استنبول کے سعودی قونصل خانے میں بے دردی سے قتل کیے جانے والے جمال خاشقجی کون تھے ؟

سعودی عرب نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی ہلاک ہو چکا ہے اور اس سلسلے میں دو اعلیٰ عہدے داروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ خشوگی 2 اکتوبر کو اپنے نجی کاغذات کے سلسلے میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تھے لیکن وہاں سے باہر نہیں نکلے اور پراسرار طور پر لا پتا ہو گئے۔اس سے قبل سعودی حکام اس گمشدگی سے مسلسل لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے ہیں۔

خشوگی کی گمشدگی پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا اور امریکہ نے اس معاملے کی شفاف انداز میں تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف سخت ردعمل آ سکتا ہے۔ سعودی عرب نے ترک حکام کے ساتھ مل کر اس واقعہ کی تفتیش کرانے پر اتفاق کیا جس کے بعد ترک پولیس سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوئی اور کئی گھنٹوں تک وہاں تلاشی لی۔ ترک پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے ہاتھ ایسے شواہد لگے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خشوگی کو قونصلیٹ کے اندر سفاکی سے ہلاک کرنے کے بعد اس کی نعش ٹھکانے لگا دی گئی۔

2 اکتوبر سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا کہ کہ جمال خاشقجی کون ہے. جمال خاشقجی استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں گئے تو سہی لیکن واپسی کی اطلاع آج تک نہیں ملی . ترک پولیس نے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ سعودی سفارت خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا ہے . جمال خاشقجی کی وجہ سے سعودی عرب پر اس وقت عالمی برادری کا شدید دباو ہے .

جمال خاشقجی کا خاندان پانچ سو برس پہلے ترکی سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں آباد ہوا . کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی علی ہلال کی تحقیق کے مطابق خاشقجی یا خشوگی ۔۔ اصلی لفظ کیا ہے ؟؟

خاشقجی ترک اورازبکی زبانوں میں بالترتیب ’’خاشوقۃ ‘‘ اور’’کاشیق‘‘ مستعمل ہے جس کے معنی چمچہ کے ہیں ۔۔ عرب ممالک میں عراق اور شام میں بھی کھانے کے چمچمہ کو خاشوقہ کہا جاتا ہے ۔۔یاد رہے کہ پشتو میں بھی قاشوغہ مستعمل ہے ۔۔ لفظ ’’ جی ‘‘ کا لاحقہ پیشہ کی جانب اشارہ کے لئے لگا یا گیا ہے جیسے صندوقچی ۔۔قہوہ جی وغیرہ ۔۔۔
آل خاشقجی (شین کے ضمہ یاکسره اور سکون قاف کے ساتھ ) ترک قبیلہ ہے جو پان سو برس (1591) سے مدینہ منورہ میں مقیم ہے ۔۔اس اعتبار سے ان کا اصل عرب نہیں بلکہ وہ ایشیائ کا عجم خاندان ہے ۔۔ماہرین کے مطابق خاشقجی قبیلے کا اصلی علاقہ حالیہ چین کا علاقہ سنکیانک تھا جہاں سے کوچ کرکے یہ لوگ ترکی اورپھر حجاز مقدس چلے گئے تھے ۔

ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں رکھا ہوا دنیا کا چوتھا بڑا ہیرا خاشقجی بھی اسی خاندان کی جانب منسوب ہے ۔۔
عثمانی دور میں مدینہ منورہ کی تعمیروترقی میں خاشقجی خاندان کی طویل خدمات ہیں ۔۔حرم مکی ومدنی دونوں کے کئی موذن اور ائمہ بھی اسی قبیلے سے رہے ہیں ۔۔1850میں عثمانی دورمیں مدینہ منورہ کے محتسب خالد بن علی خاشقجی اسی خاندان کے اہم فرد تھے جن کے بیٹے عبداللہ خاشقجی ان کے بعد عثمانی دورمیں مدینہ منورہ کے آخری عثمانی محتسب مقررہوئے اور مدینہ منورہ سے عثمانی سقوط کے وقت وہاں سے جلاوطن کئے گئے ۔

عثمانی خلافت ختم ہونے کے بعد بھی خاشقجی خاندان نے حجاز سے اپنا تعلق جوڑے رکھا ۔۔ عبداللہ خاشقجی کے بھائی محمد بن خالد خاشقجی جدید سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن کی کابینہ میں سعودی عرب کے پہلے وزیرصحت مقررہوئے ۔

خالد خاشقجی مکہ مکرمہ کو سب سے پہلے بجلی فراہم کرنے والے وزیرکا اعزاز رکھتے ہیں ۔۔جبکہ صحت کے وسائل کی فراہمی میں بھی ان کا مرکزی عمل دخل ہے۔

خالد خاشقجی جون 2017 میں انتقال کرنے والے عالمی شہرت یافتہ سعودی اسلحہ تاجر عدنان خاشقجی کے دادا تھے ۔
عدنان خا شقجی وہ شخص ہیں جس نے ہتھیاروں کی خریداری میں دنیا بھر کی تمام یہودی کمپنیوں اورتاجروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔

وہ مشہور فلم جیمز بانڈ بانڈ میں دکھائے جانے والے سمندری یٹ کے مالک تھے جسے بعدازاں عدنان خاشقجی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فرخت کیا تھا اورپھر جب ٹرمپ پربرے دن آگئے تو قرضوں سے نجات کے لئے سعودی شہزادہ ولید بن طلال نے ٹرمپ سے خرید کر ان کا بوجھ ہلکا کیا ۔ سعودی عرب کے لئے خاشقجی خاندان کی خدمات کی طویل فہرست ہے ۔۔ جمال خاشقجی بھی سعودی عرب کے مشہور ترین صحافی تھے ۔ شاہ عبداللہ مرحوم نے اپنے دورہ برطانیہ کے موقع پر انہیں ملکہ برطانیہ سے بھی متعارف کروایا تھا ۔ جمال کی اہم بات یہ بھی تھی کہ نومبر2009 میں سعودی عرب کی جانب سے یمن کے حوثی باغیوں پر پہلی بمباری بھی جمال خاشقجی کے مشورے سے ہوئی تھی جس پر حوثی اوران کے کرم فرما آج تک جمال خاشقجی کے مخالف ہیں ۔

جمال خاشقجي 14 مارچ 1958 مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے . ان کی رہائش گاہیں مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع ہیں . ان کا خاندان سعودی عرب میں کئی اہم عہدوں پر متمکن رہا . عبدالرحمان خاشقجی اور ڈاکٹر محمد خاشقجی کے ناموں سے کون واقف نہیں جن کو سعودی عرب سمیت عرب ممالک میں تمام اہم شخصیات جانتی ہیں . ان کے دادا ڈاکٹر محمد خاشقجی سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود کے ذاتی ڈاکٹر تھے . جمال خاشقجي کے والد عدنان خاشقجي ایک ارب پتی شخص تھے . 1980 میں ان کے پاس چار ارب ڈالر مالیت کے اثاثے تھے . وہ ایک سعودی تاجر تھے . جمال خاشقجي نےبھی روایتی عربوں کی طرح کئی شادیاں کر رکھی تھیں . انہوں نے 2010 میں ڈاکٹر اعلی نصیف سے تیسری شادی کی .

جمال خاشقجی عرب دنیا کے موثر ترین صحافیوں میں سے ایک تھا . اس کی سعودی حکومت پر تنقید اتنی موثر تھی کہ اس کا ایک کالم سعودی محلات کا سکون تباہ کر دیتا تھا .

جمال خاشقجی نے 1983 میں انڈیانا اسٹیٹ یونیورسٹی امریکا سے صحافت کی تعلیم حاصل کی . اس کے بعد انہوں نے مشہور سعودی اخبار سعودی گزٹ کے لیے بطور رپورٹر کام کرنا شروع کر دیا . 1990 کے دہائی میں انہوں نے افغانستان، الجزائر، سوڈان اور مشرق وسطی سے رپورٹنگ کی . انہوں نے نائن الیون سے پہلے اسامہ بن لادن کے بھی کئی انٹرویو کیے اور القاعدہ پر کئی خصوصی رپورٹس بھی بنائیں . بعد میں انہوں نے دوسرے انگریزی اور عرب زبان کے اخبارات کے لئے بھی لکھنا شروع کر دیا . کچھ عرصہ بعد وہ عرب نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر بن گئے اور اپنی محنت سے اخبار کو سعودی عرب کا سب سے بڑا اور کامیاب انگریزی اخبار بنا دیا .

جمال خاشقجی کو اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران کئی بار ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے . وہ اپنی رپورٹنگ اور کالمز میں سعودی مذہبی جنونیت اور کٹھ ملائیت پر تنقید کرتے تھے . وہ حکومت پر زور دیتے کہ وہ اس باب میں اصلاحات کرے .

جمال خاشقجی سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف ترکی الفیصل کے دور میں لندن سفارت خانے میں سفیر کے مشیر بھی رہے . امریکا میں سفیر کی حیثیت سے وہ ترکی الفیصل کے میڈیا معاون خصوصی بھی رہے .

جون 2017 میں، سعودی پولیس نے تقریبا 50 سیاسی اور کاروباری شخصیات کو گرفتار کیا جس میں پرنس شہزادہ ولید بن طلال سمیت اہم شہزادے شامل تھے . ان گرفتاریوں کے فوری بعد سعودی حکومت نے ملک میں انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی سترہ خواتین کو بھی گرفتار کر لیا .

اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے جمال خاشقجی گرفتاری کے خوف سے سعودی عرب سے امریکا چلے گئے . وہاں نے واشنگٹن ڈی سی میں رہائش اختیار کر لی .

اخبار واشنگٹن پوسٹ میں اپنے پہلے مہمان کالم میں انہوں نے لکھا کہ "میں نے اپنا گھر، خاندان اور کام چھوڑ دیا ہے، اور میں اپنی آواز بلند کر رہا ہوں … ہم سعودیوں کو بھی ایک بہتر زندگی کی ضرورت ہے .

جون 2017 میں سعودی عرب سے فرار ہونے کے بعد خشگگی امریکہ میں رہتے تھے. جب انہوں نے پوچھا تو کیوں کہ وہ مارچ میں الجزیرہ ٹیلی ویژن سے کہا، "میں گرفتار نہیں کرنا چاہتا.” انہوں نے اپنی تحریروں میں قطر اور کینیڈا کے حوالے سے سعودی پالیسیوں، یمن میں جنگ، ریاست میں اختلافات اور میڈیا پر سختی کے خلاف شدید تنقید کی ۔

اپنے ان کالمز کی وجہ سے جمال خاشقجی نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اپنا دشمن بنا لیا تھا .

2 اکتوبر کو جمال خاشقجی استبول میں واقعے سعودی قونصل خانے گئے جہاں وہ اپنی شادی کی رجسٹریشن کے لیے کاغذات حاصل کرنا چاہتے تھے . وہ اپنی 36 سالہ ترک اہلیہ کے ساتھ گئے تاہم ان کی اہلیہ سفارت خانے کے باہر گاڑی میں اپنے شوہر کا انتظار کر تی رہیں . جب گیارہ گھنٹے گذر گئے تو پھر جمال خاشقجی کی اہلیہ نے ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی .

ترکی پولیس کا خیال ہے کہ ترکی میں خود ساختہ جلاوطنی گزارنے والے سعودی عرب کے شدید ناقد جمال خشگگی سعودی قونصل خانے کے اندر بلا کر قتل کیا گیا. ان کے مطابق جمال خاشقجی کو سفارت خانے میں قتل کرنے کے بعد ان کی لاش باہر نکالی گئی ۔

59 سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترکی میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور وہ سعودی عرب کے شدید ناقد تھے ۔

الجزیرہ استنبول کے نمائندے کے مطابق 15 سعودی اہلکار دو اکتوبر منگل کے روز دو مختلف پروازوں پر استنبول پہنچے تھے ، یہ وہی دن تھا جس روز جمال خاشقجی کا واقعہ پیش آیا تھا .

ترکی نے کہا کہ جمال خشگگی کے غائب ہونے والے واقعات کو "بے نقاب” کرے گاکیونکہ یہ ایک حساس ترین مسئلہ ہے .

جمال خاشقجی اس وقت عالمی سطح پر زیر بحث ہے . عالمی نشریاتی ادارے اس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں . سعودی عرب میں بھی اس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے . امریکا نے دھمکی دی ہے کہ اگر سعودی عرب جمال کے قتل میں ملوث ہوا تو سعودی عرب پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں . مشکلات میں گھرے سعودی عرب کے لیے جمال کی خبر نے مزید مسائل کھڑے کر دیے ہیں . تاہم سعودی حکومت اس کیس سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بدھ کے دن اپنے ترک ہم منصب مولود چاوش اولو کے ساتھ ملاقات میں جمال خاشقجی کیس پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمال کیس میں سعودی حکومت کو شک کا فائدہ دیا ہے۔ اس کیس کے حوالے سے ریاض حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے کہا ہے کہ جمال خاشقجی کیس کے حوالے سے اگر اس کے پاس کوئی آڈیو یا ویڈیو ثبوت ہے تو وہ امریکا کے ساتھ شیئر کرے۔ ٹرمپ نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ اس کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے تحقیقات کار ترکی گئے ہیں يا نہيں۔

سعودی عرب نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی ہلاک ہو چکا ہے اور اس سلسلے میں دو اعلیٰ عہدے داروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے ۔اس سے قبل سعودی حکام اس گمشدگی سے مسلسل لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے ہیں۔

وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطاباق خشوگی کے قتل کی مزید تفصیلات سامنے آگئیں.

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2 اکتوبر کو جب صحافی جمال خشوگی استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوا تو وہاں 15 سعودی ایجنٹ پہلے سے ہی اس کے منتظر تھے اور انہوں نے منٹوں کے اندر اسے ہلاک کر ڈالا۔ سفاک ایجنٹوں نے اس کا سر کاٹا اور جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور اپنا کام مکمل کرنے کے بعد وہ دو گھنٹوں کے اندر قونصلیٹ کی عمارت سے چلے گئے۔

ایک سینئر ترک عہدے دار نے بدھ کے روز بتایا کہ قونصلیٹ کی آڈیو ریکارڑنگ سے کئی چیزوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ ہلاک کرنے سے پہلے خشوگی پر شديد تشدد کیا گیا اور ان کی انگلیاں تک کاٹ دی گئیں۔

ترک میڈیا کے مطابق سعودی ایجنٹ خشوگی سے سوال جواب کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر سفاکانہ تشدد بھی کر رہے تھے جس دوران اس کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔

جمال خشوگی ایک عرصے سے امریکی ریاست ورجینیا میں رہ رہے تھے اور واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے۔ وہ اپنی تحریروں میں سعودی حکمرانوں پر سخت نکتہ چینی کرتے تھے، جس کی وجہ سے سعودی حکومت ان سے ناراض تھی۔

خشوگی اپنی بیوی کی طلاق کے کاغذات بنوانے کے لیے استنبول میں سعودی قونصلیٹ گئے تھے تاکہ وہ اپنی گرل فرینڈ سے شادی کر سکیں۔ ترکی کے سفر میں خشوگی کی گرل فرینڈ بھی ان کے ساتھ تھی اور وہ قونصلیٹ کے دروازے تک ان کے ساتھ آئی۔ قونصلیٹ میں جاتے ہوئے وہ اپنا موبائل فون اپنی گرل فرینڈ کو دے گئے۔

گرل فرینڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے گیارہ گھنٹوں تک خشوگی کی واپسی کا انتظار کیا اور اس کے بعد وہ واپس آ گئی۔سعودی قونصلیٹ نے مسلسل یہ اصرار کیا کہ انہیں نہیں معلوم کہ خشوگی کہاں چلا گیا۔ ان کی گمشدگی پر دنیا بھر میں شور اٹھا اور بالآخر سعودی عرب کو ترک تفتیش کاروں کو قونصلیٹ کی تلاشی کی اجازت دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

ایک ترک عہدے دار نے نیویارک ٹائمز کو تصدیق کی کہ آڈیو ریکارڑنگ میں قونصلیٹ کے عہدے دار کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ یہ کام باہر جا کر کرو۔ تم مجھے مصیبت میں ڈال دو گے۔ آڈیو میں ایک ایجنٹ کا یہ جملہ بھی سنا جا سکتا ہے کہ اگر تم واپس سعودی عرب جا کر رہنا چاہتے ہو تو اپنا منہ بند رکھو۔

آڈیو سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خشوگی کو قونصلیٹ کے اندر ایک دوسرے کمرے کی جانب زبردستی دھکیلا گیا۔ اس دوران اس نے مزاحمت کی جس پر اسے کسی نامعلوم چیز کا انجکشن لگایا گیا۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ریاض سے استنبول آنے والی سعودی ایجنٹوں کی ٹیم کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی تھا۔ جس نے خشوگی کا سر کاٹ کر الگ کیا۔ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور پھر سعودی ٹیم کو یہ ہدایت دی کہ وہ اپنا تناؤ کم کرنے کے لیے میوزک سنیں۔ ڈاکٹر نے خود ہیڈ فون لگایا ہوا تھا۔

ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ڈاکٹر نے جب خشوگی کا جسم کاٹنا شروع کیا تو وہ اس وقت تک زندہ تھا .تاہم سعودی مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں کچھ علم نہیں ہے کہ خشوگی کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے