تیرا علاج ڈسپرین

پاکستان ایک بار پھر اسی دور سے گزرر ہا ہے‘جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا۔ہمارے وزیراعظم نے علاج پھر سے وہی تجویز کیا‘ جو سابق حکمران آخری امیدوں کے جھرمٹ میں‘ تجویز کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سانحہ ہو یا معما؟ ہمارا مرض بھی وہی۔ حکما کا نسخہ بھی وہی۔دوائوں سے علاج بھی وہی۔ بار بار” حکیم صاحب‘ ‘ بھی وہی۔نسخے بھی وہی اورحکمرانوں کا عوام کو آئی ایم ایف سے فراہم کردہ”تحفہ‘‘ بھی وہی۔ مریض پر استعمال کردہ حکمت کے نسخہ جات بھی وہی۔”حکیموں کی ٹیم‘‘ کا طریقہ واردات بھی وہی۔ مریض کے متعدد ہمدردوںاور خیر خواہوں نے امید سے‘نسخے بار بار آزمائے ۔ نتیجے ہر حال میں‘ وہی پرانے والا ہی نکلے۔ عوام نے بھی کیا مزاج پایا ہے؟ دوا وہی کھانی ہے۔ حکیم وہی آزمانا ہے۔موت کے کٹھن مراحل سے بھی گزرنا ہے‘لیکن رکنا وہیںہے ‘ جہاں سے شروع کیا تھا۔

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ مریض جب ” حکیم صاحب ‘‘کی طرف رجوع کرتا ہے تو ”حکیم صاحب‘‘ تشخیص کے بعد‘ امراض بھی وہی بتاتے ہیں‘ جو ہر دور کا ”حکیم ‘‘ بتاتا چلا آرہا ہے۔ ہم پر مسلط ہونے والے” حکیموں”کا طریقہ علاج بھی وہی اور ہماری امیدیں بھی وہی۔ مریضوں کا حکیم صاحب کو علاج بتانا بھی وہی۔منہ میں دوا ڈالتے ہوئے مریض کے چہرے کی کیفیات بھی وہی۔باقی سب کچھ وہی۔ صحت یابی کے درجات بھی وہی۔ذرا غور سے دیکھئے ‘ کیا اب مریض کے چہرے پر رونق آرہی ہے؟ اس کے دانت اور چہرہ چمک رہا ہے؟ اکہتر سال گزر جانے کے بعد‘ تھوڑے تھوڑے وقفے سے‘ مریض کا چہرہ کبھی کبھار چمک اٹھتا ہے‘ لیکن جلد ہی امید کا مایوسی میں بدل جانا بھی وہی۔

حکیم صاحب کی ”سالانہ بیماری‘‘ کی آمد آمد ہے۔ پورے گھرانے کی باچھیں کھل اٹھی ہیں۔ حکیم صاحب کی خوشی بھی دیدنی ہے۔ اہل خانہ کے چہروں پر چمک دیکھ کر حکیم صاحب نے اپنی آنکھوں کو لال کیا۔ چہرے پر تازگی پھیلائی‘ لیکن آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنے کے بعد بھی ملک کی حالت وہی۔ مرض کی تحقیق کے بعدامیدوں کا باندھنا بھی وہی۔فواد چوہدری بھی وہی۔ اسد عمر بھی وہی ۔ خان صاحب بھی وہی ۔ آئی ایم ایف بھی وہی اور بد قسمتی سے نتیجہ بھی وہی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد‘ مریض کی حالت پھر بھی وہی۔دوا کے اثرات بھی وہی۔”موجودہ حکومت نے ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے‘ عالمی مالیاتی ادارے سے بیل آؤٹ پیکج لینے کے لئے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے فیصلے پر‘ تحریک انصاف کی حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ جبکہ وفاقی وزیر نشر و اشاعت ‘ جناب فواد چوہدری نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ” ہم آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں چاہتے تھے۔ یہ ہماری پالیسی نہیں تھی‘ لیکن ملکی ذخائر صرف ایک ماہ 16 دن کے رہ گئے ہیں۔ قرضہ 28 ہزار ارب پر چلا گیا ہے۔ ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا ہے۔ 8ارب ڈالر قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں اور 28 ارب ڈالر اس سال ملک کو چلانے کے لیے چاہئیں‘‘۔

فواد چوہدری نے اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کا مجموعی معاشی خسارہ 6.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور ہر ماہ دو بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ان عوامل نے ہمیں ریسکیو کی یکبارگی کوشش کے لیے مختلف ڈونرز کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا ہے‘‘۔عمران خان ماضی کی حکومتوں کو آئی ایم ایف پر انحصار کرنے کی پالیسی کے باعث‘ تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں‘ جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روزعالمی مالیاتی ادارے سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ وفاقی وزیر نے یہ واضح نہیں کیا کہ حکومت‘ آئی ایم ایف سے کتنی رقم لینے کا ارادہ رکھتی ہے؟ تاہم قیاس آرائیاں یہیں کی جارہی ہیں کہ بیل آؤٹ پیکج کی مالیت‘ سات تا دس بلین ڈالر کے درمیان ہو سکتی ہے۔وزارت خزانہ کے ایک اہلکار کے مطابق ‘چین اور سعودی عرب جیسے اتحادی ممالک کی جانب سے قرضہ دئیے جانے سے انکار کے بعد‘آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وزیر خزانہ اسد عمر بھی ماضی میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دان بھی‘ عمران خان کو ان کا ماضی میں دیا گیا ایک بیان کہ ‘ ‘آئی ایم ایف سے پیسے لے کر ملک چلانا‘ کینسر کا علاج ڈسپرین سے کرنے کے مترادف ہے‘‘ انہیں ری ٹوئٹ کر کے یاد دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔تحریک انصاف کے نوجوان کارکن ‘آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے کے فیصلے کا نہ صرف دفاع کر رہے ہیں ‘بلکہ موجودہ صورت حال کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو ٹھہرا رہے ہیں‘تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زیادہ تر پیغامات‘ حکومتی فیصلے پر تنقیدکوظاہر کرتے ہیں۔ صارفین نے وزیر خزانہ اسد عمر کی آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے خلاف ماضی میں کی گئی ٹوئیٹس کے سکرین شاٹس تک شیئر کئے ہیں۔ایک صارف نے لکھا کہ ” آئی ایم ایف کے پاس جانا اچنبھے کی بات نہیں‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف نے الیکشن سے پہلے بہت سے ایسے وعدے کیے تھے جن کا پورا ہوناممکن نہیںتھا‘‘۔

آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے فیصلے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ حال ہی میں حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کے ساتھ ساتھ‘ بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ کیا ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پہلے سے آئی ایم ایف کے ساتھ کسی ممکنہ بیل آؤٹ پیکج پر بات چیت کر رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی‘ نفیسہ شا ہ کا کہنا ہے کہ اقتصادی ماہرین مسلسل سے یہ کہہ رہے تھے کہ اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لئے‘ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘ لیکن حکومت کی طرف سے اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں تاخیر کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال کا ملکی معیشت پر منفی اثر پڑا ہے۔

دوسری طرف اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں دس روپے سے زائد کی کمی ہو چکی ہے اور امریکی ڈالر اب تک کی بلند ترین سطح کو چھوتے ہوئے 137 روپے کا ہو گیا۔سٹاک مارکیٹ میں شدید مندے کا رجحان ہے۔ایک ہی روز کے دوران 800 پوائنٹس کمی ہوئی۔ سوشل میڈیا صارفین اس صورت حال کا ذمہ دار حکومت کی جانب سے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بروقت فیصلے نہ کرنے کو قرار دے رہے ہیں۔

چیمبر آف کامرس کراچی کے صدر ‘جنید اسماعیل ماکڈا نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ عارضی طور پر تو یہ درست اقدام ہے‘ کیونکہ ان حالات سے نکلنے کا آخری چارہ کار یہی تھا‘ لیکن اگر حکومت نے ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی تو چند برس کے بعد‘ اسے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ” آئی ایم ایف کے پاس جانے سے متعلق ‘عمران انتظامیہ کے فیصلے کے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ قرضوں پر کڑی نکتہ چینی کرنے والے اور قرضوں سے پاک ملک بنانے کے انتخابی نعروں پر ووٹ لینے والے‘ اب اپنے ووٹرز کا کس طرح سامنا کریں گے؟‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے