر وہ نہ رکے لیکن جب پولیس نے ان کی کار کو روکا تو انہوں نے نازیبا زبان استعمال کی۔

ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد حکومت پنجاب نے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) اور ڈی پی او رضوان گوندل کو جمعہ 24 اگست کو طلب کیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس موقع پر ڈی پی او رضوان گوندل کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنےکا حکم دیا گیا تاہم ڈی پی او رضوان نے یہ کہہ کر معافی مانگنے سے انکار کردیا کہ اس میں پولیس کا کوئی قصور نہیں۔

ذرائع کے مطابق ڈی پی او رضوان کا ٹرانسفر خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی نہ مانگنے پر کیا گیا۔

اس معاملے پر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے دونوں افسران کو معاملہ ختم کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم رپورٹ نہ دینے پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔

معاملہ خبروں کی زینت بننے لگا تو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس پر ازخود نوٹس لیا اور آئی جی پنجاب کو واقعے کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تاہم آئی جی کی رپورٹ میں کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے