مسیحا یا اجتماعی دانش؟

قوم کو آج کسی مسیحا کی ضرورت ہے یا اجتماعی دانش کی؟

ملک کی معیشت طوفان کی زد میں ہے۔ ایک اجتماعی کوشش ہی اسے گرداب سے نکال سکتی ہے۔ کپتان کا اصرار ہے کہ وہ تنہا اس ناؤ کو پار لگا دے گا۔ ان کا خیال ہے کہ معیشت بھی کھیل کی طرح ہوتی ہے۔ ایک کھلاڑی کی انفرادی چال سے گول ہو سکتا ہے۔ ایک ہیٹ ٹرک میچ کا پانسہ پلٹ سکتی ہے۔ انہیں کون سمجھائے کہ امورِ مملکت کھیل نہیں ہوتے۔ پیغمبر بھی، خدا کی طرف سے نوشتہ نہ ہو تو اجتماعی دانش کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

میں معیشت کا ماہر نہیں۔ سیاسیات اور عمرانیات کا ایک طالب علم ہوں۔ معیشت ان سے جدا نہیں۔ برسوں پہلے ‘سیاسی معیشت‘ (Political Economy) کی اصطلاح سے اس تعلق کو واضح کیا گیا۔ سیاست اور معیشت کے باہمی رشتے کو جانے بغیر سیاسیات کو سمجھا جا سکتا ہے نہ معاشیات کو۔ معیشت کا بندوبست سماجی نظام پر اثر انداز ہوتا اور کلچر کو بدل دیتا ہے۔ سرمایہ داری آج محض ایک معاشی نظام نہیں، ایک طرزِ زندگی بھی ہے۔ اس لیے معاشی عمل کو سماجی و سیاسی حوالے سے سمجھنا پڑتا ہے۔

میرا احساس ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا تصورِ معیشت دو مفروضوں پر کھڑا ہے۔ ایک یہ کہ ملک کا بہت سا سرمایہ غیر قانونی طریقے سے باہر جا چکا۔ ہم یہ سرمایہ واپس لائیں گے۔ یوں ملک میں دولت کی ریل پیل ہو جائے گی اور تمام معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔ عمران خان صاحب نے قوم کو بتایا کہ صرف نواز شریف تین سو ارب ڈالر باہر لے گئے۔ وہ یہ پیسے واپس لائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد خوش حالی کا راستہ کون روک سکتا ہے۔ ان تین سو ارب ڈالرز کی کوئی تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔

یہ مفروضہ کیا امرِ واقعہ بن سکتا ہے؟ یہاں سے معیشت کی بحث سیاسیات کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ پہلی بات کہ وہ سرمایہ کہاں گیا؟ اگر آپ نے یہ معلوم کر لیا تو جس ملک میں گیا، کیا اس کے ساتھ آپ کا کوئی ایسا معاہدہ موجود ہے کہ آپ سرمایہ واپس لا سکیں؟ کیا اس کے لیے کچھ قانونی ضروریات بھی ہیں؟ کیا دنیا میں کوئی ایک ایسی مثال موجود ہے کہ اس طرح کا سرمایہ واپس لایا گیا ہو اور اس نے اُس ملک کی قسمت کو بدل ڈالا ہو؟ بتایا جا رہا ہے کہ اب ایسے معاہدے کیے جائیں گے، جیسے برطانیہ سے کیا جا رہا ہے۔ اب اس کا انجام کیا ہو گا، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ماہرینِ معیشت کا اصرار ہے کہ دنیا میں کوئی ایک مثال ایسی موجود نہیں کہ اس طرح کا سرمایہ واپس آیا ہو اور کسی قوم کا مقدر سنور گیا ہو۔

ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ دنیا اِس وقت سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت میں ہے۔ امریکہ سے چین تک اسی کی حکومت قائم ہے۔ سرمایے کا تحفظ اس کے خمیر میں ہے۔ جب کوئی فرد ایک ملک میں سرمایہ کاری کرتا ہے‘ تو اسے یہ یقین دھانی کرائی جاتی ہے کہ اس کے سرمایے کو تحفظ حاصل ہو گا۔ اس لیے یہ آسان نہیں کہ کوئی ملک گھر آئے مال کو بآسانی واپس کر دے۔ آف شور کمپنیوں کا تصور بھی دراصل اسی سرمایہ دارانہ نظام کا حربہ تھا۔ پاناما لیکس کے بعد، ممکن ہے کہ اب کوئی نیا حربہ تلاش کیا جائے لیکن سرمایے کو تحفظ دیا جائے گا۔ اس پس منظر میں بھی اس مفروضے کا حقیقت بننا آسان نہیں دکھائی دیتا۔

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ کرپشن معاشی ابتری کا اصل سبب ہے۔ ہم یہ کرپشن ختم کر دیں گے اور یوں خوش حالی آ جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کھلی منڈی کی معیشت کا لازمی حصہ ہے۔ چین، بھارت، ملائیشیا اور ترکی کو دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں کرپشن کا تناسب بہت ہے۔ کرپشن کا تعلق اخلاقات کے ساتھ ہے اور سرمایہ دارانہ معیشت کسی اخلاقیات کی پابند نہیں۔ اس میں اخلاقیات کی ضرورت وہاں محسوس ہوتی ہے جب کرپشن معاشی سرگرمی اور سرمائے کی آمد و رفت کو متاثرکرنے لگے۔

حکومت کا یہ تمام منصوبہ خام خیالی دکھائی دیتا ہے۔ چند روز پہلے میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں حکومتی ترجمان ڈاکٹر فرخ سلیم کو گفتگو کرتے سنا۔ پروگرام کا میزبان معاشی امور کا ماہر نہیں تھا۔اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب کے پاس اس کے سوالات کا کوئی واضح جواب نہیں تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ نئے مکانات کی تعمیر کا منصوبہ کسی حکومتی گارنٹی کے بغیر، کیسے معیشت کو بہتر بنائے گا۔ جواب میں کرپشن کا واویلا تھا‘ اور بس۔ آخر ان کو کہنا پڑا کہ وہ ایک بعد از کرپشن (Post Corruption) دورکی بات کر رہے ہیں۔ گویا نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔

واقعہ یہ ہے کہ حکومت شیخ چلی کا پلاؤ نہیں۔ اس کا تعلق زمینی حقائق کے ساتھ ہے۔ منصوبے بھی اُسی وقت کارآمد ہوتے ہیں جب زمین پر موجود کوئی حقیقت اس کی تائید میں کھڑی ہو۔ جیسے ایک مضبوط معیشت میں، اگر قرض کی بنیاد پر کوئی منصوبہ بنتا ہے تو وہ قابلِ عمل ہو سکتا ہے کہ ایسی معیشت کو آسانی سے قرض مل جاتا ہے۔ اس کے بر خلاف کمزور معیشت کے ہوتے ہوئے، اگر قرض کی بنیاد پر کوئی منصوبہ بنتا ہے تو وہ زیادہ قابلِ عمل نہیں ہوتا کہ قرض کا ملنا مشکل ہوتا ہے۔

عمران خان صاحب اگر ایک مسیحا کی نفسیات سے نکلیں اور امورِ مملکت کو کھیل پر قیاس نہ کریں تو پھر ممکن ہے کہ اجتماعی دانش سے رجوع کریں۔ اس کے ساتھ انہیں انتقام کی نفسیات سے بھی نکلنا ہو گا کہ خود شکستگی کے لیے اس سے زیادہ مؤثر ہتھیار ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔ اگر وہ قومی راہنما کے طور پر سوچیں اور اب تحریکِ انصاف کے بجائے پاکستان کو اپنی جماعت سمجھیں تو ان کی نفسیاتی ساخت تبدیل ہو سکتی ہے۔ پھر شاید وہ کرپٹ اور نیک لوگوں میں جماعتی وابستگی کے بجائے اخلاقی بنیاد پر تفریق کر سکیں۔

اس کے لیے انہیں تین کام کرنا ہوں گے: ایک تو وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اور قوم کے سامنے ایک میثاقِ معیشت کا تصور پیش کریں۔ اس میں وہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی شریکِ مشاورت کریں۔ جس طرح پچھلے دور میں انتخابی اصلاحات کے لیے ایک پارلیمانی گروپ بنا تھا، اسی طرح معاشی بہتری کے لیے بھی ایک گروپ بنائیں۔ اعتماد کی بحالی کے لیے دوسرا کام یہ کریں کہ احتساب کے اس عمل کو روک دیں جو اب سیاسی انتقام کے رخ پر چل نکلا ہے۔ ایک بہتر اور متبادل نظامِ احتساب کا تصور دیں اور اسے معاشی میثاق کا حصہ بنائیں۔ تیسرا یہ کہ سیاسی عمل کو جمہوری اور قابلِ بھروسہ بنانے کے لیے اصلاحات تجویز کریں جس کا آغاز سیاسی جماعتوں کی تطہیر سے ہو۔

میثاقِ معیشت کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا جا سکتا ہے۔ چھ ماہ زیادہ نہیں اگر اس کے نتیجے میں ہمیں ایک مستحکم معیشت اور اس کے ساتھ سیاسی استحکام بھی مل جائے۔ اگر وہ اس طرح مثبت بنیادوں پر نئے پاکستان کے سفر پر نکلیں گے تو انہیں پورے معاشرے کی تائید میسر آئے گی۔ اس صورت میں اگر پارلیمانی جماعتیں تعاون نہیں کریں گی تو پھر عوام ان سے اظہارِ برات کر دیں گے کہ لوگ سیاسی و معاشی استحکام چاہتے ہیں۔ اسی طرح ضروری ہے کہ وہ میڈیا کی آزادی کو یقینی بنائیں تاکہ مثبت تنقید کی فضا پیدا ہو۔

پاکستان کو آج ایسا لیڈر چاہیے جو گروہی اور جماعتی مفادات سے بلند تر ہو کراجتماعی دانش کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ عمران خان صاحب ابھی تک اس کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ وہ اگر ذات کی اسیری سے نکل کر خود پسندی کا پل عبور کر جائیں تو نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ ورنہ مفروضوں اور انتقام کی بنیاد پر کوئی معیشت سنور سکی ہے نہ قوم۔

میں 2018ء کے انتخابی نتائج کو مشکوک سمجھتا ہوں اس لیے موجودہ حکومت کی اخلاقی حیثیت بھی میری نظر میں مشتبہ ہے؛ تاہم اِس وقت یہ ایک بالفعل حکومت ہے۔ اس لیے اُسے خیر خواہی کے ساتھ مشورہ دینا چاہیے۔ نیا پاکستان نئی سوچ سے بنے گا۔ مفروضے اس راہ میں کام نہیں آئیں گے۔ قوم کو آج کسی مسیحا کی نہیں، اجتماعی دانش کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے