فقہ جعفری کی بجائے فقہ حنفی کیوں ؟

ایک دوست نے سوال اٹھایا کہ آپ فقہ جعفری کے مقابلے میں فقہ حنفی پر کیوں چلتے ہیں ۔ جبکہ حضرت امام جعفر صادق امام ابو حنیفہ کے استاد اور اہل بیت سے تعلق رکھتے ہیں پھر ان کو چھوڑ کر فقہ حنفی کی اقتداء کیسے درست ہوسکتی ہے ۔

شیعہ حضرات کے ہاں فقہ کا وجود سمجھ سے بالاتر ہے ۔ کیونکہ فقہ قیاس اور اجتہاد سے وجود میں آتی ہے جس میں غلطی کا احتمال ہوتاہے ،اسی بناء پر ائمہ مجتہدین سے اختلاف کرنے کی بھرپور گنجائش ہے لیکن اس شخص کے لئے جو اجتہا د کی اہلیت رکھتاہو ، یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام کے شاگردوں نے ان سے اختلاف کیا اور ایک امام کے بعد دوسرے امام کی گنجائش کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے ، اسی وجہ سے چار مشہور فقہی ائمہ ہیں ۔

لیکن شیعہ کے ہاں جب امام معصوم ہوتاہے تو اس کی سمجھ بوجھ سے وجود میں آنے والے مسائل و احکام کو فقہ تو نہیں دین ہی کہا جاسکتاہے جس سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دین تو ہم نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا قبول کر لیا ہے اس کے بعدکسی اور سے نہیں لے سکتے ہیں ۔ ہاں ہر دور کے حالات و و اقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے دین کی تفہیم اور بہتر طریقے سے اطلاق کی ضرورت ہے ۔

اگر ائمہ اہل بیت بھی صرف دین کی تفہیم و توضیح اور زمانی تبدیلیوں کے مطابق احکام کا استنبا ط کرتے رہے ،انہوں نے کوئی نیا دین نہیں دیا اور ان کی سمجھ سے اخذ کردہ مسائل میں غلطی کا احتمال ہے تو کسی اور امام کی گنجائش کیوں نہیں ؟ اگر اجتہادی بصیر ت ، استنباط مسائل کی صلاحیت اور فقہ کی تدوین و تنظیم میں کوئی ان سے بہتر دکھائی دیتاہے تو اس کی فقہ کو کیوں نہ لیا جائے ؟

ہم دیگر فقہوں کے مقابلے میں امام ابوحنیفہ کی فقہ کو کیوں لیتے ہیں ؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ شورائی فقہ ہے، اس کو ایک شخص نے مرتب نہیں کیا ہے بلکہ حضرت امام ابوحنیفہ کی مجلس میں اپنے زمانے کے مختلف فنون میں امام سمجھے جانے والے لوگوں میں سے چالیس لوگ تدوین فقہ میں شریک ہوتے تھے ، ہر مسئلے پر کئی کئی دن بحث و مباحثہ ہوتا تھا ۔

امام ابوحنیفہ کی رائے حتمی اور قطعی نہیں ہوتی تھی ۔ بحث مباحثے کے بعد اگر کسی متفقہ بات تک پہنچ جاتے تو اس کو لکھ لیتے تھے ، ورنہ ایک سے زائد مختلف اقوال کو ہی لکھ لیاجاتا تھا ۔ ایک ایسے شخص کی فقہ جس کی تدوین میں اپنے زمانے میں امام سمجھے جانے والے لوگو ں میں سے کم وبیش چالیس شریک ہوں ، زیادہ اولیٰ اور بہتر ہوگی یا جس فقہ میں ایک آدمی کی سمجھ پر انحصار کیا گیا ہو ۔

اس بڑی خصوصیت کے علاوہ فقہ حنفی میں توسع اور عملیت زیادہ ہے، اس میں قرآن و حدیث کی نصوص میں سے کسی ایک کی طرف میلان کی بجائے سبھی کو ملا کر نتیجہ اخذ کیا جاتاہے ، یہ عقل اور اصول دونوں کے مطابق ہوتی ہے ، اس پر عمل کرنا سہل اور آسان ہے ، یہ عالم اسلام کی سب سے پہلی مدون فقہ ہے اور سب سے زیادہ رائج ہے ۔ حضرت امام ابوحنیفہ کو اپنے دور میں انتہائی سخت اور نامساعد حالات سے گزرنا پڑا ،اس کے باوجو د آپ کی فقہ بہت تھوڑے عرصے میں ہرجگہ پھیل گئی ۔

اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ نے پیش آمدہ مسائل کے ایسے قابل عمل اور عمدہ حل تجویز کیے کہ لو گ حکومتی سطح پر آپ کی سخت مخالفت کے باوجود آپ کی فقہ کی طرف کھنچتے چلے گئے ۔ بہت تھوڑے عرصے میں آپ کی فقہ کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو کسی اور امام کی فقہ کو حاصل نہ ہوسکی ، آپ کی فقہ ایک طویل عرصہ مختلف حکومتوں میں قانون کی حیثیت سے رائج رہی اور آج بھی عالم اسلام کی سب سے بڑی فقہ ہونے کا اعزا اسی کو حاصل ہے ۔ اب ایک سہل ، مقبول،مدون ، مرتب اور عملی فقہ کو چھوڑ کر کسی اور فقہ کو کیسے لیا جا سکتاہے۔

حیرت تو ان لوگوں پر ہے جو ایک شورائی فقہ کے مقابلے میں شخصی فقہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ایک ایسی فقہ جس کا وجو د اس کے بانی کی زندگی کے بعد دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتاہے ۔ حضرت امام جعفر صادق کی فقہ کا وجود خیر القرون میں کہیں تھا ؟ بعض احادیث کی روایت میں تو ان کا نام ملتاہے لیکن فقہ جعفری کا وجود چوتھی صدی ہجر ی کے بعد اس وقت سامنے آیا جب بویہی شیعہ حکومت نے حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کرکے کچھ قوانین کو فقہ کے نام پرجاری کیا ۔

رہا استاد اور اہل بیت میں سے ہونے کا معاملہ کہ اس کی وجہ سے ان کی فقہ کو ترجیح ہونی چاہیے ۔ اول تو اس بات کا ثابت ہونا ہی محل نظر ہے کہ امام ابوحنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے کیونکہ دونوں حضرات تقریبا ہم عمر تھے اور امام ابوحنیفہ امام جعفر صادق کے والد محترم حضرت امام باقر کے دور میں بھی فقہ ، اجتہاد اور فتویٰ کی مسند پر فائز تھے ، اکثر مؤرخین نے ان کے شاگر دہونے کی تردید کی ہے ، اس کے مقابلے میں اگر کوئی ایک ، دو مؤرخین ان کی شاگردی تسلیم کر بھی لیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا ۔ لیکن اگر اس کو ثابت مان بھی لیا جائے تب بھی شاگر د ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں فقہی بصیر ت نہیں ہوسکتی ہے یا وہ مجتہد نہیں ہوسکتا ۔

اگر امام جعفر صادق نے اپنے دور کے بہترین اہل علم اور اہل بیت کے بزرگوں سے علم حاصل کیا تو امام ابوحنیفہ نے بھی حضرت عبد اللہ بن مسعو د ، حضرت علی ، حضرت عائشہ اور حضرت عمر جیسے صحابہ کرام جو کہ علم و فقہ میں دیگر سے ممتاز تھے کے شاگر دوں سے علم حاصل کیا ۔ یہاں بھی ترجیح امام ابوحنیفہ کو ہی حاصل ہوگی ، کیونکہ امام جعفر صادق کے پا س علم صرف ایک ہی راستے اور ذریعے سے آیا ۔

کیونکہ شیعہ کا اصول روایت یہی ہے کہ وہ صرف اہل بیت کی سند سے مروی روایت کو قبول کرتے ہیں اور ان کی کتابیں بھی گواہ ہیں کہ امام جعفر صادق سے مروی روایات صرف ایک ہی ایک ہی ذریعے اور واسطے سے ہیں ۔اس میں اہل بیت کے چند ایک بزرگوں کے علاوہ دیگر تمام بزرگ اور صحابہ کرام غائب ہیں ۔

امام ابو حنیفہ کی اگر بات کی جائے تو ان کے پاس اہل بیت کا علم بھی تھا اور دیگر صحابہ کا علم بھی تھا کیونکہ انہوں نے سبھی کے شاگردوں سے استفادہ کیا تھا ۔ اب زیادہ مکمل تصویر اسی کے پاس ہوگی جس نے حضور اکرم ﷺ سے علم حاصل کرنے والے شاگردوں میں سے سبھی کے شاگردوں سے علم حاصل کیا ہو۔ اس لئے اس اعتبار سے بھی ترجیح امام ابوحنیفہ کی فقہ کو ہی حاصل ہوگی ۔

امام جعفر صادق اہل بیت میں سے تھے اس لئے ان کو ترجیح ہونی چاہیے توصرف اہل بیت سے ہونا ترجیح کا باعث نہیں بن سکتاہے ، یہ اسلام کے بنیادی اصول مساوات کے خلاف ہے ، اسلام میں کسی کو رنگ ، نسل ، حسب نسب کی وجہ سے کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ۔

حضور اکرم ﷺ سے استفادہ کرنے والے لوگ ایک لاکھ چوالیس ہزار تھے ان میں سے علم و حکمت ، اجتہاد و استنباط میں باکمال شخصیات بہت سی تھیں ، ان ہستیوں کے شاگردوں اور فیض یافتہ لوگوں میں سے جن کو امتیازی مقام حاصل ہوا وہ بھی بہت سے ہیں اس لئے اسلام کو ایک نہایت تنگ دائرے میں بند کرنا اس کی عالمیت و آفاقیت کو متاثر کرنے والی بات ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے