درندگی کا سفر

زیادہ پیچھے نہیں جاتے، چالیس پچاس برس پہلے کی بات کرتے ہیں، ٹی وی اُن دنوں نیا نیا آیا تھا، ٹیلی فون بھی کسی کسی گھر میں ہوا کرتا تھا، محلوں میں ویڈیو گیمز اسّی کی دہائی میں آئیں، پھر واک مین آیا، کمپیوٹر آیا، انٹرنیٹ آیا، موبائل فون آیا اور پھر دنیا ہی بدل گئی۔ آج دو برس کا بچہ بھی اسمارٹ فون سے کھیلتا ہے۔ یہ زمانہ اب وہ نہیں رہا جو کچھ دہائیاں قبل تھا، معاشرہ اب بدل چکا ہے، روایات، اقدار اور اخلاقیات بھی تبدیل ہو گئی ہیں، سائنس نے ہمارا طرز زندگی ہی نہیں بلکہ اٹھنے بیٹھے اوڑھنے بچھونے کا ڈھنگ بھی بدل ڈالا ہے۔

پہلے لوگ کسی کے گھر جانے کے لئے پتا پوچھتے تھے اور پھر ڈھونڈتے ڈھانڈتے پہنچ جاتے تھے، اب کہتے ہیں لوکیشن سینڈ کر دو اور پھر گوگل کے پیچھے پیچھے پہنچ جاتے ہیں، مگر پہنچ کر بھی گھر کی گھنٹی بجانے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ گاڑی میں بیٹھے فون کرتے ہیں کہ یہی گھر ہے یا اس سے اگلا! جہاز کی بکنگ سے لے کر برگر کی ڈیلوری تک سب کچھ آن لائن ہے، آپ کے پاس بس کریڈٹ کارڈ اور اسمارٹ فون ہونا چاہئے دنیا مٹھی میں آ جائے گی۔ لیکن میرا آج سائنس کی ترقی پر ماتم کرنے کا کوئی موڈ نہیں اور نہ ہی ماضی کی اخلاقی اقدار کا نوحہ لکھنے کا کوئی ارادہ ہے۔

آج سے لاکھوں سال پہلے جب انسانی زندگی کا آغاز ہوا تب انسان اور حیوان میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا، وہ کسی قانون ضابطے کا پابند نہیں تھا، کوئی سوسائٹی تھی اور نہ کوئی معاشرت، انسان جانور کی طرح شکار کر کے کھاتا تھا، بچے پیدا کرتا تھا، مگر اُس کی عقل چونکہ حیوانوں کے مقابلے میں بہتر تھی سو اُس نے بتدریج خود کو اُن سے الگ تھلگ کیا، اپنی بستیاں قائم کیں، کچھ اصول طے کئے، دشمنوں سے لڑنے کے لئے قبیلے بنائے، سماج کے ضابطے رائج ہو گئے اور پھر ہزاروں لاکھوں برس کے طویل سفر کے بعد انسان آج اس دور میں پہنچ چکا ہے جہاں غلامی ختم ہو چکی ہے، بادشاہت کا کوئی تصور نہیں رہا، عورت مرد کے برابر آ چکی ہے اور انسانوں کو رنگ، نسل، مذہب کی بنیاد پر برتر سمجھنے کو تقریباً جرم سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ سائنسی اور مادی ترقی کی بدولت ممکن ہوا یا انسانی عقل اور سماج کے ارتقا کی وجہ سے یہ تبدیلی آئی؟

پہلا کام یہ ہوا کہ انسان نے جانور کو پچھاڑ دیا، یہ انسان کی ترقی کا پہلا قدم تھا، جنگل کا انسان اگر جانوروں کو زیر نہ کر پاتا تو آج انسانی نسل یا تو ناپید ہوتی یا پھر جانوروں سے اپنے بچاؤ کی تدبیر ہی کر رہی ہوتی، انسانی ترقی جو آج ہم دیکھ رہے ہیں شاید اُس صورت میں ممکن نہ ہوتی، حیوان پر فتح پانے کا یہ کام انسان نے کسی سائنسی ایجاد کے زور پر نہیں بلکہ اپنی عقل کے بل بوتے پر کیا۔ دوسرا کام انسان نے یہ کیا کہ اپنے لئے کچھ اخلاقی اصول طے کر لئے، یہ کام بھی سائنس کی معجزانہ ترقی کے دور سے پہلے شروع ہوا، تاہم یہ اور بات ہے کہ یہ اصول فقط ایک سو برس پہلے تک اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ سوٹ بوٹ میں ملبوس گوری چمڑی والے بابو افریقہ سے غلاموں کو ہانک کر لے آئیں یا چند سو سال پہلے ہونے والی شادیاں تب تک نہیں ہو پاتی تھیں جب تک دلہن بادشاہ وقت کے ساتھ رات نہ گزار آئے۔

آج کی دنیا بھی اخلاقی اعتبار سے کوئی مثالی نہیں مگر بہرحال آج یہ ببانگ دہل ممکن نہیں، غلامی یوں تو ختم ہو چکی ہے مگر بلند و بالا شاپنگ مالز میں روبوٹ کی طرح کام کرنے والوں کی شکل میں آج بھی موجود ہے، لیکن یہ اتنی بدتر نہیں جتنی مصر کے بازار میں ہوا کرتی تھی جب غلاموں کی بولیاں لگتی تھیں۔ تیسرا کام انسان نے یہ کیا کہ معاشرت قائم کی، جنگل میں رہنا چونکہ ممکن نہیں تھا سو انسانوں نے اپنی بستیاں بنا لیں، رہنے کے لئے کچھ اصول بھی وضع کر لئے، یہ کام بھی سائنس کی ہوشربا ترقی سے پہلے ہو گیا۔

اسی طرح شاعری، مصوری، تعلیم، فلسفہ اور دیگر ایسے فنون میں انسان کا جُت جانا بھی اُس کے سماجی ارتقا کا باعث بنا، جنگل میں وحشیوں کی طرح گوشت کو دانتوں سے چباتا ہوا انسان اب وائلن پر دھنیں بکھیرتا ہے، شیکسپیئر کے ڈراموں سے لطف اندوز ہوتا ہے، غالب کی شاعری پر سر دھنتا ہے، رومی کے تصوف میں غرق ہو جاتا ہے، ریمبراں کی پینٹنگ دیکھ کر مبہوت ہو جاتا ہے اور افلاطون کے فلسفے کی گتھیاں سلجھاتا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ بیسویں صدی آ گئی۔ اس ایک صدی میں انسان نے ایسی جست لگائی کہ لاکھوں برس کا سفر ایک سو برس میں طے کر لیا، سماج، معاشرت، اخلاقیات، سائنس، غرض ہر میدان میں ایسی چھلانگ لگائی کہ کسی کو بھی اندازہ نہ ہو سکتا کہ تان اب کہاں جا کر ٹوٹے گی۔

گزشتہ ایک سو برس میں انسان نے سائنس میں جو ترقی کی وہ ناقابل یقین ہی نہیں ناقابل بیان بھی ہے، اس سائنسی ترقی نے انسان کی اخلاقی اقدار کو مکمل طور سے تبدیل کر دیا ہے، ہم میں سے کچھ اس تبدیلی کا ادارک اب تک نہیں کر پائے، جو کر پائے ہیں وہ اسے اپنا نہیں پائے اور جو اپنا چکے ہیں انہیں یہ اندازہ نہیں کہ کیا اپنا چکے ہیں۔ لاکھوں برس پر محیط انسانی ارتقا کا یہ سفر بہت دلچسپ ہے، یہ سفر انسان میں رحمانی اور شیطانی دونوں صفات کو عیاں کر دیتا ہے، ہر انسان میں اچھائی اور برائی کے پہلو موجود ہوتے ہیں، جب انسان جنگل میں وحشیوں کے ساتھ رہتا تھا تب اسے جنگلی جانوروں سے خطرہ تھا، اپنے بچاؤ کے لئے ضروری تھا کہ انسان جانوروں کو زیر کرتا،

اپنے دیگر دشمنوں کے بارے میں بھی اُس کی یہی حکمت عملی تھی، پتھر کے زمانے کے انسان کی جب آپس میں لڑائی ہوتی تو یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ مرنے اور مارنے والے انسان وہی ہیں جن کے ساتھ وہ رہ رہے ہیں، اپنی جان بچانے کے لئے وہ سب ایک دوسرے کو مارنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ آج کئی لاکھ برس گزرنے کے بعد بھی انسان کا یہی وحشی جذبہ ہم دیکھتے ہیں جب اُسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اُس کے اپنے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمسائے کا خون کر دیا جائے، پھر آج کا مہذب انسان اسی وحشی پن پر اتر آتا ہے، روانڈا میں یہی ہوا، کوسووو میں یہ ہوا اور سن 47کے بٹوارے میں بھی یہی ہوا۔۔۔

وہ لوگ جو برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے، ہمسائے تھے، سکھ دکھ، مرن جیون میں شریک ہوتے تھے، دھیوں کو سانجھا کہتے تھے، انہی انسانوں نے آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں اور بہو بیٹیوں کے ریپ کئے، انسان کا وہی درندہ پن سامنے آ گیا جسے اُس نے تہذیب کے لبادے میں چھپا کر رکھا تھا۔ سو سوال یہ نہیں کہ کیا سائنس کی ترقی سے ہماری معاشرت تبدیل ہوئی یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی انسان کبھی مہذب ہو سکے گا یا یونہی درندہ ہی رہے گا! ہم نے حیوان سے انسان بننے میں لاکھوں برس لگا دئیے مگر بن نہیں پائے، آج بھی ضرورت پڑنے پر ہمارے اندر کا حیوان ایک لمحے میں جاگ اٹھتا ہے، ایسے انسان کی درندگی سے خوف آتا ہے جانوروں سے نہیں۔

تصحیح:قائد اعظم اور علامہ اقبال بالترتیب 1893اور 1905میں لنکنز ان سے وابستہ تھے، گزشتہ کالم میں سہواً اِن حضرات کے تاریخ پیدائش لنکنز اِن میں داخلے کے برس سے خلط ملط ہو گئے جس سے ابہام پیدا ہوا، بعض قارئین نے اِس جانب توجہ مبذول کروائی، اُن کا شکریہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے