پاکستانی پارلیمنٹ ، ڈبو ابو کو بلاؤ

سب سے پہلے تو میں آپ سب قارئین سے انتہائی معذرت چاہتا ہوں کہ مجھے اپنے کالم کا ایسا عنوان رکھنا پڑا۔

آج پورے دو مہینے ہو چکے ہیں محترم عمران صاحب کی تبدیلی کی حکومت کو لیکن جس تبدیلی کی خواہاں ہماری عوام تھی وہ ابھی بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔اس تبدیلی کا راستہ وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے ذریعے چنا تھا ۔

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے تقریباً ہر روز سوشل میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پرایک سے ایک الزام اور تقاریر کا شوشہ اٹھتا ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا دوسرا اجلاس شروع ہوتا ہے۔ پھر سے نئے الزامات، تقاریر اور جوابی الزامات، تقاریر کی دھوم مچ جاتی ہے۔

کیا عمران خان نے اس لیے پارلیمنٹ کے راستے کو تبدیلی کے لیے چنا تھا۔کیا یہی طوفان بدتمیزی اپنی سیاسی جہدوجہد سے سیکھ کر ہمارے ووٹ سے چنے ہوئے ممبران پارلیمنٹ میں آئے ہیں۔

پوری دنیا کے پارلیمنٹرین پارلیمنٹ میں سوال و جواب کا ایک سلسلہ شروع کرتے ہیں اور ان کے سوال و جواب میں قوم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سوچ کا ایک دروازہ کھولا جاتا ہے جس سے گزر کر ملک و عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین وسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔کیا پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایسا آج تک ہوا ہے۔ ماسوائے ذولفقار علی بھٹو کی پارلیمنٹ کے جس نے پاکستان کو نیا آئین دیا۔

آج پاکستان کی وفاقی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ایسا طوفان بدتمیزی اور الزامات کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے جس کے اثرات پوری قوم پر مرتب ہو رہے ہیں۔ہمارے معاشرے میں عدم مساوات کا ناسور تو پہلے سے ہی موجود ہے اور اب عدم برداشت بھی ایسی ہے کہ عوامی مقامات پر لکھنا پڑتا ہے کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔

اسوقت ہمارے چنے ہوئے رہنما اسمبلیوں میں جا کر ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لیے مل بیٹھ کر کوئی پالیسی بنانے کے بجائے اپنے لیڈرز کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کی پوری توجہ ایسی تقاریر کرنے میں ہوتی ہے جس سے ان کے پارٹی سربراہ خوش ہو سکیں۔کیا ایسی پارلیمنٹ سے پاکستانی قوم تبدیلی کی آس رکھ سکتی ہے؟

اکیلا وزیراعظم عمران خان تبدیلی نہیں لا سکتا اس کے لیے وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے حکومتی اور غیر حکومتی اراکین کو مل بیٹھ کر ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مشاورت کرنی ہو گی اور الزامات کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔۔اس کی ابتدا خود وزیراعظم عمران خان صاحب کو کرنی ہو گی۔

وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایسی جامع پالیسی بیان کریں جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں اتفاق و اتحاد کا ایسا نظارہ نظر آئے کہ پوری قوم یک جان ہو کر ملک پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اکھٹی ہو جائے تو یہی اصل تبدیلی ہو گی۔

اسوقت جو بھی ادارے کرپشن کے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں ان میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور جب تمام اراکین پارلیمنٹ اتفاق سے کرپشن کے خلاف ہوں گے تو ادارے مضبوط بھی ہوں گئے اور اپنا کام آسانی سے سرانجام بھی دے سکیں گئے۔

پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران ایسے قانون اور شرائط عائد ہونی چاہیے کہ اس سے کسی کی بھی ممبر کی تحضیک نہ ہو سکے اور اگر کوئی ممبر اس کا مرتکب ہو تو درجہ بہ درجہ سزا بھی ہونی چاہیے۔جس کی مثال کرکٹ،ہاکی،فٹبال،حتی کہ ریسلنگ اور باکسنگ جیسے کے کھیلوں میں بھی موجود ہے۔سپیکر کی رولنگ کا احترام ہونا چاہیے۔ ممبران پارلیمنٹ کو چاہیے سکول کلاس میں ٹیچر کی موجودگی میں جو ڈسپلن قائم ہوتا ہے اسی طرح کے ڈسپلن کا مظاہرہ پارلیمنٹ میں بھی کیا کریں۔

مشہور شاعر طاہر فراز کا شعر ہے۔

مجھ کو تنقید بھلی لگتی ہے
آپ تو حد سے گزر جاتے ہیں۔

اسی طرح سوشل میڈیا،الکٹرنک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر بھی ایسے قوانین کا اطلاق کیا جائے جس میں تنقید تو ضرور کی جائے لیکن کسی بھی پارٹی سربراہ یا شخصیت کی تحضیک کرنا ممکن نا ہو سکے اور اگر کوئی اس تحضیک کا مرتکب پایا جائے تو اسے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنایا جائے۔

اس کالم کے عنوان میں جو الفاظ ڈبو ابو کو بلاؤ ایک وزیراعظم اور وزیر کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اور پارلیمنٹ کی کارروائی سے حذف بھی نہیں کئے گئے ہیں ۔کیا یہی تبدیلی ہے؟ یہی ممبران پاکستان کے قانون کو عوام کے لئے بناتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں موجود ممبران اگر ایک دوسرے پر ایسے جملے استعمال کریں گے تو قوم بھی ایسا ہی رویہ اپنایا گی۔موجودہ ممبران پارلیمنٹ قوم وملت کی کیسی تربیت کر رہے ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے