برطانیہ یاترا،مسئلہ کشمیراور ایجنٹوکریسی

کہتے ہیں کہ کسی بارڈر پر دو متحارب لیکن حالت امن میں خیمہ زن فوج کے ایک سپاہی کی شادی ہوگئی ، چھٹی ختم ہونے پر اسے واپس آنا پڑالیکن اس کا پلٹن میں دل نہیں لگ رہا تھا تو اس نے اپنے کمپنی کمانڈر سے دوبارہ چھٹی مانگ لی، کمانڈر بولا کوئی کارنامہ سر انجام دو تو تب چھٹی ملے گی.

صبح صبح کا وقت تھا کمپنی کمانڈر کیا دیکھتا ہے کہ سپاہی دشمن فوج کی ایک توپ گھسیٹتا ہوا کیمپ میں داخل ہو رہاہے ، قریب آنے پر اس نے سیلوٹ کیا اور کہا ” سر دشمن کا اسلحہ لے آیا ہوں ، اب اس کارنامے پر تو چھٹی بنتی ہے ” کمپنی کمانڈر نے اسے چھٹی بھیج دیا.

وہ سپاہی دو دن بعد واپس آیا توایک بارپھر چھٹی کی طلب نے دشمن کا ٹینک کمپنی کمانڈر کے سامنے لا کھڑا کردیا، کمپنی کمانڈر کو حیرت ہوئی کیسے یہ اسلحہ چھین لاتے ہو تم ؟ سوال کرنے پر سپاہی بولا سر! جب اُن کوچھٹی ضرورت ہوتی تو ہم اُن کے کام آتے ہیں وہ ہمارے کام نہیں آئیں گے تو خود چھٹی کیسے جائیں گے ؟

یہ مثال مجھے دورہ برطانیہ کے دوران پاکستانی اور بھارتی سفارت خانوں کے افراد کی سرگرمیوں سے یاد آئی ، ہمارے سادہ لوح سمندر پار کشمیری جڑواں بھائیوں(پاکستان اور بھارت) کی مسابقت کا شکارہوکر اندھا دھند بے سمت بھاگتے محسوس ہو رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ مسلہ کشمیر کے حل کے لئے دنیا بھر میں کام کرنے والوں کا ایک ہجوم موجود ہے، کوئی جگہ ایسی نہیں کہ وہاں پر کوئی پاکستانی کشمیری یا ان کی مخالفت میں کوئی بھارتی یا بھارتی کشمیری دستیاب نہ ہو.

یورپ کے اپنے تازہ دورہ کے دوران مسئلہ کشمیر پر مختلف خیالات اور نظریات کے حامل کئی افراد سے ملاقاتیں اورتفصیلی بحث مباحثہ کا موقع میسر آیا اور خطہ سے باہر نکل کر مسئلہ کشمیر کو سمجھنے میں مدد ملی، اگر مختصرلفظوں میں بیان کیا جائے تو دو حرفی بات صرف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر نام کا کوئی مسئلہ صرف ہمارے ہاں ہی پایا جاتا ہے، باقی دنیا میں مسئلہ کشمیر نام کا ایک کاروبار ہے ، جس میں کچھ لوگ منافع کما رہے ہیں اور کچھ لوگ بے چارے لاعلمی میں روز بکتے ہیں اور روز دکاندار ان کو خریدتے ہیں ، دکاندار کبھی بھارتی سفارت خانہ ہوتا ہے اور کبھی اِن کا اپنا ہی بڑا بھائی پاکستان اور حیران کن بات یہ ہے کہ سفارت خانے میں بھی جو خرید وفروخت ہوتی ہے اس میں بھی پاکستانی یا بھارتی کسی ادارے یا حکومت کا کوئی کردار کم ہی ہوتا ہے یہ وارداتِ خرید و فروخت سرکاری ملازم کہیں تو اپنی کھال بچانے کے لئے کرتے ہیں اور کہیں پاونڈز اور ڈالر بچانے کے لئے کرتےہیں، یوں جموں کشمیر ریاست کی ہر دو جانب ریاستی خواص و عوام کا بازارِ مصر سجا ہے.

برطانوی سیاست کی ایک معزز رہنما نے مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ کھانا بہت اچھا کھلاتے ہو، یہ رہنما حال ہی میں سمندر پار کشمیری رہنما وں کی سر کردگی میں آزاد کشمیر کے دورے سے واپس آئے تھے ، اپنے کھانوں اور مہمان نوازی کی تعریف پر خوشی تو بہت ہوئی لیکن یکدم احساس ہوا کہ موصوف کی طرح کے بہت سے صاحبان اثر و رسوخ کو ہمارے دوہری شہریت کے حامل احباب آزاد کشمیر میں لے جاتے رہے ، دوہری شہریت کے حامل ان احباب نے شاید کبھی اس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ مدلل لابنگ کے بغیر صرف کھانا ” وازوان ” سفارتی فوائد کے نتائج کا سبب نہیں بن سکتا.

یہی وجہ ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی بھیانک خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کو انسانی حقوق کمشن میں معتبر بنانے کے لئے 193 میں سے 188 ووٹ ملے ، اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی حالانکہ ہم نے وزرات خارجہ کے ایک حاضر سروس ملازم کو خلاف قواعد اس کی سبکدوشی کے دوسال بعد کا(قانونی) انتظار کیے بغیر اپنا صدر بھی تسلیم کرلیا اور انہوں نے دنیا کو پورا مطالعہ پاکستان بھی پڑھادیا مگر مجال ہے کہ کسی پر کوئی اثر ہوا ہو۔ حتٰی کہ اقوام متحدہ میں ایک فلسطینی خاتون کی تصویر کا کشمیری ورژن لہرانے کے باوجود ہم بے اعتباروں کو کشمیر میں ظلم و استبداد کا یقین ہی نہیں دلا پائے کہ کشمیر میں پیلٹ گنز پر پابندی لگوانے کی تحریک ہی شروع کردیں

خود پاکستان کی یہ حالت ہے کہ کوئی بھی آزاد ذریعہ ابلاغ نہیں جو بہ زبان انگریزی کشمیر پر موقف کو دنیا تک پہنچائے ، آخر دنیا سرکاری ٹی وی کے پروپیگنڈا کو کیوں نہ جانب دار سمجھے جبکہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں متحارب فوج کا جرنیل بھی براجمان ہو،دوسری طرف پاکستان کے اندرمصنوعی حُب الوطنی کی ایک غیر ضروری اور کنفیوژڈ مہم کے نام پر زبان بندیوں کا دور دورہ ہے ، آزادی رائے کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سات سال کی پاکستان کی قومی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو 90 فیصد بڑی خبریں مین اسٹریم میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا نے بریک کیں، جن پر بعد میں مین اسٹریم میڈیا نے نوٹس لیا. اب تو سیلف سنسر شپ معمول بن چکی ہے اورصحافت کے سر پر کہیں غداری کی تلوار لٹک رہی ہے تو کہیں توہین مذھب کی۔

عام آدمی کے لیے سوچ کے دائروں کو اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ گھر میں جو سوچ اور گفتگو ہوتی ہے وہ باہر نہیں ہو سکتی. جو اپنے دفتریا حلقہ احباب میں بات کی جاتی ہی اس بات کو دکان یا بازار میں کرتے ہوئے لوگ اتنا گول مول کردیتے ہیں کہ اس سوچ کی گول مول حقیقت ہاتھوں سے پھسل پھسل جاتی ہے۔

ایسے میں مسئلہ کشمیر کشمیریوں کے مصائب اور آلام کی عکاسی کرتے پینا فلیکس لگا کرجمع کیےجانے والے چندے سے یورپی پارلیمنٹ کے ممبرز کو کھانا کھلا کر جو لابنگ ہوتی ہے اس کا نتیجہ بھارت کے حق 188 ووٹ کی صورت ہی نکلتا ہے۔

دنیا میں جمہوریت شہری آزادیوں اورانصاف ومساوات کے نام پر حکومتیں قائم ہیں . عوام اپنے سیاسی لیڈرز کی عزت و احترام کرتے ہیں ، ادارے اپنے عمل سے اپنا اعتماد اور احترام پیدا کرتے ہیں جبکہ پاکستان کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ، ایسے میں کون ہم پر اعتماد کرے گا؟

ریاست جموں کشمیر پاکستان بنے ، بھارت بنے یا خود مختار بنے ، اس کا فیصلہ مسئلہ کے اصل فریق کشمیریوں نے کرنا ہے ، وہ بھی جمہوری اصولوں کے تحت لیکن اس وقت تک دنیا کو یقین دلانے کی کوئی تو وجہ تو ہونا چاہیے۔

نظریات کا اختلاف رکھنے کے باوجود صحافتی اداروں میں کام کرنے والوں کو کم ازکم کسی ایجنڈے پر اکٹھا کرنا شاید اتنی بڑی سائنس نہیں کہ اس پر عمل نہ کیا جا سکے لیکن جن دوستوں کا کام ہی تقسیم کرکے اپنی بالادستی بر قرار رکھنا ہو وہ کب "اِکٹھ” کا رسک لے سکتے ہیں۔ اُن کی بقا تو ہے ہی ”ایجنٹو کریسی” میں ، ویسے مظفرآباد کے آزادی چوک میں بھی ایجنٹو کریسی کا نشان اس کی تصدیق کر رہا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے