مختصر 10 سال…بنام…طویل 7 ہفتے

ملکی تاریخ میں ایسا دوسری بار ہو رہا ہے۔ پہلی مرتبہ نہیں۔

اس سے پہلے شہید بھٹو کے خلاف ایک انجینئرڈ ہولی الائنس بنایا گیا تھا۔ پی این اے المعروف پاکستان نیشنل الائنس ‘ جس کے نو ستاروں میں سے جن کو پڑھنا لکھنا آتا تھا‘ اُنھوں نے اس الائنس پر بے لاگ کتابیں لکھ ڈالیں ۔

مرحوم پروفیسر غفور صاحب اور مولانا کوثر نیازی مرحوم کی کتابیں بلاک بسٹر ثابت ہوئیں ۔ ‘اور لائن کٹ گئی‘ جیسی سُپر ہٹ دستاویزات ۔ اُس وقت کی حکومت اور اپوزیشن کے لکھاری رہنمائوں نے اس ہولی الائنس کے پیٹ سے عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اُس کے مقامی گماشتوں کو ڈھونڈ دھونڈ کر بے نقاب کر ڈالا۔ ہماری تب کی سیاسی تاریخ کا یہ اولین موقع تھا جب بھٹو بمقابلہ باقی سارے کے سارے (Bhutto Versus All) والی سیاسی اصطلاح سامنے آئی۔ اس سے آگے کی تاریخ آج کا مو ضوعِ گفتگو نہیں ۔ پھر کبھی سہی ۔

اتوار کا دن وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ لاہور میں گزرا۔ تقریباً شب 9 بجے تک ۔ اس دوران وزیرِ اعظم نے کرپشن یونین کو للکار دیا ۔ ہولی الائنس سے کرپشن یونین تک ۔ ایک طرف وہ سارے کردار ہیں ‘ جن کا سیاسی ورثہ ہولی الائنس کے نتیجے میں بننے والی فوجی حکومت کی مہربانی اور نگرانی کے سوا اور کچھ نہیں۔ نہ سیاسی جدوجہد نہ مادرِ وطن کے لیے خدمت و قربانی ۔ بلکہ اکثر کے آبائواجداد یا تو آل انڈیا کانگریس کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے‘ یا بابائے قوم حضرتِ قائد اعظمؒ کے آرچ مخالف۔ بیان باز سے فتویٰ باز تک ۔

آج پاکستان کی سوسائٹی ایک دلچسپ مرحلے سے گزر رہی ہے ۔ اسے ہر اعتبار سے ‘اینٹی سٹیٹس کو‘ کا زمانہ کہا جائے گا‘ جس کی دو بنیادی علامتیں سب کے سامنے ہیں ۔ پہلی یہ کہ مرکز، پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں وہ کچھ نہیں کر رہیں‘ جیسے کہ خصوصاً پچھلے 10 سال سے ہوتا رہا تھا ۔ انگریزی زبان میں اسے روزمرہ کا طریقۂ واردات (Business as usual)کہا جا سکتا ہے ‘ جس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ مثال کے لیے دیکھ لیں قومی خزانے ، ملکی ترقی ، معیشت کی بربادی ۔ تباہ حال سروس سٹرکچر کے بارے میں جھوٹے دعوے۔

بے بنیاد بڑھکیں مارنے کا رواج سب کے سامنے ہے۔ قومی اداروں کو سیاسی غلام بنا کر استعمال کرنا ۔ دوسری جانب قبضہ مافیا ، لینڈ ما فیا ، چا ئنہ کٹنگ ۔ لبرٹی اور گجرانوالہ جیسی جگہوں پر سرکاری سرپرستی میں سرکاری زمین پر بنائے گئے نا جائز پٹرول پمپ گرائے جا رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ اوقاف کی جائیدادوں کو دادا کی وراثت سمجھ کر چمچوں اور کڑچھوں میں بانٹنے والوں کو پکڑ رہی ہے ۔ ایسے میں ‘سٹیٹس کو‘ کے سائے تلے کروڑوں ، اربوں اور کھربوں بنانے والے خوشی کے شادیانے نہیں بجا سکتے ۔ وہ کیا کریں گے ؟ 7 ہفتے کی طویل حکومت کے خلاف ففتھ جنریشن سائبر حملوں سے واضح ہو چکا ہے۔

اگلے دن پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ میں تھانہ حطار ہری پور کے دوہرے قتل کے ایک مقدمے میں مدعی فریق کی وکالت کی ۔ واپسی پر فقیر خان حمید کے ڈیرے پر تربیلا جا پہنچا۔ دوریش نے کہا: یہ سب پیسے کا شور ہوتا ہے ۔ جو حرام کی کمائی سے ، اربوں ، کھربوں بناتا ہے‘ وہ 30/35 کروڑ ایسے خرچ کرے گا‘ جیسے غریب آ دمی 30/35 روپے ‘ کیونکہ اُسے اربوں، کھربوں چھپانے بھی ہیں اور بچانے بھی ۔

درویش نے قومی حیات کے اس جدید موڑ پر رمز میں مگر بہت ہی با معنی جملے کہے ۔ ساتھ حسبِ سابق مٹی کی بڑی پرات میں شوربے والی چنے کی دال اور لکڑیوں کی آ گ پر پکی ہوئی تندور کی روٹیاں لنگر میں کھانے کو ملیں ۔ جس دن موڈ اچھا ہو‘ اُس روز عمرہ گائوں کی مرچ پودینے والی چٹنی بھی ساتھ مل جاتی ہے ۔ آج موسم اور موڈ دونوں اچھے تھے ۔ میں اور میرے ساتھ آٹھ دس وکلاء اور سٹاف۔ بطنی اور باطنی طور پر پُر باش ہو کر تربیلا سے نکلے ۔ راستے میں لاہور کے ایک شاندار رپورٹر کا فون آ یا ۔

وہ کہہ رہے تھے ۔ آج ایسا کیا ہو رہا ہے‘ جس پر ‘سٹیٹس کو‘ کے سارے مہرے پریشان ہیں ۔ اس کی مثال حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کا خاتمہ اور قومی خزانے سے تعمیر کردہ محلات کے دروازے عام آدمی کے لیے کھلنے جیسے اقدامات ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ ان محلات کو ترک کر دینے کا فیصلہ کتنے مباحث ، مخالفت اور مشکل سے ہو پایا ہے ۔ پنجاب میں 10 سال کے دوران درجن بھر رہائش گاہیں ‘ سی ایم ہائوس اور پی ایم ہائوس بنی رہیں۔

سرکاری خرچ پر قومی خزانے کے چوکیدار ، باورچی، چائے پانی ، کھانا پینا ‘ سکیورٹی‘ ان رہائش گاہوں کی سالانہ مرمت اور رنگ و روغن۔ صرف لاہور میں اصلی چیف منسٹر ہائوس کا معلوم خرچ 78 لاکھ روپے ماہانہ تھا۔ عثمان بزدار نے یہ خرچ پہلے مہینے میں ہی 8 لاکھ تک محدود کر ڈالا۔ 70 لاکھ کی عیاشی کرنے والے تڑپیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے۔
لاہور ٹرپ کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک ایسی بات کہہ دی جس پر رائے ونڈ سے سکھر تک مسلسل بھونچال برپا ہو رہے ہیں ۔

وزیرِ اعظم نے کہا: میں ایف آئی اے اور آئی بی کا بھی انچارج ہوں‘ میں نے جو کچھ دیکھا ہے سنا دوں تو …! یہ تفصیلات کچھ کچھ مجھے بھی معلوم ہیں ۔ پچھلے 10 سال میں طرزِ حکومت کا کمال‘ ملک کے دونوں بڑے شہروں کو کچرا کنڈی بنانے کا اعزاز رکھتا ہے ۔ پھر دنیا کی تاریخ میں پہلی بار یہ اعزاز بھی کہ کچرے اور گٹروں کی صفائی پر 45 ارب روپے کی کمائی منی لانڈرنگ کے کام آئی ۔ گند کی کمائی سے بنایا ہوا کالا دھن فالودے والے اکائونٹس میں ڈال کر جعلی ناموں پر گند خوروں کے پیٹ میں جا پہنچا ۔ اس وقت وطنِ عزیز غربت اور بد انتظامی کے اندھے کنویں میں کس نے گرایا ۔

وہ کون تھا جس نے 600 ارب ڈالر کے قرضے کو 30 سو ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچا دیا۔ جمعرات کے روز کابینہ میٹنگ سے تھوڑی دیر پہلے ہولناک انکشاف ہوئے۔ میٹنگ میں، میں بھی موجود تھا۔ بعد ازاں کابینہ کے اجلاس میں وزیرِ اعظمِ پاکستان نے ملک پر اتنا قرض لادنے والے چہروں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی وزارتِ خزانہ اور ملک کے دیگر مالیاتی اداروں کو کہا: بتائیں قرضہ چڑھانے کے مجرم کون ہیں اور یہ قرض کہاں خرچ ہوا یا کس جیب میں گیا۔

یہ قومی جرائم 10 سال کے عرصے پر محیط ہیں۔ کوئی دو چار دن کی بات نہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر بھاشن دینے والے چہرے منٹوں میں تبدیلی چاہتے ہیں‘ لیکن خود تبدیل ہونے کے لیے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے کمال کا تبصرہ کیا ۔ آپ سے بھی شیئر کرتا ہوں۔ ”یہ لوگ چندہ دینے پر بھی راضی نہیں۔ یہی سارے ٹیکس مانگے جانے پر بھی ناراض ہیں۔ یہ مہنگائی کا تھوڑا بوجھ برداشت کرنے پر بھی راضی نہیں۔ قوم کے یہ عظیم سپوت قرضہ لینے پر بھی راضی نہیں۔ حیران ہوں اتنی غیرت مند قوم پچھلے 30 سال کہاں گم تھی‘‘۔

جو گروہ پچھلے 30 سال سے معاشی جرائم میں ملوث رہا ہے۔ بڑی دلیری سے غریبوں کے اکائونٹس میں ڈال کر انہیں وائٹ کرتا رہا ہے۔ 10 سال میراتھن راج کا ڈنکا بجایا۔ اس کا کہنا ہے: 7 ہفتے میں عمران ناکام ہو گیا۔ بے چاروں کے مختصر 10 سال 7 ہفتے کے طویل عرصے میں ضائع ہونے کا خدشہ ہے‘ اور جمہوریت کو بھی خطرہ ہے!!
جو گروہ پچھلے 30 سال سے معاشی جرائم میں
ملوث رہا ہے۔ بڑی دلیری سے غریبوں کے
اکائونٹس میں ڈال کر انہیں وائٹ کرتا رہا ہے۔
10 سال میراتھن راج کا ڈنکا بجایا۔ اس کا کہنا ہے:
7 ہفتے میں عمران ناکام ہو گیا۔ بے چاروں کے

مختصر 10 سال 7 ہفتے کے طویل عرصے میں ضائع ہونے کا خدشہ ہے‘ اور جمہوریت کو بھی خطرہ ہے!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے