زندہ ہوں اس طرح کہ غم زندگی بھی ہے

فرانس کے خونی انقلاب کے بعد کہ جس میں قتل و غارت گری کی ایک اندھی لہر بھی اٹھی تھی کسی نے ایک معروف مذہبی شخصیت سے پوچھا کہ جناب اس انقلاب میں آپ نے کیا کیا ؟ جواب تھا۔ ’’میں زندہ رہا‘‘۔ گویا ، مشکل دنوں میں اپنے آپ کو بچائے رکھنا بھی ایک کارنامہ ہے۔ انقلاب فرانس کا حوالہ شاید آپ کو غیرضروری لگے لیکن موجودہ حالات میں اگر آپ کسی سے یہ سوال کریں کہ حضرت ، آپ کیسے ہیں اور زندگی کیسی گزر رہی ہے تو ممکن ہےکہ کوئی معنی خیز جملہ سننے کو مل جائے۔ تقریباًہرگفتگو گھوم پھر کر حالات حاضرہ کے جال میں الجھ جاتی ہے اور ایک دو جملوں میں آپ یہ جان لیتے ہیں کہ دوسرا نئے پاکستان کے خمار میں ڈوبا ہوا ہے یا نئی حکومت کی کارکردگی اسے پاگل کئے دے رہی ہے۔

مطلب یہ کہ موجودہ حالات پریشان کن بھی ہیں اور ہیجان انگیز بھی۔ اور ہم میں سے ہر ایک کے لئے یہ مسئلہ ہے کہ اپنے خیالات اور احساسات کو کس طرح قابو میں رکھا جائے۔ یہ ہفتہ تو خاص طور پر آتشیں تھا۔ ایک ایک دن میں خبروں کے کئی کئی تھپیڑے سہنا پڑے۔ اور اب ضمنی انتخابات سر پر ہیں۔ ایک پوری کہانی ڈالر کے ہاتھوں پاکستانی روپے کی بے حرمتی کی ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری اپنی جگہ خود ایک سیاسی طوفان کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کے سنوار ے ہوئے لاہور پر نہ جانے کیا گزری ہوگی۔ پھر پنجاب پولیس کے سربراہ کے تبادلے کا تنازع بھی نئے پاکستان کی ساخت اور اس کے کردار کی ایک تصویر پیش کررہا ہے۔ چیف جسٹس نے تو یہ کہہ دیا کہ 50لاکھ مکان بنانا خالہ جی کا گھر نہیں لیکن 50لاکھ گھر بنانے کے منصوبے نے ماہرین کو گڑ بڑا دیا ہے۔

بے درودیوار سا اک گھر تو شاعر کو بنانا آتا ہے۔ دیوار اور چھت والے گھر کیسے بنتے ہیں اور ہماری کچی معیشت میںکتنے گھر بنانے کی سکت ہے اس پر کافی گفتگو ہوئی ہے۔ اور ہاں، آئی۔ ایم ۔ایف سے قرض لینے کا فیصلہ بھی کچھ ایسا ہے کہ جیسے کسی دلہن کو بہلا پھسلا کر ’’ہاں‘‘ کہنے پر راضی کرلیا گیا ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ ایسی شادیوں کو رو ، دھو کر چلانے کی ہمیں عادت ہے۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ بہو کے گہنے بھی بک جاتے ہیں۔ یہ سب ہے اور میں نے کتنے ہی موضوعات نظرانداز کردیئے ہیں۔ فواد چوہدری کے بیان کی باری بھی نہیں آئی۔ اور چلتے چلتے یہ بھی دیکھ لیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے عہدے سے برطرف کردیئے گئے ہیں۔ یاد ہے، کوئی بیان دیا تھا انہوں نے۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک کالم نگار کو تنگی داماں کی شکایت ہوسکتی ہے۔ اور اگر کالم ہفتہ وار ہو تو کسی ایک منظر پر ٹھہر نے کی مہلت نہیں ملتی۔ میری مشکل یہ ہے کہ اگرچہ مجھے اقتدار اور سیاست کی اہمیت کا پورا احساس ہے پھر بھی میں میڈیا کی سرخیوں سے آگے بڑھ کر ، اجتماعی زندگی کے اسرار و رموز سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ ایک بات بار بار کہنے کو جی چاہتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ تیز ہوا کے شور میں اتنی آہستگی سے اٹھائی جانے والی آواز شاید کوئی نہ سنے۔ جس شور کا میں نے ذکر کیا وہ آپ کے کانوں میں بھی گونج رہا ہے اور آپ کے دل میں دھڑک رہا ہے بلکہ آپ کے ذہن میںاندھیرا بن کے بیٹھا ہوا ہے۔ اور یہ کیفیت اس لئے ہے کہ ہمارا معاشرہ ذہنی اور جذباتی سطح پر بہت پریشان ہے۔ نہ جانے کیسی کیسی وحشتیں اس میں پل رہی ہیں۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت کا رونا میں مسلسل روتا رہا ہوں۔

اس وقت میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ سیاسی اختلافات نے اس خلفشار میں غیرضروری اضافہ کردیا ہے۔ رشتہ داریاں اور دوستیاں متاثر ہورہی ہیں۔ پھر، مہنگائی اور پورے نظام کی گندگی اور روزی کمانے کی مشکلات نے عام لوگوں کی زندگی کو زیادہ دشوار بنادیا ہے۔ ان حالات میں اپنے آپ کو بچائے رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اپنے آپ کو بچائے رکھنے سے میری مراد یہ ہے کہ اپنی ذہنی صحت کو برقرار رکھنا۔ عاشقوں کے لئے یہ شاید ممکن ہو کہ وہ پاگل پن میں پناہ لے لیں۔ کمزور لوگ کسی سستے مگر مہلک نشے کا سہارا لے سکتے ہیں۔ وہ جو خود کو اور اس دنیا کو سمجھنے کی کچھ صلاحیت رکھتے ہیں، وہ کیا کریں؟

اب آپ کو شاید یہ اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کالم کا آغاز جس بات سے کیا تھا وہ کیوں کیا تھا۔ کیونکہ میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ اپنے ہر کالم کو گزرے ہوئے ہفتے کی کسی خبر یا واقعہ کی کھونٹی پر لٹکائوں تو اس ہفتے بھی میرا حوالہ ایک دن ہے کہ جو منایا گیا۔ ایسے عالمی دن ، آئے دن منائے جاتے ہیں اور اداریہ لکھنے والوں کے کام آتے ہیں لیکن ان کی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر جمعرات کو بیٹیوں کا عالمی دن منایا گیا اور میرا بہت جی چاہا کہ میں دنیا کو بدلنے کے عمل میں لڑکیوں اورعورتوں کے کردار پر ایک بار پھر گفتگو کروں۔ لیکن میرا موضوع تو ذہنی صحت کا عالمی دن ہے جو ایک دن پہلے یعنی بدھ کو منایا گیا۔ ہر سال ، اس دن کے لئے ایک الگ عنوان منتخب کیا جاتا ہے۔ اس سال اس کا عنوان تھا ۔ ’’بدلتی ہوئی دنیا میں نوجوان افراد اور ذہنی صحت‘‘۔

ظاہر ہےکہ ذہنی صحت پوری دنیا کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر آبادی میں دس فی صد افراد چھوٹی بڑی نوعیت کے کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ٹوٹتے ہوئے معاشروں میں اور بحران کے دنوں میں یہ ایک متعدی مرض بھی بن سکتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں ذہنی مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال کا انتظام کیا جاتاہے، جسے ہم ڈیپریشن کہتے ہیں وہ بھی کسی حد تک ایک ایسا مرض ہے کہ جس کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اپنے ملک کی کہانی سنانامشکل ہے۔ ا س سے میرے ڈیپریشن میں اضافہ ہوگا۔ آبادی کے تناسب سے ماہرین نفسیات کی تعداد اتنی کم ہے کہ آپ اسے قحط کہہ سکتے ہیں۔

یہ ہم بار بار کہتے ہیں کہ دیکھو، پاکستان ایک نوجوان ملک ہے یعنی ہم افرادی قوت سے مالا مال ہیں۔ اس کا تاریک پہلو دیکھنے کی ہم میں جرات نہیں کیونکہ ان نوجوانوں کی اکثریت اچھی تعلیم اور صحت اور مناسب ماحول سے محروم ہے۔ پھر جس معاشرے میں وہ جی رہے ہیں اس کے بارے میں چند اشارے میں کرچکا ہوں۔ اب دیکھئے کہ انگلستان میں عام لوگوں کے احساس تنہائی کو دور کرنے کے لئے ایک حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے۔ اس کا اعلان اگلے ہفتے ہونا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ سماجی رشتوں کو استوار کیا جائے۔ ا س سلسلے میں عمر ر سیدہ افراد کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن تنہائی ہر عمر کے افراد کو پریشان رکھتی ہے۔

ہماری نیندیں اڑانے کے لئے تو اور بہت کچھ بھی ہے۔ سو یہ واقعی ایک بڑا سوال ہے کہ آپ ان دنوں میں کیسے جی رہےہیں۔ زندہ رہنا اور اپنے آپ کو خطرات کی یورش سے بچائے رکھنا تو بہت ضروری ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے کیا حال ہے ہائوآر یو؟ یہ ایک رسمی معاملہ ہے۔ کوئی رک کر یہ بتانا شروع نہیں کرتا کہ کل رات کیوں میرے سر میں درد ہورہا تھا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اس سوال کے جواب میں کہتا ہوں۔ ’’زندہ ہوں‘‘ اور پھر ایک توقف کے بعد۔ ’’اس طرح کہ غم زندگی بھی ہے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے