آسیہ بی بی کیس: دو سال کے وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی دوبارہ سماعت

پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے مقدمے کی دو سال کے بعد پیر کو سماعت کی اور سپریم کورٹ نے فریقین کا موقف سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

عدالت نے اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ فیصلہ آنے تک اس کیس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تبصرہ یا تجزیہ نہیں ہو گا۔

وکیل استغاثہ چوہدری غلام مصطفیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم نے اپنا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا ہے.

اس سوال پر کے اگر فیصلہ اُنکے خلاف آیا، اُنکا کہنا تھا کہ وہ تمام قانونی آپشن استعمال کریں گے۔

آسیہ بی بی کے خلاف جون 2009 میں توہین رسالت کے الزام میں درج مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے اور اگلے برس سنہ 2010 میں انھیں اس مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

اکتوبر 2016 میں مجرمہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں آخری دفعہ سنی گئی تھی لیکن اُس تین رکنی بینچ کے ممبر جج اقبال حمید الرحمن نے کہا کہ کیونکہ وہ ماضی میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور آسیہ بی بی کا مقدمہ بھی اسی سے منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔

[pullquote]آسیہ بی بی پر کیا الزامات ہیں اور اب تک کیا قانونی کارروائی ہوئی ہے؟[/pullquote]

صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی پر جون 2009 میں توہین رسالت کی شق 295-C کے تحت الزام لگا تھا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف ’تین توہین آمیز‘ کلمات کہے تھے۔

استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پر خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کی تھی اور معافی طلب کی تھی۔

اگلے سال ٹرائل کورٹ نے آسیہ بی بی کو سزائے موت سنائی تھی جس کے خلاف انھوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی تھی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014 میں عدالت نے سزا کی توثیق کی تھی لیکن آسیہ بی بی نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں موت کی سزا کو چیلنج کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست پر ابتدائی سماعت جولائی 2015 میں کی تھی اور ان کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اپیل پر حتمی فیصلہ تک سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

اکتوبر 2016 میں بینچ ٹوٹنے کے بعد اپریل 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ جلد توہینِ رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والی آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف اپیل کو سماعت کے لیے جلد تاریخ مقرر کرے گی۔

[pullquote]آسیہ بی بی پر لگائے جانے والے الزامات کے ثبوت کیا ہیں؟[/pullquote]

سات گواہان کے بیانات کی روشنی میں آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے دو مرکزی گواہان وہ دو عورتیں ہیں جو آسیہ بی بی کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی تھی۔

ان دونوں خواتین نے آسیہ بی بی کی جانب سے ادا کیے گئے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں مقامی شخص قاری محمد سلام کو اطلاع دی جس نے پولیس میں رپورٹ کرائی۔

پولیس کے تین کانسٹیبل جنھوں نے اس کیس کی تفتیش کی اور ایک اور مقامی شخص جس نے دعویٰ کیا تھا آسیہ بی بی نے عوامی طور پر اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کی ہے۔

[pullquote]آسیہ بی بی کا دفاع کیا ہے؟[/pullquote]

اپنے بیان میں آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ ان کا اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کے ساتھ پینے کے پانی کے گلاس کے حوالے سے جھگڑا ہوا تھا جب ان دونوں نے مبینہ طور پر اس لیے پانی پینے سے انکار کیا کہ آسیہ بی بی مسیحی ہیں اور اس کے بعد سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا تھا۔

آسیہ بی بی نے الزام لگایا کہ دونو خواتین نے جھوٹی کہانی گھڑی ہے اور قاری سلام کو شامل کیا جس کی بیوی نے ان دونوں کو قرآن کی تعلیم دیتی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ پیغمبر اسلام کی بہت عزت کرتی ہیں اور انھوں نے کوئی بھی توہین آمیز کلمات نہیں ادا کیے۔

[pullquote]آسیہ بی بی مقدمے پر عالمی نظر[/pullquote]

واضح رہے کہ آسیہ بی بی پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی غیر مسلم خاتون ہیں۔ وکلا کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب سپریم کورٹ نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت کسی مقدمے کی سماعت کی ہو۔

آسیہ بی بی کے اس مقدمے پر پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کی نظریں مرکوز ہیں۔

پاکستان میں توہین مذہب کا قانون ایک حساس معاملہ ہے۔ ماضی میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتیوں کے وزیر شہباز بھٹی کو اس قانون میں ترمیم اور آسیہ بی بی کے حق میں آواز اٹھانے پر قتل کیا جاچکا ہے۔

سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کو سزائے موت کی سزا سنائے جانے کے بعد ان سے ملاقات بھی کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا تھا اور تجویز دی تھی کہ توہین رسالت کے قانون پر نظر ثانی کی جائے۔

آسیہ بی بی سے ملاقات کے کچھ عرصے بعد ہی سلمان تاثیر کو ان کے اپنے محافظ نے اسلام آباد میں فائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا اور اپنے اس اقدام کی وجہ سلمان تاثیر کے توہینِ رسالت کے قانون کے بارے میں بیان کو قرار دیا تھا۔

اس کے علاوہ سابق پوپ بینیڈیکٹ نے بھی عوامی طور پر آسیہ بی بی کی معافی کے لیے درخواست کی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے