’’سابق ڈاکو‘‘

ہمارے اکثر سیاستدان دوست جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو بہت سچ بولتے ہیں۔ ان کی حق گوئی ہمیں بہت اچھی لگتی ہے اور ہم انہیں بہت اچھے لگتے ہیں۔ جب یہی سیاستدان دوست انتہائی فیئر اور انتہائی فری الیکشن کے ذریعہ حکومت میں آجائیں توپھر دوست دوست نہیں رہتا اور پیار پیار نہیں رہتا۔ دونوں میں سے کسی کوایک دوسرے کا اعتبار نہیں رہتا۔ پرانے رشتے بوجھ بن جاتے ہیں اوراس بوجھ کو اتار پھینکنے میں زیادہ تر پہل ہماری طرف سے ہوتی ہے۔ پھر کچھ عرصہ گزرتا ہے۔ حکمران ایک دفعہ پھر اپوزیشن میں آبیٹھتے ہیں۔

اپوزیشن میں آتے ہی وہ سچ بولنے لگتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر وہ ہمیں اچھے لگنا شروع ہو جاتے ہیں ہم انہیں اچھے لگنے لگتے ہیں۔ پرانے رشتے بحال ہو جاتے ہیں۔ سیاستدان دوستوں کے ساتھ یہ سلسلہ پچھلی تین دہائیوں سے جاری تھا لیکن اب ایک مشکل آن پڑی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کون حکومت میں ہے اور کون اپوزیشن میں ہے۔ وزیراعظم صاحب اور ان کے وزراء اپوزیشن کے لہجے میں بولتے ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈر پس دیوار زنداں ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت آج بھی ہم سے اسی ’’ڈھیل‘‘ کا تقاضا کررہی ہے جو ’’ڈھیل‘‘ انہیں اپوزیشن کے زمانے میں ملتی تھی۔ جب ہم بڑے مودبانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں کہ جناب عالی آپ حکومت میں آچکے ہیں آپ کی غلطیوں کی نشاندہی ہمارا فرض ہے ہم نے پچھلی حکومت سے کوئی ’’ڈیل‘‘ کی نہ آپ کی حکومت سے کوئی ’’ڈیل‘‘ کریں گے، آپ کے ہر اچھے کام کی تعریف اور ہر برے کام کی مذمت ہوگی۔ دو دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے کلین اور گرین پاکستان کیلئے مہم کا آغاز کیا تو میں نے اس کی بھرپور تحسین کی اور وزیراعظم صاحب کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے عوامی مقامات اور سیاحتی علاقوں میں ٹائیلٹ نہ ہونے کا ذکر کیا اور بتایا کہ حکومت ہر پٹرول پمپ پر صاف ستھرے ٹائیلٹ بنانے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

وزیراعظم کی اس بات کا اپوزیشن کے کچھ دوستوں نے مذاق اڑایا کیونکہ ان کیلئے عام آدمی کیلئے ٹائیلٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان دوستوں نے اپنے ادوار میں شہروں سے کچرا اٹھانے کے ٹھیکے بھی غیر ملکی کمپنیوں کو دیدیئے تھے لیکن جب یہی دوست حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر تنقید کرتے ہیں تو ہم اس تنقید کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں جب بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لیتی تھیں تو کہا جاتا تھا کہ معیشت نازک دور سے گزر رہی ہے ہم مجبوری میں قرضہ لے رہے ہیں۔ اگر ماضی کی حکومتیں آئی ایم ایف سے قرضہ لے سکتی ہیں تو تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ کیوں نہ لے؟

یاد کیجئے! ماضی کی حکومتیں جب بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لیتی تھیں تو عمران خان کہتے تھے کہ جب میں حکومت میں آئوں گا تو قرضہ نہیں لوں گا۔ یہاں تک کہا کہ قرضے لیکر حکومت چلانے سے بہتر ہے خودکشی کرلوں۔ 2018ء کا الیکشن قریب آیا تو خان صاحب نے کہنا شروع کیا کہ دیکھیں گے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہے یا نہیں لینا۔ پھر وہ حکومت میں آگئے تو سعودی عرب سے کچھ معاملات طے پائے۔ مجھے ایک انتہائی ذمہ دار دوست نے بتایا کہ وزیراعظم صاحب سعودی عرب جائیں گے۔

سعودی عرب پاکستان کے اکائونٹ میں دس ارب ڈالر جمع کرائے گا اورپاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پھر وزیراعظم سعودی عرب گئے اور واپس آگئے۔ سعودی عرب کی طرف سے وہ اعلان نہیں کیا گیا جس کی توقع کی جارہی تھی البتہ سعودی عرب نے پاکستان میں نئی سرمایہ کاری کا اشارہ دیدیا۔ سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطحی وفد جلد پاکستان آنے والا ہے اور اگر معاملات طے پا گئے تو ہوسکتا ہے پاکستان آئی ایم ایف کے قرضے سے بچ جائے لیکن اگر عمران خان ہمیں اس قرضے سے نہ بچا سکے تو پھر ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ملک میں مہنگائی کا خوفناک طوفان آئے گا۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی لاگت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

معاشی مسائل میں اضافے کے بعد پاکستان کے دشمنوں کو بھی بالواسطہ اور بلاواسطہ دبائو بڑھانے کا موقع ملے گا اور اس صورتحال میں قومی یکجہتی کی ضرورت پڑے گی۔یہ قومی یکجہتی اسی صورت میں آسکتی ہے جب وزیراعظم صاحب اپوزیشن کے لہجے میں بولنا چھوڑیں گے۔ وہ کہتے ہیں ہم ڈاکو کو ڈاکو نہ کہیں تو پھر کیا کہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر ماضی کے حکمران واقعی ڈاکو تھے تو ان کے ساتھی کیا تھے؟ اگر ان کے ساتھی آپ سے آملیں تو ہم انہیں کیا کہیں؟ کیا ان کیلئے ’’سابق ڈاکو‘‘ کا لفظ مناسب رہے گا؟ گزارش یہ ہے کہ عمران خان اپنی کابینہ پر نگاہ دوڑائیں۔ یہ ویسی ہی کابینہ ہے جیسی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی کابینہ ہوا کرتی تھی۔ اس کابینہ کا وزیراعظم ماضی کی حکومتوں پر کوئی اخلاقی برتری نہیں رکھتا۔

کل تحریک انصاف کے ایک وزیر نے مجھ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر دوسرے دن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہماری حکومت صرف پانچ ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے یہ پانچ ووٹ بی این پی مینگل کے ہیں اور اگر لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بی این پی مینگل حکومت سے نکل جائے گی۔ وزیر صاحب نے کہا کہ 14اکتوبر کو ہم اختر مینگل کے دبائو سے بھی نکل جائیں گے۔ قومی اسمبلی کی گیارہ نشستوں پر ضمنی الیکشن ہورہا ہے اور ہم آسانی سے آٹھ یا نو نشستیں جیت جائیں گے پھر آپ ہمیں اپنے لاپتا افراد یاد نہ کرائیے گا۔ میں نے بڑے احترام سے وزیر صاحب کو کہا کہ لاپتا افراد کیلئے میں نے نہیں عمران خان نے سب سے پہلے آواز اٹھائی تھی میں تو آپ کو صرف آپ کے پرانے وعدے یاد دلاتا ہوں۔ وزیر صاحب نے کہا ہمیں صرف چھ مہینے دیدیں۔

ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔ میں نے کہا آپ چھ مہینے لے لیں لیکن یہ تو بتائیں کہ 14اکتوبر کو ضمنی الیکشن میں آپ نے جن صاحبان کو ٹکٹ دیئے ہیں کیا وہ نئے پاکستان کے نمائندے ہیں؟ کیا آپ نے این اے 131لاہور سے ولید اقبال کی جگہ ہمایوں اختر خان کو ٹکٹ دیکر اپنے حامیوں کو مایوس نہیں کیا؟ کیا آپ نے این اے 35بنوں سے مولانا فضل الرحمان کے سابق ساتھی مولانا نسیم حسن شاہ کو ٹکٹ دیکر علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر دی ہے؟ وزیر صاحب نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا ہم نے این اے 53اسلام آباد سے اپنے پرانے ورکر علی نواز اعوان کو ٹکٹ دیا ہے۔

یہ بات درست تھی۔ میں نے مان لیا کہ اسلام آباد میں ٹکٹ صحیح آدمی کو ملا لیکن جب یہ پوچھا کہ رحیم یار خان میں خسرو بختیار کی خالی نشست پر ان کا بھتیجا امیدوار بن گیا، راولپنڈی میں شیخ رشید کا بھتیجا آپ کا امیدوار بن گیا، مظفر گڑھ میں ایک ایم این اے کی والدہ آپ کی امیدوار بن گئیں، ڈیرہ غازی خان میں آپ کے ایم این اے نے صوبائی اسمبلی کی جو نشست چھوڑی وہاں سے ان کے والد امیدوار بن گئے، پرویز خٹک نے بھی نوشہرہ میں جو صوبائی نشست چھوڑی وہ اپنے بیٹے کو دیدی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنی خالی کردہ صوبائی نشست اپنے بھائی کو دیدی، علی امین گنڈاپور کی خالی کردہ صوبائی نشست ان کے بھائی کو مل گئی اور اگر آپ یہ سب نشستیں جیت جائیں تو کیا یہ موروثی سیاست کی فتح نہیں ہوگی؟ وزیر صاحب پہلے مسکرائے، پھر تلملائے۔

کچھ کہتے کہتے رک گئے پھر بولے میں آپکو چھ مہینے کے بعد ملوں گا۔ میں نے اپنے اس پرانے دوست کو گلے لگایا اور کہا کہ میری باتوں پر ناراض نہ ہوں صرف یہ اعتراف کرلیں کہ آپ لوگ بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرح پاور پالیٹکس کررہے ہیں اور پاور پالیٹکس کرنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو ماضی کے حکمرانوں کا ہوا، لہٰذا اپنے بارے میں غلط فہمی سے نکل آیئے آپ سابق ڈاکوئوں کے ساتھی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے