کبھی سونا کبھی کاغذ

”بین الاقوامی فنڈ(آئی ایم ایف) نے چین کے یوآن(Yuan) کواپنے مقبول زرمبادلہ کی باسکٹ میں شامل کر لیا ہے۔

1945ء میں اپنے قیام کے بعد سے ‘ آئی ایم ایف کا یہ اپنی طرز کا اچھوتا اقدام ہے۔اس طرح مستقبل قریب میں یوآن کو امریکی ڈالر کی برابری کرنے کے موقع فراہم ہو گیا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کو نظر انداز کرنے کی یہ تازہ ترین کوشش بھی ہے۔ بقول ماہرین معاشیات آئی ایم ایف کا یہ فیصلہ‘ بڑے پیمانے پر عالمی دولت کے مغلوب تبادلہ کا متحرک بنے گا ‘لہٰذا جن لوگوں کی دولت‘ امریکی ڈالر کی شکل میں شیئر مارکیٹ‘ میچوئل فنڈ یا بانڈز میں لگی ہوئی ہے‘ وہ اسے وہاں سے نکال کے ایسی شکل میں لگائیں‘ جہاں وہ کاغذی زرمبادلہ کے کمزور ہو جانے کے باوجود‘ صرف مضبوط ہی نہیں رہے‘ بلکہ اس کی قدر و قیمت میں اضافہ بھی ہوتا رہے۔

آئی ایم ایف‘ دنیا کی خفیہ ترین طاقتور تنظیم بھی ہے‘ جو دنیا کے189ممالک کی مالی صحت کی نگہداشت کرتی ہے۔ عالمی مالی ضابط بناتی ہے ‘ جو ممالک دیوالیہ جاتے ہیں‘ ان کو مشکل سے نکالنے میں مدد کرتی ہے۔ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف نے امریکہ کی اس طرح کی مدد کرنے کی کوشش کی‘ تو وہ امریکی کے مفاد کے لئے پرآشوب و تخریب کارانہ ہو گا۔ امریکی وزارت خزانہ کے سابق افسر کا کہنا ہے کہ ” اب عالمی مالیاتی سسٹم میں تبدیلی آجائے گی‘‘۔ سنگاپور مالیاتی اتھارٹی کے لیان سنگ چیانگ کہتے ہیں کہ” اگلے چند برس میں ہی‘ دنیا کا مالی نقشہ بدل جائے گا‘‘۔

سونے چاند ی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کی وجہ بھی کافی حد تک آئی ایم ایف کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکی ڈالر میں گراوٹ بدنام رہی ہے‘ قیمتی دھاتوں میں اچھال کے لئے ۔ گزشتہ چھ صدیوں میں چھ ممالک کے زرمبادلہ نے دنیا کے نظام کو کنٹرول کیا ہے۔1930ء سے اب تک امریکی ڈالر دنیا میں چھایا رہا۔80-90 برس کے وقفے میں‘ عالمی مالیاتی نظام میں کمزوری آتی رہی ہے۔ فیٹ کرنسی(Fiat Currency) ایسے کاغذی زر کو کہتے ہیں‘ جس کا انحصار صرف حکومت وقت پر اعتماد ہو اور جس کو سونے کے ریزرو کی سپورٹ حاصل نہ ہو۔ امریکی ڈالر1971ء سے فیٹ کرنسی ہی رہا ہے جب صدر رچرڈ نکسن نے امریکی ڈالر ریزرو کی سونے میں بین الاقوامی تبدیلی کی گارنٹی کو ختم کر دیا تھا اور اس سے1944ء کا برٹن وڈس سسٹم درہم برہم ہو گیا تھا ‘جس کے طے شدہ ریٹ کے مطابق‘ دنیا بھر میں ہر35امریکی ڈالر وں کو ایک اونس28.35گرام سونے میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔

اس وقت دنیا کے سونے کے کل ریزرو کا آدھا‘ یعنی57کروڑ اونس1.8 کروڑ ٹن‘ امریکہ کے پاس ہوتا تھا۔ امریکہ سے کاریں‘ لوہا اور مشینیں خریدی جاتی تھیں۔ 1933ء تک 20امریکی ڈالر کا ایک اونس سونا ملنے کی گارنٹی ہوا کرتی تھی‘ لیکن1933ء میں امریکہ نے اپنے شہریوںسے سونا لے کر ہر اونس کے بدلے‘ انہیں20ڈالر کا کاغذی سرٹیفکیٹ پکڑا دیا تھا‘ پھر1950ء سے1969ء تک جرمنی اور جاپان دوسری جنگ عظیم کے منفی اثرات سے باہر آگئے تھے۔ اس کے علاوہ ویت نام کی جنگ کی وجہ سے‘ ڈالر کی قیمت میں عالمی اضافہ ہو گیا‘ تو فرانس نے صدر چارل ڈی گال نے اعلان کر دیا کہ وہ فرانس کے ڈالر ریزرو کو 1944ء کے ریٹ سے سونے میں تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔ اس طرح1966ء میں امریکہ کے پاس140کھرب ڈالر کا سونا رہ گیا اور باقی دنیا کے پاس سونے کی قیمت 132 کھرب ڈالر ہو چکی تھی۔

1970ء کی دہائی میں یورپ کے متعد ممالک نے بھی بڑی مقدار میں اپنے ڈالر کے ریزرو کو سونے میں تبدیل کر لیا۔ ادھر1971ء کے دوران امریکہ میں ایک اونس سونے کی قیمت67ڈالر کر دی گئی۔ بعد میں 2007-08ء کے عالمی بحران میں بھی اس کا منفی اثر دیکھنے میں آیا۔ اب2018ء میں ایک اونس سونا خریدنے کے لئے ایک ہزار ڈالر لگتے ہیں‘ کیونکہ اب امریکی ڈالر ایک ایسے کاغذ کا ٹکڑا ہے‘ جس کی پشت میں سونے کے فیڈرل ریزرو کی بجائے 180کھر ب ڈالر کا قرض ہے‘ جس میں ہر منٹ ایک کروڑ ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہے ‘ جس سے ڈالر کی خریدنے کی طاقت مستقل طو رپر کم ہو رہی ہے۔

آئی ایم ایف کا حالیہ فیصلہ ایک سنگ میل ہے۔ چین کی اس مہم میں کہ وہ عالمی اقتصادی طاقت کے طور پر پہچانا
جائے۔ اس کی کرنسی یوآن‘ جسے رینمنبی (Renminbi) یا عوام کا پیسہ بھی کہتے ہیں‘ آئی ایم ایف کے مخصوص حق وصول یابی یا ایس ڈی آر میں شامل ہوکر بین الاقوامی کرنسی بن گئی ہے۔آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ تمام ممالک کو چاہئے کہ وہ انفرادی نشو ونما میں زیادہ سرمایہ لگائیں‘ اس سے عالمی اقتصادی عدم توازن دور کرنے میں مدد ملے گی۔ جدید ٹیکنالوجی تیزی سے بڑھتے ہوئے ڈیجیٹلئزیشن‘ مصنوعی ذہانت اور مشینیت سے ممالک کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی بندوبست کے ساتھ سماجی تحفظ کے نیٹ ورک کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ معلوم ہوا کہ قوموں کی زندگی میں سوپچاس برس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ہے اور کوئی ملک دنیا پر ہمیشہ بالادستی قائم نہیں رکھ سکتا ‘ لیکن تاریخ میں جتنے بھی دور گزرے ہیں‘ ان سب سے آگے آنے والی عالمی نسلوں کو استفادہ کرنا چاہئے‘ یہ سیکھنے کے لئے کہ ہمیں ایسا کرنا ہے اور ایسا نہیں کرنا‘ پھر بھی گزشتہ چھ صدیوں سے خصوصاً اور پانچ ہزار برس کی تاریخ سے عموماً یہ ضرور سبق ملتا ہے کہ زرمبادلہ و سرمایہ کاری کا مستحکم آلہ کار سونا ہی ہے اور اسی کی طرف اشارہ دین میں بھی ہے۔

قرآن کریم کی13سورتوں میں تیرہ جگہ سونے کا ذکر آیا ہے۔ سورہ توبہ کی آیت34 میں تنبیہ ہے کہ ” جو لوگ سونے اورچاندی کا ذخیرہ رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں استعمال نہیں کرتے ہیں‘ انہیں اطلاع کر دی جائے اللہ تعالیٰ کی سخت پکڑ کی‘‘۔ دوسری طرف چین کی بڑھتی ہوئی عالمی اقتصادی مرکزیت‘ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے‘‘؟(ڈاکٹر سید ظفر محمود)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے