پروفیسرز کی گرفتاری ایک مختلف نقطہء نظر

پنجاب یونیورسٹی سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر حضرات کو جب نیب تفتیش کے بعد گرفتار کرنے کے بعد جب ریمانڈ کے لئے عدالت میں ھتکھڑی لگا کر پیش کیا گیا تو اس پر سوشل میڈیا پر بہت طوفان مچا شعبہ تدریس سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کے ساتھ اس ناروا سلوک پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی سو موٹو لے لیا ۔

چونکہ میرا تعلق بھی درس و تدریس سے ھے اور میں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں ۔ میری رائے میں دھشتگردوں اور سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو ھتکھڑی لگا کر عدالت میں پیش کرنا تو سمجھ میں آتا ھے لیکن وہ ملزمان جن کے شعبے کا معاشرے میں اعلی رتبہ و مقام ھے ان کے ساتھ یہ ناروا سلوک مناسب نہیں ۔ اور اگر قانون سب کے لئے برابر ھے تو کئی سو افراد کے ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث راؤ انوار اور سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والے جنرل مشرف کو بھی اسی انداز میں عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا ۔

جن وائس چانسلر حضرات کو نیب نے گرفتار کیا ان پر مالی بے ضابطگی اقربا پروری خلاف قانون تقرریوں اور سرکاری فنڈز میں خرد برد کے سنگین الزامات ہیں ۔

یونیورسٹیاں چونکہ نیم سرکاری اور خودمختار ادارے ھوتیں ہیں لہذا یونیورسٹی کا وائس چانسلر ادارے کا بادشاہ ھوتا ھے رجسٹرار اور دیگر انتظامیہ عام طور پر وی سی کے آبروئے چشم پر ھر جائز ناجائز اقدامات کے لئے ھمہ وقت تیار رھتے ہیں ۔کیونکہ ان کی نوکری ٹرانسفر پوسٹنگ وی سی کے ھاتھ میں ہوتی ھے لہذا ان کی تمام تر توجہ وی سی حضرات کو خوش رکھنا ھوتی ھے ۔

یہ اشرافیہ وی سی بننے کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں ان کے شب و روز انتظامیہ کے افسران میں بسر ھوتے ہیں۔ جو انہیں یونی ورسٹی میں نئے تعمیراتی منصوبوں پر بریف کرتے ہیں ۔میرے مشاھدے میں یہ چیز آئی کہ وی سی حضرات جامعات کی علمی فضا تعلیمی معیار میں بہتری کے بجائے تعمیراتی کاموں ٹھیکوں اور نئے کمرشل منصوبوں میں زیادہ دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں ۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت جامعات میں شادی ھال ریستوران نرسریاں منرل واٹر میڈیکل لیبارٹریز اور سکول سسٹم تک کھول لئے جاتے ہیں ۔یہ عمل مسابقت اور شفافیت سے بھی محروم ھوتا ھے ۔یونی ورسٹی کا پیسہ ایک بنک سے نکال کر دوسرے بنک میں رکھا جاتا ھے ۔مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے مہنگے داموں زمین خریدی ھاوسنگ سکیم کے منصوبے شروع کئے اور کروڑوں روپے خرد برد کئے ۔سرگودھا یونی ورسٹی کے سابق وی سی نے نجی شعبے کے ساتھ مل کر درجنوں سب کیمپس کئی اضلاع میں کھولے بہت سوں کی منظوری قوائد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ھوئے چند گھنٹوں میں دی گئی ۔

اپنے خاندان کے لوگوں کو یونیورسٹی میں ملازمت دے کر اقربا پروری کی مثالیں قائم کی جاتیں ھے میرٹ کو نظر انداز کرکے خوشامدی اور نا اھل لوگوں کو مختلف شعبوں کا سر براہ مقرر کیا جاتا ھے ۔ان اقدامات کی صفائی میں یہ دلیل دی جاتی ھے کہ یونیورسٹی اپنے ذرائع آمدن بڑھا کر خسارے کم کرتی ھے ۔لیکن کیا یونیورسٹیوں کا کام کاروبار کرنا ھے اور ان کاروباری سرگرمیوں کے باوجود ہر سال طلبہ کی فیسوں میں اضافہ کیوں ھوتا ھے ؟۔قائد اعظم یونیورسٹی اور اسلامی یونیورسٹی میں ان زیادتیوں پر احتجاج کرنے والے پروفیسروں کو شوکاز نوٹس دئیے گئے نوکری سے برطرف کیا گیا۔

نہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر نے اپنے بیرون ملک مقیم بیٹے کو خلاف قانون ڈگری جاری کی جس پر احتجاج کرنے والے پروفیسر شہزاد اشرف اور پروفیسر نقوی کو برطرف کردیا گیا ۔میں جس یونی ورسٹی سے منسلک ھوں اس کے سابق ریکٹر نے یونیورسٹی فنڈز کا غیر قانونی استعمال کرتے ھوئے اپنی بیٹی اور داماد کو کروڑوں روپے کے
خرچ پر بیرون ملک پڑھنے کو بھیج دیا گیا جب میں نے اس بے ضابطگی پر آواز اٹھائی تو مجھے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔

کیا کسی شخص کا تدریس کے شعبے سے منسلک ہونا اس کی بے گناہی کی دلیل ھے ۔ جتنا بڑا منصب ہو اتنا بڑا کردار اور اعمال بھی درکار ھوتے ہیں ۔

یہاں میں یہ وضاحت کردوں کے ساری جامعات کے وی سی حضرات ایک جیسے نہیں ہوتے ۔اور گرفتار شدہ وی سی حضرات کو اپنی صفائی کا پورا حق حاصل ھے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے