ہتھکڑیوں کا زیور!

اشفاق احمد جب اٹلی میں اردو کے پروفیسر تھے، ایک بار ان کے موٹر سائیکل کا چالان ہوگیا، جب وہ عدالت میں پیش ہوئے اور فاضل جج کو پتہ چلا کہ ’’ملزم‘‘ پیشے کے لحاظ سے پروفیسر ہے تو اس نے انہیں نہ صرف مکمل احترام دیا بلکہ ان کا چالان بھی کینسل کردیا۔ میں نے جب اخبارات اور ٹی وی چینلز پر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگا کر نیب کی عدالت میں پیش کرنے کی خبر اور فوٹیج دیکھی تو میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ وائس چانسلرزمیں ڈاکٹر مجاہد کامران اور ڈاکٹر چوہدری اکرم بھی تھے۔اتفاق سے بلکہ حسن اتفاق سے میں ان دونوں نابغہ روزگار شخصیات کو جانتا ہوں۔

ڈاکٹر مجاہد کامران کئی کتابوں کے مصنف ہیں،انتہائی وضعدار اور مشرقی تہذیب کا مکمل نمونہ ۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اشفاق احمد کے بقول لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں تشدد کے رجحانات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں کوشاں رہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اکرم چوہدری ایک زبردست ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ عربی زبان کے فاضل رجل ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران ہی کی طرح انتہائی منسکرالمزاج اور ہر لمحہ فروغ تعلیم کے لئے کوشاں۔ ہتھکڑیوں میں’’ملبوس‘‘ بعض دوسرے پروفیسروں میں، میں ذاتی طور پر پروفیسر اورنگزیب عالمگیر کو بھی جانتا ہوں، ایک حادثے میں ان کی ٹانگ کا فریکچر ہوگیا تھا، چنانچہ وہ چھڑی کے بغیر چل ہی نہیں سکتےتھے۔

ان تمام لوگوں کو نہ صرف ہتھکڑیوں میں جکڑا گیا تھا بلکہ نیب کے اہلکاروں نے انہیں دونوں بازوئوں سے بہت بری طرح دبوچا بھی ہوا تھا جیسے یہ ہتھکڑیوں سمیت بھاگ نکلیں گے۔ یہ اہلکار بہت سفاک ہوتے ہیں یہ تو حکم ملنے پر بھٹو کو بھی پھانسی پر چڑھا دیتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو ان ماہرین تعلیم کی جگہ پر رکھ کر سوچتا ہوں کہ اگر ایسا میرے ساتھ ہویا ہوتا تو مجھ پر میرے اہل خاندان پراور میرے دلدادگان کے دلوں پر کیا گزرتی، میں خود بھی 25سال بچوں کو پڑھاتا رہا ہوں اور ایف سی کالج سے ایک سال قبل ریٹائرمنٹ لےلی تھی۔ 55سال سے کالم لکھ رہا ہوں، صف اول کا مزاح نگار سمجھا جاتا ہوں، مجھ پر پی ایچ ڈی مقالے لکھے جارہے ہیں۔

ترکی، انگریزی اورگورمکھی میں میری کتابوں کےتراجم ہوچکے ہیں، مگر آپ یقین جانیں میں اپنا ایک بڑا دکھ بھول کر جب میں ان پروفیسروں کے چہروں کی بےبسی اور اہلکاروں کے چہروں کی سفاکی یاد کرتا ہوں تو میں جو خود کو ایک بہت بڑا محب وطن اور کھرا پاکستانی سمجھتا ہوں ، ایک لمحے کے لئے سوچتا ہوں کہ کیا مجھے اس ملک میں رہنا چاہئے جہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے، مگر یہ واہیات خیال زیادہ دیر میرے دل میں جگہ نہیں پاتا کیونکہ میں تو 1970میں امریکہ کا گرین کارڈ چھوڑ کر واپس آگیا تھا اور دوبارہ 323روپے ماہوار پر سب ایڈیٹر نوائے وقت کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگا، اگرچہ چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار نے متذکرہ ذلالت کا بروقت نوٹس لے کر پاکستانی عوام کے اس گہرے زخم پر مرہم رکھنے کی کوشش کی، مگر دلوں سے ٹیسیں اب تک اٹھ رہی ہیں۔

یہ جو ایک سانحہ گزرا ہے، یہ دراصل ایک ٹریلر ہے، اس گندے نظام کا جس میں ہم لوگ ستر سال سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ عزت دار صرف وہ جو قاتل ہے اور عدالت کے احاطے میں شہنشاہوں کی طرح چلتا پھرتا نظر آتا ہےیا وہ ارب پتی اور کھرب پتی ہیں جن کا سیاسی کلہ مضبوط ہے یا منی لانڈرر ایان جو فل میک اپ کے ساتھ شہزادیوں کی طرح نیب کی عدالت میں آتی ہے۔

کیا یہ ملک ٹیکس چوروں، چوک میں سالن کی ایک ہنڈیاسے کاروبار شروع کرنے اور اب ارب پتی بن جانے والوں سے کبھی حساب نہیں لے گا کہ تم نے آج تک ٹیکس کتنا جمع کرایا ہے، کیا کبھی بڑے بڑے پلازوں کے مالکان کا منی ٹریل کبھی نہیں ہوگا، کیا کوڑے کے ڈھیر میں سے خالی بوتلیں ، کاغذ اور اس طرح کے دوسرے ’’ذخائر‘‘ تلاش کرکے اور اسے بیچ کر ایک وقت کی روٹی کمانے والوں کے دلوں کی چیخیں کبھی کوئی سنے گا۔ اللہ کرے ہمارے عظیم اساتذہ کے ساتھ ہونے والے سلوک اہل دل کا احتجاج ایک ایسے انقلاب کی راہ پر چل پڑے جس سے میرا پاکستان، وہ پاکستان بن سکے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے