سی پیک واقعی ماسٹر پلان؟

چینی عوام اپنے ترقیاتی عمل میں جو مختلف طریقے اپناتے ہیں ‘ وہ اپنے ہی عمل سے سیکھتے ہوئے ‘ ایجاد بھی کرتے ہیں اور ان پرعمل درآمد بھی۔ یہی امر ان کی ترقی کے پیچھے کارفرما ہے۔یوئن یون انگ ‘کا پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے پر مغز تجزیہ پیش خدمت ہے۔

”مغرب میں تزویر کاروں کو یہ خوف لاحق ہے کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ایک وسیع‘ بہترین طریقے سے وضع کیا گیا اور اس سے بھی زیادہ اچھے طریقے سے چلایا گیا منصوبہ ہے‘ جس کا مقصد زیادہ تر ترقی پذیر دنیا میں چین کی بالا دستی قائم کرناہے؛ حالانکہ انہیں کسی اور چیز سے خوف زدہ ہونا چاہئے۔ بیرونی دنیا والے جو چیز نہیں سمجھ سکے کہ بیلٹ اینڈ روڈ ایشی ایٹو ایک منصوبہ نہیں بلکہ ایک وژن ہے۔ پانچ سال پہلے جب چینی صدر ‘شی چن پنگ یہ منصوبہ بنایا تھا‘ تو انہوں نے ایک پُرعزم بین البراعظمی کوشش کی تجویز پیش کی تھی‘ جس کا مقصد ‘ دنیا کے اسی ممالک کی معیشتوں کو آپس میں منسلک کرنا تھا۔ یہی ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی پر مشتمل علاقے بنتے ہیں ۔ معیشتوں کا یہ انسلاک بہتر تجارتی اور ٹرانسپورٹیشن رابطوں کے ذریعے کیا جانا تھا۔ صدر شی کے اس وژن کو کس طرح متشکل کرنا ہے؟ یہ کام دوسری پارٹی پر چھوڑ دیا گیا‘ چاہے وہ پارٹی چین کے اندر ہے یا چینی حکومت سے باہر۔

یہ طریقہ کار چین میں عام ہے‘ جہاں مرکزی حکومت اکثر وسیع تر احکامات جاری کرتی ہے اور توقع رکھتی ہے کہ نچلے رینک والے ماہرین یہ دیکھیں کہ ان احکامات کو کس طرح پورا کرنا ہے؟ اس کمیونسٹ سٹائل کے پس منظر میں جذبہ کارفرما ہے کہ ہر کوئی کم ترین کوآرڈی نیشن کے ساتھ والہانہ مدد فراہم کر سکے۔ ایک ہدف کے حصول کیلئے ہمہ گیر وسائل اور انسانی سرمائے کو متحرک کیا جاتا ہے۔ ملک بھر کے بینک‘ کاروبار اور حکام اپنی اپنی ذمہ داریاں تقسیم کرنے کی بجائے‘ اکٹھے مل کر کام کرتے ہیں۔ مقامی حکومتیں اعلیٰ حکام کے احکامات کو بجا لانے کیلئے دوڑ پڑتی ہیں۔ ایک مہم کی طرح کیا گیا کام شاندار حاصلات اور نتائج کا باعث بنتا ہے۔

ایک مقامی افسر نے اس ایشو پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ”ہمارے سیاسی نظام کا ایک طرہ امتیاز یہ ہے کہ ہم کاموں کو تیزی سے نمٹاتے ہیں‘ خاص طور پر اگر منصوبے بڑے ہوں‘ تو ان میں اور بھی تیزی دکھاتے ہیں‘‘۔مثال کے طور پر اصلاح کے ابتدائی عشروں میں‘ چین میں ساحل سمندر والے علاقوں کی حکومتوں نے پوری سول سروس کو متحرک کیا کہ وہ ذاتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کار تلاش کریں ۔ اس کا نتیجہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی ایک بڑی لہر کی صورت میں سامنے آیا۔

ایسے مواقع پر کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایسی کوششوں کا نتیجہ معیار میں کمی‘ بے میل پروجیکٹس کے دُہرائے جانے اور بد عنوانی اور سود کے تنازعات کی صورت میں نکلا ہو۔ دوسرے ممالک والے بھلے چینی لیڈروں کو طویل مدتی وژن کے حامل سمجھتے ہوں اور شاندار حکمت کار کے طور پر ان سے مرعوب ہوں‘لیکن در حقیقت پالیسی پر عمل درآمد میں کچھ سقم رہ جاتے ہیں‘ جیسے کچھ معاملات کا بکھرا ہوا ہونا اور کچھ کی پیوند کاری۔ سی پیک منصوبے کو ایسی ہی مہم کی توثیق کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کو شروع ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں‘ لیکن تاحال اس کے لئے کوئی وزارت قائم نہیں کی گئی‘ جسے یہ ہدف دیا گیا ہو کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی منصوبہ بندی کرے یا پھر اس کی تکمیل کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں کو مانیٹر کرے۔

مرکز میں بیٹھا ایک چھوٹا سا ”سرکردہ گروپ‘‘ اس منصوبے کے وسیع تر خاکے پر نظر رکھے ہوئے ہے‘ لیکن اس کا ”ایکشن پلان 2015 -2017 ء‘ ‘جس میں محض ابتدائی کام کئے جانے تھے‘ اس میں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی‘جو امریکی حکومت کی جانب سے مارشل پلان پر خرچ کی گئی رقوم سے سات گنا زیادہ ہے ؛ اگر ان تفصیلات کو نمایاں طور پر شائع کیا جائے‘ تو یہ محض سات چند صفحات پر مشتمل ہو گی اور اس میں ہدایات بھی شامل ہوں گی‘ جیسے ”ذمہ داریاں اور پیش رفت‘ دونوں کو شیئر کیا جائے‘‘ اور یہ کہ ”منصوبہ بندی مل کر کریں‘ لیکن ‘پھر وہاں جا کر کام میں حصہ لیں‘ جہاں ضرورت ہو‘‘۔یہ ایک محدود سا خاکہ ہے کہ ایک ٹریلین ڈالرز کو کب تک؟ کن ترجیحات ؟ کے تحت خرچ کیا جانا ہے؟ اور کون ان کو خرچ کرنے کا اہل ہو گا؟

اعلیٰ حکام نے تاحال یہ واضح نہیں کیا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے اجزا کیا ہیں؟ اس میں حصہ لینے کا اہل کون ہو سکتا ہے؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر ایسا پروجیکٹ جس میں سرمایہ کاری کی جانی ہے‘ چاہے وہ سرکاری ہو یا پرائیویٹ ‘ منافع کمانے کے لئے ہو یا اس میں سرمایہ ضائع ہو سکتا ہو‘ ایمان دار سے بنایا گیا ہو یا اس کے پس منظر میں بے ایمانی کارفرما ہو‘ وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہی ہو گا۔

اب اس سے زیادہ کیا ہو کہ یہ مخصوص مہم ایک ایسی اعلیٰ سطحی قومی کاوش ہے‘ جس پر چینی صدر نے اپنی ذاتی میراث تک دائو پر لگا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہم نے نا صرف پارٹی اور ریاست کی بیوروکریسی کے تمام حصوںاور میڈیا کو متحرک کر دیا‘ بلکہ پورے چینی معاشرے‘ بشمول نجی کمپنیوں ‘ یونیورسٹیوں‘ تھنک ٹینکس اور مشاورت فراہم کرنے والے اداروں میں بھی ایک نیا ولولہ اور ہلچل پیدا کر دی ہے؛ اگر اس میں شامل چینی سرمائے اور چین کے بڑھتے ہوئے سفارتی اثر و رسوخ کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے میں غیر ملکی کمپنیاں‘ غیر ملکی میڈیا‘ بین الاقوامی ڈویلپمنٹ ایجنسیاں اور پوری دنیا اس بھی شامل ہو گئی ہے ۔

چین اپنے کسی بھی منصوبے کو اس وقت تک دوسرے ممالک میں وسعت نہیں دیتا ‘ جب تک وہ ان بیوروکریٹک چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائے‘ جو اسے اس منصوبے کی تکمیل کے دوران پیش آ سکتے ہیں‘ اسی طرح اس منصوبے کے زیادہ تر بین الاقوامی پارٹنر بھی چینی کمپنیوں اور بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے کے سلسلے میں نو آموز ہیں۔ اس کے نتیجے میں کچھ ابہام پیدا ہو رہے ہیں۔کچھ ڈیلیں متنازعہ ہو چکی ہیں۔ایسا نہیں کہ چین کی جانب سے سمندر پار کی جانے والی تمام تر سرمایہ کاری ریاست کی فراہم کردہ ہے۔ پرائیویٹ سرمایہ کار ‘ حتیٰ کہ اخلاقیات پر یقین رکھنے والے گروہ‘ جو چین سے نہیں ہیں‘ بھی اس منصوبے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ خود کو چین ہی کا ظاہر کررہے ہیں؛ چنانچہ ان میں سے کسی سے کوئی غلطی ہوتی ہے ‘تو اس کا الزام چین ہی کے سر جائے گا۔

سی پیک کے مغربی نقادوں نے تصور کر لیا ہے کہ اس میں ہونے والی ناکامیاں بین الاقوامی ہیں اور ”قرضوں میں جکڑنے کی ڈپلومیسی ‘‘کی حکمت عملی کا حصہ ہے‘ تاکہ دوسرے ممالک کو یقینی طور پر قرضوں میں جکڑا جا سکے اور انہیں ان کے سٹریٹیجک اثاثوں سے محروم کیا جا سکے۔براہما چیلانی نے اسی بات کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”یہ بات چین کے حق میں جاتی ہے کہ پروجیکٹ ٹھیک طریقے سے کام نہ کرے۔ ‘‘

پھر بھی حقیقی خطرہ ذرا مختلف نوعیت کا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ گلوبل سرمایہ کاری کی مصنوعی طریقے سے چلائی گئی‘ ایک مہم بنتا جا رہا ہے‘ جس میں اتنے زیادہ لوگ اخراجات کرکے کچھ تعمیر کرنے کو تیار ہیں ‘ لیکن اطمینان بخش احتیاط کے بغیر یہ انیشی ایٹو کچھ ترقی پذیر ممالک کیلئے ترقی کرنے کا ایک موقع ہو سکتا ہے‘ لیکن اس کیلئے قرضوں اور بُری پبلسٹی کی بجائے ”یکساں خوشحالی‘‘ کے معاملات کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ اس کیلئے چین کو زیادہ سے زیادہ انتخابیت‘ کوآرڈی نیشن اور شفافیت کو یقینی بنانا ہو گا۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے۔ اسے ماسٹر پلان بنایا جا نا چاہئے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے