جنہیں ہتھکڑیاں لگنا چاہیے تھیں!

دو وائس چانسلرز اور ریٹائرڈ رجسٹر ار کی ہتھکڑی لگی تصویروں نے ہر طرف شور مچا دیا ہے۔ اس شدید ردعمل کے پیچھے وجۂ گرفتاری سے زیادہ وہ انداز ہے جس میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ جب ٹی وی چینلز پر فوٹیج چلنے شروع ہوئے کہ بزرگ استادوں کو بھی ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں تو سب کو دھچکا لگا ۔

مان لیتے ہیں‘ ان سب نے غلط کام کیے ہوں گے۔ ابھی تو انہیں عدالت میں پیش کرنا تھا ۔ جس انداز میں ان سب کی ہتھکڑیاں لگا کر پریڈ کرائی گئی‘ یہ انصاف سے زیادہ نیب کا ذاتی انتقام لگتا ہے۔ اب نیب کے ڈی جی سلیم شہزاد عدالت میں چیف جسٹس کے سامنے رونے کی اداکاری کررہے تھے۔ پاکستان میں ہر طاقتور بندہ اپنے سے زیادہ طاقتور کے پائوں پڑتا اور کمزور پر چڑھ دوڑتا ہے۔ اسی نیب کے چیئر مین قمر زمان چوہدری کو زرداری صاحب نے کھلے عام دھمکی دی تھی تو کوئی آسمان نہیں گرا۔ ایک انٹرویو میں جب حامد میر نے آصف علی زرداری سے پوچھا کہ آپ چیئرمین نیب کو دھمکی دے رہے ہیں؟ تو انتہائی رعونت سے کہا گیا کہ چیئرمین نیب کی کیا جرأت کہ وہ مجھے گرفتار کرے‘ میں تو حکومت کو تھریٹ کررہا ہوں۔ نیب کے یہی ڈی جی اور ان کے بڑے دبکے رہے۔ جرأت نہ ہوئی کہ نیب کو تھریٹ کرنے پر زرداری کے خلاف کوئی کارروائی کرتے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نیب نواز شریف‘ مریم نواز‘ اسحاق ڈار اور دیگر کے خلاف کارروائی کرے۔ نیب کی ٹیم اسلام آباد سے لاہور گئی‘ نواز شریف کو نوٹس جاری کیے گئے کہ وہ انکوائری ٹیم کے سامنے پیش ہوں۔ نواز شریف نے ان نوٹسز کی کوئی پروا نہ کی۔ نیب کی ٹیم دو دن تک لاہور میں بیٹھی نواز شریف کا انتظار کرتی رہی اور پھر واپس آگئی۔ نیب قانون کے تحت آپ کو ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش کرنی ہوتی ہے۔ یہ شاید نیب کی تاریخ کا واحد کیس تھا جس میں نواز شریف انکوائری ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور نیب نے انہیں گرفتار کرنے کی جرأت نہ کی۔ نیب کا ایک افسر بھی ہتھکڑیاں لے کر رائے ونڈ محل نہیں گیا کہ چلیں جناب آپ کو ہتھکڑیاں لگانی ہیں اور لے جا کر انکوائری افسران کے سامنے پیش کرنا ہے۔

اس وقت یہ نیب افسران دبکے رہے۔ نیب کی اس کمزوری کا فائدہ نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوا‘ جب وہاں پر پتا چلا کہ نیب نے پوری طرح کیس تیار نہیں کیا تھا۔ نیب سے پوچھا گیا کہ آپ نے پوری تحقیقات کیوں نہیں کی تھیں تو جواب ملا: احد چیمہ‘ فواد حسن فواد کی طرح اگر یہ بھی گرفتار ہوتے اور ان سے لندن فلیٹس کی تفتیش دیگر ملزمان کی طرح ہوتی تو وہ سب کچھ بتاتے جیسے اب احد چیمہ اور فواد حسن فواد نیب کو بتا رہے ہیں کہ شریف برادرز نے کہاں کہاں ڈاکے مارے اور کہاں سے مال بنایا۔ نواز شریف جب لندن سے لوٹے تو سزا ہوچکی تھی۔ نیب والوں کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ انہیں ہتھکڑی لگا کر جیل لے جاتے۔

مجھے ذاتی طور پر پتا ہے کہ آصف زرداری کے خلاف جب ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی تو چار سال تک ایف آئی اے افسران کو جرأت تک نہ ہوتی تھی۔ زرداری کو گرفتار کرنا یا ہتھکڑیاں لگانا تو دور کی بات ‘وہ طلبی کے نوٹس جاری کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔ زرداری کی منی لانڈرنگ کے خلاف انکوائری چار سال قبل شروع ہوئی اور ہر ڈی جی اسے نکال کر دوبارہ فائل میں رکھ دیتا تھا کہ کون زرداری پر ہاتھ ڈالے۔ یہی ایف آئی اے والے صحافیوں کو بلا کر انکوائری رپورٹ کی کاپی دے کر کہتے: یار مدد کرو‘ اخبار میں چھاپ دو ۔ پوچھا جاتا: آپ خود کارروائی کیوں نہیں کرتے۔

آ گے سے یہ ایف آئی اے افسران منہ چھپا لیتے کہ زرداری سے دشمنی کیوں پال لیں۔ میں نے خود ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران کے چہرے پر خوف کی چھاپ دیکھی ہے۔ جب تک سپریم کورٹ نے کارروائی نہیں کی‘ ایف آئی اے اور نیب دبکے بیٹھے رہے۔ جب زرداری ایف آئی اے میں پیش ہوئے تو بھی انہیں کسی کو ہتھکڑی لگانے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ مسکراتے ہوئے نکل گئے۔

اسی طرح جب تحریک انصاف کے لیڈر جہانگیر ترین نے اپنے گھر کے مالی اور خانساماں کے نام پر کروڑوں روپے کا فراڈ کیا اور پکڑے گئے تو انہیں کسی نے ہتھکڑی نہیں لگائی۔ جب جہانگیر ترین کا کروڑوں روپے کا فراڈ ایس ای سی پی نے پکڑا تو مقدمہ درج کر کے گرفتار کرنے کی بجائے چپکے چپکے سارا معاملہ سیٹل کیا گیا۔ اگر مقدمہ درج ہوتا تو اس جرم کی سزا چودہ برس جیل تھی‘ لیکن کسی کو انہیں ہاتھ لگانے کی جرأت نہ ہوئی‘ بلکہ ساری ایس ای سی پی ہاتھ باندھے ان کے گھر کھڑی تھی کہ حکم دیں اب کیا کرنا ہے۔ وہی ترین جنہیں چودہ برس جیل میں ہونا چاہیے تھی‘ ایس ای سی پی کے دفتر سے وکٹری کے نشانات بناتے نکل گئے۔

یہ ہے طاقتور بندے کا رعب و دبدبہ۔ یہ ہے ہمارے محکموں کی اوقات۔ جب پانامہ سکینڈل آیا تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ نے بریفنگ مانگ لی۔ پہلے سیکرٹری لا ڈاکٹر کرامت نیازی نے پی اے سی کو کہا آپ لوگ تو پانامہ سکینڈل پر سماعت نہیں کرسکتے۔ نیب چیئر مین قمرزمان چوہدری نے کہا: جناب کون سی نیب‘ کون سی نواز شریف کے بچوں کی جائیدادیں اور کون ہیں آپ لوگ ‘ ہمارا پانامہ سے کیا تعلق ہے۔ ایف آئی اے کے ڈی جی عملیش نے فرمایا: ہماری اوقات ہی نہیں کہ پانامہ کے ملزمان‘ جو وزیراعظم کے بچے ہیں‘ پر ہاتھ ڈال سکیں۔ ایف بی آر چیئرمین‘ ایس ای سی پی چیئرمین‘ گورنر سٹیٹ بینک ‘سب نے معصوم منہ بنا لیے کہ جناب ہمارا اس لوٹ مار سے کیا تعلق؟ کسی نے پانامہ کے ان ملزمان کو ہتھکڑیاں نہیں لگائیں۔

الٹا سب زرداری‘ شریفوں اور اسحاق ڈار سے ڈر گئے۔ اسی نیب نے اسحاق ڈار کے اثاثوں کے سکینڈل پر ان کے جعلی سرٹیفکیٹ کو قبول کیا۔ ایک جعلی لیٹر ہیڈ پر دبئی کے شیخ نے لکھ کر دے دیا کہ اسحاق ڈار میرا ملازم تھا اور میں نے اسے ایک ارب روپے تنخواہ دی تھی۔ نیب نے کوئی سوال نہیں پوچھا کہ کوئی بینک سٹیٹمنٹ‘ کوئی بینک ٹرانسفر‘ کوئی رسید‘ کچھ نہیں۔ نیب نے اسحاق ڈار کے سب جرائم کو سیٹل کیا۔ ڈار کو کوئی ہتھکڑی نہیں لگی۔ وہ ملک کی معیشت ڈبو کر پتلی گلی سے نکل گئے۔

عاصمہ ارباب اور اس کے میاں ارباب جہانگیر نے لندن میں چار فلیٹس اور دبئی میں جائیدادیں خرید لیں۔ میاں بیوی گیلانی کے وزیر تھے۔ دونوں نے کھل کر مال بنایا ۔ کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ انہیں گرفتار کر لیتے۔ انکوائری کہیں کھو گئی ۔ باقی چھوڑیں‘ ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور کے بارے میں کیا خیال ہے‘ جنہوں نے نادرا میں لوٹ مار کی نئی کہانیاں رقم کی تھیں۔ اپنے بچوں کی امریکہ کی ٹکٹیں‘ ویزوں کی فیسیں‘ عمرے کی ٹکٹیں‘ ذاتی خریداریاں‘ مشکوک دوائیوں کے خرچے‘ صدقے کے بکرے‘ بچوں کی فیسیں‘ لاکھوں کے ڈرائی فروٹس‘ جوتوں سے لے کر فون کارڈز تک سب کی خریداری نادرا سے کرائی۔ ایف آئی اے نے ایف آئی آر درج کر لی۔ جس جرم کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی اس کے تحت سزا چودہ برس تھی۔ تاجور کو بچانے کیلئے نیب افسران‘ ایف آئی اے اور نادرا‘ سب اکٹھے ہوگئے اور امتیاز تاجور‘ جنہیں جیل میں ہونا چاہیے تھا‘ وہ اس وقت وہی کام نیب میں کررہے ہیں‘ جو نادرا میں کرتے تھے۔ انہیں کسی نے ہتھکڑی نہیں لگائی ۔

آج کل متحدہ روس کے آخری حکمران گوربا چوف کی بائیوگرافی پڑھ رہا ہوں جو William Taubman نے پندرہ برس کی محنت اور ریسرچ کے بعد لکھی ہے۔ ایک جگہ گوربا چوف کہتا ہے: حضرت موسی ؑنے ایک سمجھداری کی تھی‘ وہ یہودیوں کو چالیس برس صحرا میں لے کر پھرتے رہے۔ جانتے ہو کیوں؟ تاکہ وہ یہودی قوم کو پہلے صدیوں سے مصری فرعونوں کی غلامی کے نفسیاتی اثرات اور میراث سے نکال سکیں۔ اس ایک فقرے میں بہت گہرائی ہے۔ ہمارا یہ خطہ صدیوں تک غلام رہا ہے۔ اس لیے ہم طاقتور کے پائوں پکڑ لیتے ہیں اور کمزور پر چڑھ دوڑتے ہیں۔

ابھی ہمیںغلامی سے نکالنے کے لیے لیڈر نہیں ملا ‘ جو ہم غلاموں کو آزاد کرانے کے بعد برسوں صحرا میں پھراتا رہتا تاکہ ہم سب نفسیاتی طور پر خود کو غلامانہ سوچ اور نفسیات سے نکال کر خود کو آزاد سمجھیں۔ یہ ہے ہماری صدیوں کی غلامی کا اثر اور میراث ۔ جنہیں ہتھکڑیاں لگنا چاہیے تھیں‘ وہ الٹا انہی غلاموں کو لوٹ کر غلاموں پر ہی حکمرانی کرتے ہیں اور ہمارے آقائوں کی قسمت دیکھیں وہی لٹے پٹے غلام انہی لیٹروں کے نعرے لگا لگا کر مست رہتے ہیں۔
جو جتنا بڑا فراڈیا ہے۔ وہی مسیحا بنا بیٹھا ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے