گدھا چابک مارنے سے گھوڑا نہیں بنتا

اگر تو یہ کوئی پانچ روزہ ٹیسٹ میچ ہے تو پہلے دن ہی چار سو رنز کا ہدف حاصل کرنے کی کیا آفت آن پڑی؟ اور اگر یہ پچاس اوور کا ون ڈے ہے تو پھر پہلے دس اووروں میں ہی نو بال سمیت ہر گیند پر اس طرح چوکے چھکے کیوں گویا آخری دس اوور باقی ہوں اور میچ بھی ہاتھ سے نکلا جا رہا ہو۔۔ ویسے بھی سامنے جو اپوزیشن الیون فیلڈنگ کر رہی ہے اس کی رینکنگ تو اس وقت کینیا اور اومان سے بھی نیچے ہے۔

مگر امورِ ریاست چلانا کرکٹ کے میدان سے زیادہ باکسنگ کے رنگ میں متحرک رہنے جیسا ہے۔ پر باکسنگ صرف اندھا دھند گھونسے چلانے کا نام نہیں بلکہ پوری سائنس ہے۔ پروفیشنل باکسر اپنی طاقت پہلے راؤنڈ میں ہی خرچ نہیں کر دیتا بلکہ دس راؤنڈ تک کا سوچ کے کھیلتا ہے ۔

اگر آپ پہلے راؤنڈ کی گھنٹی بجتے ہی کسی امیچر باکسر کی طرح ریاستی رنگ میں ہر جانب ناچتے مسئلوں کو ایک ساتھ ناک آؤٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو دوسرے تیسرے راؤنڈ تک آپ خود مارے تھکن کے ایسے چور چور ہو جائیں گے کہ کوئی بھی واجبی تجربہ کار پاپی مسئلہ آپ کو رنگ کے کونے میں دھکیل سکتا ہے ۔

مجھے شبہہ ہے کہ کسی بد خواہ نے شائد خان صاحب اور ان کی ٹیم کے کان میں پھونک دیا ہے کہ بھائیو حکومت پانچ برس کے لیے نہیں صرف سو دن کے لیے ملی ہے۔ چنانچہ ٹربو لگ گیا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا صاحبِ اختیار باس پر فرسٹ امپریشن جمانے کے لیے ’آ بکری باہر نکل‘ کی بڑک لگا رہا ہے۔

کامیابی کے بعد عاجزی کا مظاہرہ تو خیر کیا ہوتا جس جس کے ہاتھ بھی اختیاراتی کلاشنکوف ہے وہ چاروں طرف اوپر نیچے برسٹ چلا رہا ہے ۔ صاف لگ رہا ہے کہ قسمت کی لکشمی نے پہلی بار اس گھر کی دہلیز پار کی ہے۔

بیورو کریسی کو جھاڑ، الیکشن کمیشن کو ڈانٹ، اپوزیشن کو ٹھبی، رولر کوسٹرانہ پولیس تقرریاں تبادلے، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے الہ دین کے چراغ کی ڈھونڈھ ، بھینسوں اور گاڑیوں کی نیلامی سے لے کر سویلین سرکاری عمارات کو یونیورسٹی، عجائب گھر اور نجی ہوٹلوں میں بدل کے قومی خزانہ بھرنے کے برق رفتار حکیمی نسخے پر یقین، سمندر پار پڑی دو سو ارب ڈالر کی مبینہ لوٹی دولت کا فوری پتہ لگا کر واپس لانے کا جنون، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے راتوں رات بیس ارب ڈالر تک فوری سرمایہ کاری کی آس ، سعودی اور چینی وعدوں کے ٹرک کی بتی کے پیچھے ہانپنے کے بعد سٹاک ایکسچینج میں زلزلے سے گھبرا کر عین آخری وقت آئی ایم ایف کے در پر تاخیری دستک۔

اکنامک ایڈوائزری کونسل کہاں ہے ؟ کوئی تو بتائے کہ عمران خان، شیخ رشید ، ڈاکٹر عشرت حسین ، رزاق داؤد ، فرخ سلیم ، فواد چوہدری اور اسد عمر میں سے دراصل وزیرِ خزانہ کون ہے ؟

یہ درست ہے کہ آپ ایک انتھک ایتھلیٹ ہیں اور آپ کی جواں سال ٹیم راتوں رات ملک کی قسمت بدلنے کے جذبے سے سرشار۔ مگر جس سرکاری مشینری سے آپ کو اپنے پروگرام اور وعدوں پر عمل کروانا ہے وہ تو گدھا پچیسی کلچر کی عادی ہے ۔ گدھے پر ڈانٹ ڈپٹ کے جتنے چابک برسا لیں وہ گھوڑا بننے سے تو رہا۔

آپ اور آپ کی ٹیم فراری پر سوار سہی مگر نوکر شاہی کی گدھا گاڑی فراری کے پیچھے باندھنے سے فراٹے تھوڑا بھرنے لگے گی۔ ڈانٹ ڈپٹ سے اور تو کیا ہوگا اگر گدھے نے اگلی دو ٹانگیں بھی ہوا میں معلق کر دیں تو فراری بھی لٹک جائے گی۔ یہ بات تو انگریز بھی جانتا تھا کہ پٹواری اور بابو سے نپٹا نہیں جاتا نپٹارا کیا جاتا ہے۔ اسی لیے انگریز نوے برس نکال گیا ورنہ نوے دن بھی مشکل تھے۔

یقین جانیے خان صاحب آپ کو پورے پانچ برس کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ یقین مانیے پانچ سال میں اگر چوتھائی وعدے بھی پورے ہو گئے تب بھی قناعتی عوام خوش ہو جائیں گے۔ لہذا ہر جھاڑی سے الجھنے کے بجائے صرف تعلیم ، صحت ، روزگار اور قانون کی حکمرانی پر ہی دھیان دے لیں تو یہ بھی تاریخی کام ہو جائے گا۔ ان کاموں سے وقت بچ جائے تو سابق کرپٹوں کو بھی فکس کر دیجئے گا۔

جب بچہ اچانک سے کھڑے ہو کر نیا نیا چلنا سیکھتا ہے تو سرخوشی میں دوڑ پڑتا ہے ۔چونکہ رکنا تو سیکھا نہیں ہوتا لہذا سیدھا دیوار میں جا کے لگتا ہے۔اس موقع پر کوئی تو ہو جو بچے کو سنبھالے، اسے چلنے سے بھی نہ روکے مگر دیوار سے بھی بچائے رکھے ۔

سب کچھ پہلے سو دن میں نہیں ہوتا ۔سو دن میں سمت ہی متعین ہو جائے تو بڑی بات ہے۔اس لیے بگٹٹ دوڑنے کی نہیں بلکہ رفتار برقرار رکھتے ہوئے مسلسل چلتے رہنے کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے