ننھی زینب کا قاتل عمران کون تھا؟

معروف صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں ننھی زینب کے محلے روڈ کوٹ میں داخل ہوں تو گلی میں بارہ ربیع الاول پیغمبر اسلام محمد ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں کی گئی سجاوٹ آج بھی موجود ہے۔ انہی رستوں میں ننھی زینب کبھی اپنی مسکراہٹیں بکھیرا کرتی تھی،مگر اب اس سجاوٹ میں زینب کو انصاف دلانے کے لیے لگے پینا فلیکس ساراماحول اداس کررہے ہیں۔ یہ جگہ کچھ روز پہلے تک سیاستدانوں ، میڈیا ، سماجی اداروں کے نمائندوں کی آماجگاہ بن گئی تھی ۔ جب سے ننھی زینب کا مبینہ قاتل عمران علی پکڑا گیا ہے تب سے یہاں رش کم ہوگیا ہے۔ تاہم خوف اور دکھ کے سائے چھٹے نہیں۔

اسی محلے کی مرکزی گلی سے متصل ایک تنگ گلی سے ہوتے ہوئے آپ کم و بیش چھ فٹ چوڑی ایک ایسی گلی میں داخل ہوتے ہیں، جہاں پانچ مرلے کا وہ مکان ہے جہاں زینب کا مبینہ قاتل پیدا ہوا، پلا بڑھا اور پھرننھی زینب کے قتل کے الزام میں پکڑا گیا ۔ کم و بیش ڈیڑھ سوفٹ لمبی اس گلی کا ایک کونہ اس مرکزی گلی سے جڑتا ہے جہاں ایک مسجد کے سامنے ننھی زینب کا گھر واقعہ ہے جبکہ گلی کا دوسرا کونہ کوڑے کے ایک ڈھیر پر ایک دوسری مرکزی گلی پر ختم ہوتا ہے۔ جہاں تھوڑے فاصلے پر علاقے بھر کا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے ، یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں سے ننھی زینب کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

عمران علی کے دو منزلہ مکان پر تالا لگا ہوا ہے ۔ مکان کے سامنے والا حصہ کم و بیش دس سے پندرہ فٹ کا ہے۔ مکان کی دائیں جانب لکڑی کا تقریبا چھ فٹ کا مرکزی دروازہ ہے ۔ اس کے ساتھ ایک تین فٹ کی کھڑکی ہے جس پر باہر سے لکڑی کا اڑھائی فٹ کا ایک کھڑکی نما دروازہ نصب ہے اس پر بھی تالا لگا ہے ۔ دراصل یہ اس مکان کے اندر ایک چھوٹی سی دکان کی کھڑکی ہے جو عمران علی کے دادابابا رمضان اور دادی پروین بی بی چلایا کرتے تھے ۔ اس سے ذرا آگے ایک لوہے کا دروازہ ہے جسے کھولنے کے لیے اینٹوں کی بنی سیڑھی لگی ہے ۔ یہ سیٹرھی بتاتی ہے کہ اوپری منزل کے رہائشی نچلی منزل کے مقیموں سے ذرا فاصلے پر رہتے تھے۔ یہاں بھی ایک تالا لگا ہوا ہے ۔ پنجاب پولیس عمران علی کے ہمراہ اسکے گھر والوں جس میں آٹھ عورتیں اور مرد اور آٹھ چھوٹے بچے تھے کو اٹھا لے گئی تھی۔ انہیں دس دن تک مسلسل حبس بے جا میں رکھا گیا اور پھر یکم جنوری کو رہا کردیا گیا۔ اب اس گھر کے تمام مکین اہل علاقہ کے ممکنہ رد عمل کے خوف سے روپوشی کی زندگی گذاررہے ہیں۔ ننھی زینب کے غم میں لوگوں کے جذبات اس قدر غیظ وغضب کا شکار ہیں کہ کوئی بھی خاندان کے باقی افراد اور معصوم بچوں کے لیے آواز اٹھانے کو تیار نہیں ۔ کسی غیر سرکاری تنظیم نے پنجاب پولیس کی حبس بے جا کی کاروائی پر بھی کوئی آواز نہیٕں اٹھائی ۔

مکان کے دائیں جانب ایک گھر پھر گلی اور اسکے بعد ایک اور گھر واقع ہے جبکہ بائیں جانب ایک گھر پھر ایک بند گلی اور اس سے متصل ایک سرکاری پرائمری سکول ہے جہاں دیگر بچوں کے ہمراہ عمران کی دو چھوٹی بہنیں زیر تعلیم تھیں ۔ عمران کے گھر کے سامنے والی لائن میں ایک دوسری دیواروں کے ساتھ جڑے آٹھ گھر ہیں۔ جن میں کم ازکم تین گھر ایسے ہیں جو عمران کی وجہ سے مختلف نوعیت کی شکایتیں اسکے گھر لاتے رہے مگر گھر والوں نے توجہ دی نہ عمران کو اس رستے پے جانے سے روکا جسکی آخری منزل قانون کے آہنی ہاتھ تھے۔

عمران کی زندگی کی تفصیل کے بارے جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اسں خاص شہر میں پیدا ہونے والا وہ مجرم ہے جس نے ریکارڈ پر موجود مبینہ طورپرنو معصوم بچیوں کو نہ صرف جنسی درندگی کا نشانہ بنایا بلکہ ان میں سے چھ کے مبینہ قتل کا مرتکب بھی ہوا۔ عمران علی کے دادا رمضان با با کے تین بیٹے تھے، سب سے بڑا محمد ارشد جس نے سرے سے تعلیم حاصل نہ کی لیکن مستریوں کا کام کرتا تھا پھر افضل شاہین جو میڑک کے بعد زیادہ دیر تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور سب سے چھوٹا شوکت علی جس نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی ۔ عمران محمد ارشد کے گھر اٹھارہ اپریل ۱۹۹۴کو پیدا ہوا، اسطرح وہ خاندان کا پہلا بچہ تھا۔ والد محمد ارشد شروع سے ہی کھردرے مزاج کا شخص تھا جسکا اپنی بیوی سے اکثر جھگڑا رہتا تھا۔ ابتدا میں عمران علی کو ایک سرکاری سکول میں داخل کیا گیا مگر وہ وہاں چل نہ سکا۔ پولیس ذرائع کے مطابق عمران کا کہنا ہے کہ وہ شائد چھ سال کا تھا کہ جب اسکی والدہ کیطرف سے ایک قریبی خاندانی عزیز نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ شائد یہی وجہ تھی جس نے اس کے ذہن پر منفی اثرات مرتب کرنے کا آغاز کیا۔عمران کے ایک قریبی رشتہ دار نےبتایا کہ عمران کی پہلی شکایت پانچ سال کی عمر میں آئی جب گلی میں ایک بوڑھی عورت مائی چراغاں نے اسکے گھر جاکر بتایا کہ ان کا بچہ راستے سے گذرتے ہوئے اسکا دوپٹہ کھینچتا ہے۔ گھروالوں نے اس شکایت پر عمران کو سمجھایا مگر شائد سختی نہ کی۔

ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ عمران کو گھر میں پہلی بار پٹائی اس کے چچا شوکت نے چھوٹی عمر میں کی تھی جب عمران منع کرنے کے باوجود ایک پتنگ گھر لایا تھا اور چچا کو بیوقوف بنا رہا تھا کہ اس نے یہ پتنگ لوٹی ہے حالانکہ اس پتنگ کی حالت بتارہی تھی کہ وہ بالکل نئی تھی۔ اسکا چچا شوکت اس سے محبت بھی کرتا تھا کیونکہ جب خاندان کا یہ پہلا بچہ پیدا ہوا تھا تو شوکت جو اس وقت ٹائروں کی دکان پر کام کرتا تھا ، نے نہ صرف خوشی میں اپنی دیہاڑی کے پیسے ایک ساتھی کو دے دیے بلکہ اس روز سائیکلوں اور موٹرسائیکلوں کےپنکچر یہ کہہ کر مفت لگائے کہ اس کے بھائی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔

عمران کے گھر میں چونکہ والدین اکثر جھگڑتے تھے جس کی آوازیں اردگرد کے گھروں میں بھی جاتی تھیں۔ عمران کا والد اسکی جوانی کہ دہلیز پر قدم رکھتے ہی ذہنی طور پر بیمار رہنے لگا تھا، وہ چیختا چلاتا اور اکثر جھگڑا کرتا تھا۔ گھرمیں والدین کے جھگڑے اور قریبی عزیز کی طرف سے مبینہ جنسی زیادتی نے عمران علی کے ذہن میں منفی خیالات کو پروان چڑھانے کا عمل شروع کررکھا تھا اور شائد یہ تیزی سے پھل پھول رہا تھا ۔وہ سکول میں کند ذہن کے طور پر جانے جانا لگا، لہذا اسے پہلا سکول چھوڑنا پڑا۔ کچھ عرصہ بعد ایک قریبی عزیزہ کی سفارش پر یسین میموریل پبلک سکول میں داخل کرایا گیا ۔ یہاں عمران علی ایک خوش گلو طالبعلم کے طور پر نمودار ہوا۔ وہ نعتیں پڑھتا اور اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دیتا۔ سکول انتظامیہ بھی اس سے خوش تھی مگر ایک ایسا واقعہ ہوا کہ اسے اس سکول سے نکال دیا گیا ۔

جی مجھے یاد ہے عمران ہمارا طالبعلم تھا وہ بڑا اچھا نعت خوان تھا۔ وہ کلاس کےبچوں میں سب سے بڑا تھا۔ بچوں کا کھانا وغیرہ کھاجانے کی چھوٹی موٹی شکایتیں تو تھیں مگر یہ غالباً سال دوہزار نو یا دس کی بات ہے،اس نے ہمارے سکول کے باہر سائیکلوں کی دکان سے ایک سائیکل چوری کی تو ہم نے اسے سکول سے نکال دیا، سکول کے پرنسپل ماجد انصاری نے اس نمائندے کو بتایا۔ یعنی اس مرحلے پر بھی بگڑتے بچے کو روکنے کی بجائے سکول انتظامیہ نے بھی اسے چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔

عمران علی سکول سے فراغت کے بعد اپنے والد ارشد کے ہمراہ کچھ عرصہ مستریوں کے کام پر بھی گیا ،شائد یہیں سے اسے اندازہ ہوا تھا کہ زیر تعمیر مکان رات کے وقت کسی بھی جنسی کاروائی کے لیے ایک محفوظ ٹھکانہ ہو سکتے ہیں ۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہو پارہی کہ اس عمر میں بھی وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا رہا یا نہیں تاہم اسی دوران روڈ کوٹ میں ہی ایک دوسرا واقعہ پیش آیا ۔ اس بار عمران علی کو ایک لڑکی کا پیچھا کرنے پرمحلے میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔

” ہم نے پہلے عمران علی کے والد کو آگاہ کیا تھا کہ وہ میرے دوست کی بچی کے پیچھے آرہا ہے ،اسے باز کریں ورنہ نتائج اچھے نہیں ہونگے۔ بچی نے دوبارہ شکایت کی تو ہم نے سکول کی چھٹی کے بعد اسکا انتظار کیا اور جونہی وہ بچی کے پیچھے آیا ہم نے اس کی خوب پٹائی کی ، پورا محلہ اکٹھا ہوگیا ، ہم نے اتنا مارا تھآ کہ ہمارے کندھے تھک گئے تھے” علاقے کے مکین محمد امین نے یاد کرتے ہوئے بتایا ۔ عمران گھر آیا مگر شائد اس کی والدہ اور گھر والوں نے اس عمل پر بھی اسے کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی ۔ سال2011 میں اسی دوران اس نے اپنی ہی ایک پڑوسن لڑکی کوتنگ کیا ۔ اس لڑکی نے مزاحمت کی تو عمران نے اسکا گلا دبانے کی کوشش کی ۔ یہ اس کی طرف سے ریکارڈ پر موجود کسی بھی بچی کا گلا دبانے کی پہلی کوشش تھی۔

” میں نے گھر میں اپنی بیٹی کی گردن کے نشان دیکھے تو مجھے بہت غصہ آیا ، میری بیوی نے مجھے فون کرکے بلایا تھا اور بتایا تھا کہ کس طرح عمران نے بیٹی کو چھیڑا تھا۔ میں باہر چلا گیا اور عمران کو بلا کر اس کو تھپڑ لگائے ،اس کے والد سے تلخی بھی ہوئی ، پھر ہم نے ان سے بول چال ہی چھوڑ دی ، یہ چھ سال پہلے کی بات ہے ، پڑوسی “ن” نے بتایا۔ یہ چھ سال قبل کا واقعہ ہے جب عمران صرف سترہ سال کا تھا۔

عمران علی کی طرف سے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق جس قریبی رشتہ دار نے اسے بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اسکی والدہ اور اس کی بیٹی دونوں سے عمران نے مبینہ طورپر جنسی تعلقات قائم کرلیے تھے شائد یہ اسکی طرف سے بدلے کا ایک انداز تھا۔ عمران کے پولیس کو دیے گئے مبینہ بیان کے مطابق خاندان کی دیگر دو بڑی عمر کی خواتین سے عمران نے مبینہ جنسی تعلقات قائم کرلیے تھے تاہم یہ علم نہیں ہوسکا کہ عمر سے بڑی ان خواتین سے جنسی تعلقات عمران نے خود قائم کیے تھے یا مذکورہ خواتین خود اس کو لبھا لے گئیں۔ پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران تھانہ صدر کے علاقے میں ایک رسولاں نامی خاتون کے قحبہ خانے بھی جانے لگا تھا۔

عمران کی تین بہنیں تھیں جن میں سب سے بڑی کی شادی ہوچکی ہے ، باقی دو اسی گلی میں واقع پرائمری سکول کی طالبات ہیں۔ اسکے دوبھائی بھی ہیں جو مقامی سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ عمران کے قریبی عزیزوں کا بتانا ہے کہ وہ اپنی بہنوں اور بھائیوں سب کے ساتھ لڑتا جھگڑتا اور ان سے ان کا کھانا چھین کر کھانے کا عادی تھا۔ ۔ مگر اب گھر کے تمام بچے عمران کی وجہ سے ایک اور مصیبت کا شکار ہیں کہ وہ اپنے ہی گھر اور سکول واپس نہیں جاسکتے۔ اس حادثے کے باعث ان بچوں میں سے دو بچے پانچویں اور ایک آٹھویں کے بورڈ کے امتحانات نہیں دے سکے ۔

جب عمران کم و بیش بیس سال کی عمر تک پہنچا تو پانچ مرلے کے اس گھر میں رہنے والوں کی تعداد بائیس ہوچکی تھی یعنی دادا دادی کے علاوہ عمران کے والد محمد ارشد والدہ سلمیٰ بی بی ، اور ان کےسات بچے ، چچا افضل شاہین اسکی اہلیہ شمشاد بیگم انکے پانچ بچے اور سب سے چھوٹے چچا شوکت ان کی اہلیہ کلثوم بی بی اور ان کے دو بچے سب ملا کر بائیس ہو گئے۔ گھر میں چچاؤں کے ساتھ بھی عمران علی کے اہل خانہ کے تعلقات اچھے نہ تھے۔

ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ چند سال قبل عمران اپنے گھر سے بڑے چچا افضل شاہین کے تین سالہ بیٹے فیضان کے ہمراہ گھر سے نکلا تو راستے میں فیضان ایک گندے نالے میں جاگرا ۔ اس نے عمران علی کو جان بچانے کے لیے آوازیں دیں مگر اس نے اسکی جان بچائی نہ مدد کے لیے لگائی جانے والی آوازوں پر دھیان دیا لیکن قریب ہی ایک چھت سے ایک عورت نے بچے کو نالے میں گرتے دیکھ کرریسکیو ون ون ٹو ٹو پر کال کی اور بچے کو بچالیا گیا ۔ چچا افضل اور اسکی اہلیہ کا شک تھا کہ بچے کو عمران نے جان بوجھ کر دھکا دیا تھا ۔ گھر میں اس واقعے پر تلخی ہوئی مگر دادی نے بیچ بچاو کرادیا۔

عمران علی نے پیسے کمانے کے لیے اپنے گلے کا استعمال مسجد مدینہ بریلوی میں کرنا شروع کیا ،وہ اسٹیج سیکرٹری بھی تھا اور نعت خواں بھی۔ علاقے کے لوگ اس کی آواز پر خوش ہوکر پیسے پھینکتے اور اچھا کھانا بھی فراہم کرتے ۔ وہ پیٹ کی آگ بجھانے لگا جبکہ جنسی آسودگی کے لیے مبینہ طو رپرقحبہ خانہ کو استعمال کرتا۔ اب تک وہ تھانے نہیں گیا تھا تاہم جب اس نے محلے کی ہی ایک اور خاتون مسز ارشد کی بیٹی کو تنگ کیا تو اس نے پولیس میں شکایت کردی ۔مسزا رشد کہتی ہیں کہ میں اس کے خلاف پولیس کے پاس گئی تھی لیکن مقامی پولیس نے دباؤ ڈالا اور مجھے صلح کرنا پڑی ۔ اسکا کہنا تھا کہ عمران کے دادا ،دادی نے بھی معذرت کی تھی جس سے معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ معاملہ یہاں نہیں رکا ، عمران کو پتہ چل چکا تھا کہ بالی عمر کی لڑکیاں گھروں میں شکایت لگا دیتی ہیں۔ عمران نے مبینہ طور پرراولپنڈی کی ایک شادی شدہ خاتون سے بھی مراسم بنائے اور وہ اپنا گھر چھوڑ کر اسکے گھر روڈ کوٹ آئی۔ جسے وآپس کیا گیا تاہم جب عمران اس خاتون کو وآپس راولپنڈی لے کر گیا تو تھانہ بنی میں ایک دن گرفتار بھی رہا۔ یہ شائد اس کی پولیس کے سامنے دوسری حاضری تھی ۔ عمران علی کے خلاف شکایات پر مبینہ طور پر اسکی والدہ اور دادی اسکو تحفظ فراہم کرتیں مگرمعاملہ تیزی سے بگڑ رہا تھا۔ جبکہ سب خوفناک نتائج سے لاعلم تھے۔

کم و بیش تین سال پہلے عمران علی کی جنسی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ وہ پانچ سال پہلےعلاقے کے ہی ایک نامورنقیب حافظ سہیل سے مل چکا تھا ۔ پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق حافظ سہیل اس کا استاد تھا، وہ استاد کے لیے قحبہ خانے سے لڑکیاں لے کر اسکی بیٹھک میں جاتا تھا اور مبینہ طور پر ان لڑکیوں کو وہ اسکا استاد اور چند دیگر لڑکے جنسی طور پراستعمال کرتے تھے۔ ذرائع نے بتایا ہےکہ عمران کا کہنا ہے کہ حافظ سہیل نے مبینہ طور پر اسکی ایک خاتون کے ساتھ جنسی عمل کی ایک ویڈیو بھی بنا رکھی تھی جس پر اسکا استاد اسے بلیک میل بھی کیا کرتا تھا۔ عمران کا پولیس حکام کو بتانا ہے کہ تین چارسال پہلے ایک بار اس کے استاد نے اسے بچوں سے جنسی لذت کے بارے آگاہ کیا اور یہی وہ وقت تھا جب اسے یہ تصور بڑا بھایا۔

جن دنوں عمران اپنے استادحافظ سہیل سے بچوں سے جنسی لذت کے تصور کی بات کرتا ہے یہ وہ دورانیہ ہے کہ جب قصور میں بچوں کی عریاں تصاویر کا سکینڈل عام ہوا تھا اورریکارڈ کے مطابق سال دوہزار چودہ میں بچوں کی عریاں ویڈیو لیک ہوئی تھی، جس کے بعد جولائی دوہزار پندرہ تک قصور میں عریاں ویڈیوز اور تصاویر کے آٹھ مقدمات درج کیے گِئے تھے ۔بعدازاں ان کیسز کی تعداد اکتیس ہوگئی تھی جن میں سے بچوں کی عریاں ویڈیوز کے تئیس کیسز تھے۔ اس سکینڈل نے پورے ملک کو قصور کی جانب مبذول کروایا تھا اور قصور سےکچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں ۔

عمران علی کا استاد حافظ سہیل ایک چھتیس سال کا غیر شادی شدہ شخص ہے جو ان الزامات کی تردید کرتا ہےاور کہتا ہے کہ وہ عمران علی کو شروع سے ہی نا پسند کرتا ہے کیونکہ وہ نعتوں کے دوران پھینکے جانے والےپیسے اٹھا لیا کرتا تھا۔ حافظ سہیل سے ملاقات کے دوران اس نے بتایا کہ وہ ایک معزز نابینا استاد نعمت علی چشتی کا شاگرد ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ نعمت علی چشتی بھی عمر رسیدہ مگر غیر شادہ شدہ ہیں۔ حافظ سہیل ،نعمت علی چشتی کے شاگرد اور عمران حافظ سہیل کا شاگرد ہے تینوں میں دو باتیں مشترک ہیں تینوں بلھے شاہ کے ماننے والے اور تینوں بلھے شاہ کی طرح غیر شادی شدہ ہیں۔حافظ سہیل بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملزم عمران علی بابابلھے شاہ کا ماننے والا تھااور ان کے عرس پر جایا کرتا تھا۔ حافظ سہیل کہتے ہیں کہ بابا بلھے شاہ کے عرس کے موقع پر ایک بار عمران علی کو نعتوں کے دوران پھینکے جانے والے پیسے اٹھانے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔

حافظ سہیل کی طرف سے کم عمر بچوں سے جنسی لذت کا مبینہ تصورتین اعتبار سے عمران علی کے لیے قابل تقلید تھا۔ اول یہ کہ قصور جیسے علاقے میں چھوٹے بچوں کو پھسلانا آسان تھا، دوئم یہ کہ چھوٹے بچوں پرقحبہ خانے کی عورتوں کی طرح پیسے خرچ نہیں ہوتے اور سوئم یہ کہ وہ عام طور پر گھر شکایت بھی نہیں لگاتے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران علی نے زینب کے اغوا کے بعد حافظ سہیل کو فون بھی کیے لیکن جب اس بارے میں اس نمائندے نے حافظ سہیل سے دریافت کیا تو انہوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی ۔ جب انہیں بتایا گیا کہ اس بارے میں فون کال ریکارڈ بھی موجود ہے تو حافظ سہیل نے کہا کہ جب وہ مختلف پروگرامز میں ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ اس مصروفیت کے دوران عمران علی کے فون آئے ہوں اور میرے کسی شاگرد نے یا میں نے خود فون اٹھا کر اسے بتایا ہو کہ میں مصروف ہوں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حافظ سہیل کو فون کے انہی رابطوں پر پولیس نے حراست میں لیا تھا، تاہم یہ زینب کا خاندان تھا جس نے پولیس کو کہہ کر حافظ سہیل کو رہا کروایا۔ اب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم حافظ سہیل سے پوچھ گچھ ضرور کررہی ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ حافظ سہیل کی عمران علی سے کسی محفل میں ملاقات اور اس میں جنسیات کے متعلق غیرذمہ دارانہ گفتگو کا امکان موجود ہے تاہم اس بات کا کوئی ثبوت یا اشارہ موجود نہیں کہ مجرم عمران علی اپنی کسی کارروائی کے بارے اپنے مبینہ استاد کو آگاہ رکھتا تھا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ اس بات کا اعتراف خود عمران نے پولیس کے سامنے بھی کیا ہے ۔

عمران نے حافظ سہیل سے ایک اور بات بھی منسوب کی کہ حافظ سہیل نے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ جو شخص بھی بچیوں کے ساتھ زیادتی کررہا ہے وہ بہت بڑی غلطی کررہا ہے ۔ اس پر عمران نے مبینہ طورپر اس سے پوچھا کہ وہ غلطی کیا ہے تو حافظ سہیل نے کچھ لڑکوں کی موجودگی میں بتایا کہ ملزم کونڈم کا استعمال نہیں کررہا ۔ حافظ سہیل اس ساری گفتگو کو بھی لغو قرار دیتے اور تردید کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات واضع نظر آتی ہے کہ حافظ سہیل کا نو بچیوں میں سے کسی ایک سے بھی زیادتی یا قتل سے تعلق ہے نہ وہ اس بارے کچھ جانتا ہے ۔ البتہ حافظ سہیل عمران علی سے تعلق کی وجہ سے پشیمانی اور پریشانی کا شکارضرور نظر آتا ہے۔

اوپر ذکر کی گئی تین وجوہات کے پس منظر میں عمران علی نے مبینہ طور پر تئیس جون کو تھانہ صدر کی رہائشی سات سالہ بچی عاصمہ کو چاول اور پیسوں کی تقسیم کا لالچ دے کر بہلایا اور اس سے زیادتی کرکے اسے ایک زیر تعمیر عمارت میں چھوڑ کے بھا گ گیا ۔ عاصمہ کے بعد نو ماہ تیرہ دن کے بعد تہمینہ کونشانہ بنایا۔ عاصمہ اور تہمینہ دونوں بچ گئیں۔ مگر تہمینہ آج بھی لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں کوما کی حالت میں ہے جسے اسکے کے والدین دیکھ رہے ہیں۔ تہمینہ کے واقعے کے ٹھیک تیس دن بعد چار مئی دوہزار سولہ کوثنا ، عمران علی کا شکار بنی اسکی لاش ایک زیر تعمیر مکان سے ملی ۔ نوماہ چار دن کے بعد عائشہ آصف کو مبینہ طور پر بہلایا گیا اور اسکی لاش بھی ایک زیر تعمیر گھر میں چھوڑدی گئی۔ عائشہ کے سولہ دن بعد چوبیس فروری دوہزار سترہ کو ایمان فاطمہ کو نشانہ بنایا گیا اسکی لاش بھی زیرتعمیر عمارت سے ملی ۔ ایمان فاطمہ کے بعد نور فاطمہ کو پندرہ روز کے بعد گیارہ اپریل کو ، تین ماہ بیس روز کے بعد آٹھ جولائی دوہزار سترہ کو لائبہ کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا اسکی لاش بھی زیر تعمیر عمارت سے ملی، چار ماہ تئیس دن بعد بارہ نومبر دوہزار سترہ کوکائنات بتول اور ایک ماہ بائیس روز بعد زینب کوغاِئب کردیا گیا ۔ مذکورہ بالا متاثرہ بچیوں کی تصدیق ڈی این اے کی بدولت ہوئی ۔عمران علی کی مبینہ ہوس کا شکار بچیوں میں سے صرف تین بچیاں زندہ بچی ہیں جن میں سے ایک لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں کومے کی حالت میں ہے۔

اس کیس میں پنجاب پولیس کی روایتی غیر ذمہ داری بھی جگہ جگہ واضح نظر آتی ہے ۔ اول یہ کہ عمران کے خلاف شکایت کرنے والی واحد خاتون مسز ارشد کو دباؤ ڈال کر صلح پر مجبور کیا گیا ، دوئم تھانہ صدر کے علاقے میں قحبہ خانوں کی مبینہ اجازت اور سوئم بچیوں کے زیادتی کے کیس میں بے گناہ افراد کی گرفتاری جسکے ثبوت کے طور پر طاسین نامی شخص کی مقتولہ بیٹی ایمان فاطمہ کا کیس ہے جس میں ایک مقامی شخص مدثر کو بظاہر تشدد کرکے جرم کا اقرار کروایا گیا اور پھر اسے جعلی پولیس مقابلے میں مارڈالا گیا۔ پنجاب پولیس کی اسی غیر ذمہ داری کے باعث طاسین اور ایک اور بچی عائشہ آصف کے والد محمد آصف پولیس کے دعوؤں اور عمران کے پولیس کے سامنے بیان پر مکمل اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ تمام کے تمام واقعات قصور کے تین تھانوں تھانہ صدر، تھانہ اے ڈویژن اور تھانہ بی ڈویژن کی تقریباً آڑھائی کلومیٹر کی پٹی سے ملیں۔ تمام واقعات میں بچیوں کو منتخب کیا گیا صرف تین بچیوں عاصمہ ، تہمینہ اور کائنات بتول کی جان بچ سکی ۔ جو لواحقین زیرحراست عمران سے ملے ہیں تمام کا کہنا ہے کہ ملزم سے براہ راست سوالات کے دوران اس کا کہنا تھا کہ اس نے بچیوں کو پیسوں اور روپوں کا لالچ دے کر پھسلایا ۔ کائنات کے کیس میں اسے عمرے پر گئےماں باپ سے ملاقات کاجھانسا بھی دیا گیا ۔

زینب کا اغوا چار جنوری کو ہوا تو شہربھر میں اسکی تلاش جاری تھی لیکن ملزم عمران کی گلی سے ملحق ایک گلی میں زینب کے قریبی عزیز حاجی رؤوف کو عمران پر شک تھا ۔ ان کے اس شک کوتقویت ملزم کی گلی میں موجود ایک متنازع پلاٹ پر رہائشی شریفاں بی بی نے کی ۔ شریفاں بی بی ایک غریب بیوہ خاتون ہے جو چھوٹے موٹے کام کرکے اپنا گذربسر کرتی ہے ۔ پچھلے سال نومبر کے مہینے میں ملزم عمران نے گلی میں اسکا راستہ بھی روکا تھا جس پر شریفاں بی بی نے اسکی بے عزتی کی تھی ۔ تاہم زینب کی گمشدگی کے چندروز بعد ملزم دو راتوں کو مسلسل اسکے پلاٹ کے سامنے کوڑے کے ڈھیر سے اندھیرے میں گذرا۔ شریفاں بی بی نے جب اسے دیکھا تو وہ کچھ اسطرح سے اپنے پیچھے گلی کا جائزہ لے رہا تھا جیسے اسے کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔ عمران کا انداز بتارہا تھا کہ وہ پریشانی اور عجلت میں ہے ، مجھے اس پر شک ہوا لیکن جب حاجی رؤوف نے مجھے ملزم کی ویڈیو دکھائی تو مجھے یقین ہوگیا ۔ شریفاں بی بی نے پنجابی زبانی میں مجھے بتایا۔ اس واقعے کےبعد ملزم عمران کو حاجی شریف نے تھانہ چونیاں کے کانسٹیبل منظور کے ذریعے گرفتار کروایا مگر پہلی رات ہی ملزم عمران نے حوالات میں دورہ پڑنے کا ڈرامہ کیا جس کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا تاہم ملزم پر شک بدستور جاری رہا۔

ایسانہیں تھا کہ ملزم کے گھر میں سب معمول کے مطابق چل رہا تھا ۔ صرف بیس روز قبل ہی ملزم کے والد ارشد کی وفات ہوئی تھی ۔ گھر میں زینب کےاغوا کے بعد جب ملزم عمران کا چچا شوکت وہ ویڈیو لایا جسے دیکھتے ہی اس نے عمران پر شک کیا اور کہا کہ عمران تم اس شخص سے ملتے ہو اور جیکٹ بھی وہی پہن رکھی ہے ۔ اس پر عمران نے چچا کو کہا کہ نہیں یہ بچی تو چار جنوری کوگم ہوئی اور میں نے جیکٹ پانچ جنوری کو خریدی ۔ تاہم اس واقعے کے بعد عمران نے یہ جیکٹ پہننا چھوڑ دی ۔ چچا نے گھر میں سب کی موجودگی میں ازراہ مذاق عمران سے کہا کہ اگر تم واقعی مجرم ہو تو ہمیں بتا دو، تم نے پکڑے تو جانا ہے لیکن تمہیں گرفتار کروا کر ہم انعام کی رقم لے لیں اور ہماری غربت کے حالات دور ہوجائیں۔ اس پر عمران کی والدہ نے بات ادھر ادھر کردی ۔

عمران کا ڈی این اے کروانے کے لیے عمران کے چچا نے بنیادی کردار ادا کیا اور ملزم پکڑا گیا ۔ سچ یہ ہے کہ ملزم عمران کی گرفتاری حاجی رؤوف ،شریفاں بی بی اور ملزم عمران کے چچا شوکت کی وجہ سے عمل میں آئی ۔ یہ تین کردار اگر اپنا اپنا رول ادا نہ کرتے تو عمران قانون کے ہاتھوں صاف بچ چکا تھا۔ ملزم کی گرفتاری کے انعام کےاصل حقدار بھی یہی تینوں کردار ہیں نہ کہ پنجاب پولیس ۔

عمران کی زندگی اور اسکی زندگی میں تشدد و جنسیت جس طرح شامل ہوئی وہ بچوں کے والدین کے لیے ایک سٹڈی سے کم نہیں کہ کس طرح بچوں کو جنسیات کے بنیادی اصولوں کے بارے آگاہ کرنا چاہیے اور انہیں لالچ اور بہلاوے سے کسطرح روکا جائے ۔ ساتھ ہی ساتھ صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں ہم جنسیت بالخصوص بچوں کی عریاں تصاویر کے معاملے پر بھی حکومت کی طرف سے خصوصی توجہ دینے کی ضروت ہے کہ وہ اسکی وجوہات جانے اور اسکا سدباب کرئے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے