کراچی اور لاہور کے ”نوید ملک“

تنخواہوں کے محتاج مجھ جیسے کمی کمین سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ”انوسٹمنٹ فنڈ“ نامی شے کیا بلا ہے۔ اسے بنانے،چلانے اور دنیا کے بہت سارے ملکوں میں مختلف النوع کاروباری اداروں پر حتمی کنٹرول حاصل کرنے کے لئے کیا چکر چلانا پڑتے ہیں۔ ایسی کمپنیوں کے بانی چند بہت ہی ذہین لوگ کیوں ہوتے ہیں۔ ان میں کیا کشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوئے کئی بااختیار سیاست دان بیک وقت ان سے اچھے تعلقات بنائے رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ”وڈھے لوکاں دیا وڈھیاں گلاں“کہتے ہم رزق کے محتاج اپنی نبیڑتوں والی مشقت میں مصروف رہتے ہیں۔

بہرحال آج کی گلوبل ہوئی دُنیا میں چند ”انوسٹمنٹ فنڈ“ کہلاتے ادارے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی اداروں میں سے ایک پاکستانی -عارف نقوی- کا بنایا ہوا ”ابراج“ گروپ بھی ہے۔ کراچی شہر کو بجلی فراہم کرنے والی کے- الیکٹرک کمپنی بھی یہ گروپ چلاتا ہے۔ یہ گروپ اب کئی وجوہات کی بنا پر دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

جب ”ابراج“ ایسے گروپ دیوالیہ کی سمت پھسلنا شروع ہوجائیں تو کاروباری دنیا پر نظر رکھنے والے ”وال سٹریٹ جرنل“ جیسے اخبار ”تفتیشی کہانیاں“ لکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ 1990کی دہائی میں ایک اور پاکستانی -آغا حسن عابدی- کے بنائے بی سی سی آئی بینک کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔

آغا صاحب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بینکوں کو قومیا لینے کے بعد متحدہ عرب امارات چلے گئے تھے۔ وہاں کے حکمران خاندان کی شفقت وسرپرستی کی بدولت دن دگنی اور رات چوگنی محنت کرتے ہوئے دنیا کے کامیاب ترین بینکاروں میں شمار ہونا شروع ہوگئے۔ امریکہ کا ایک سابق صدر -جمی کارٹر- بھی ان کا دوست رہا۔رسائی ان کی پاکستان کے ہرنام والے سیاستدان اور حکمرانِ وقت کے ساتھ رہی۔ ہم پاکستانیوں کو گماں ہے کہ عالمی بینکاری کے نظام پر قابض صہیونی ایک نیک طینت اور پاک باز مسلمان کے اُن کے دھندے میں درآنے سے گھبراگئے۔ اپنے اجارہ کو برقرار رکھنے کے لئے وہ آغا صاحب کی ایمپائرتباہ کرنے پر تل گئے اور بالآخر ان کے بینک کو تباہ کرکے چھوڑا۔

”وال سٹریٹ جرنل“ جیسے اخبارات نے ”معتبر ذرائع“ سے اگرچہ بی سی سی آئی کے بارے میں کہانیاں ایسی بنائیں جن میں آغا صاحب کے بنائے بینک کو منشیات کی فروخت سے کمائے امریکی ڈالروں کو ”لانڈر“ کرنے کامرتکب ٹھہرایا گیا۔ حکومتوں کو غیر قانونی ذرائع سے جدید اسلحہ خریدنے میں مالی معاونت پہنچانے کا الزام بھی اس بینک پر لگا۔پاکستان کے ساتھ اس بینک کے تعلق کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں بھی اُچھالی گئیں جن کا تذکرہ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ ویسے بھی یہ بینک اب مرکھپ چکا ہے۔ گڑھے مردے اکھاڑنے سے کیا حاصل۔ اخباری کالم ویسے بھی تاریخ نویسی کے لئے مناسب پلیٹ فارم نہیں۔ بس اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ایک آغا حسن عابدی صاحب ہوا کرتے تھے۔ دور حاضر میں عارف نقوی صاحب بھی ویسی ہی باکمال شخصیت دِکھ رہے ہیں۔ ان کا بنایاگروپ ان دنوں ”وال سٹریٹ جرنل“ کے تفتیشی صحافیوں کی زد میں آیا ہوا ہے۔ اللہ خیر کرے۔

بدھ کے روز اس اخبار میں ایک خبر چھپی ہے۔ اس میں کراچی کے کسی نوید ملک کے حوالے سے شہباز شریف صاحب کا ذکر بھی ہوا ہے۔ عمران حکومت کے معاشی معاملات پر ترجمان بنائے فرخ سلیم صاحب مذکورہ خبر کو بہت چاﺅ سے Retweetکررہے ہیں۔ اس خبر کودیکھتے ہوئے شریف خاندان کے کئی مخالفین کو قوی امید ہے کہ اس کے خلاف ”’ایک اور پانامہ“ ہوگیا ہے۔ میں اگرچہ منتظر ہوں کہ ”کس کے گھر جائے گا….“ابراج فسانہ کراچی کے نوید ملک کے بعد۔

کراچی کے نوید ملک کا ذکر چھڑا تو لاہور کے نوید ملک یاد آگئے۔ موصوف لاہور کے ایک متمول خاندان کے فرزندتھے۔ پیپلزپارٹی کے بانی اراکین میں شامل ہوئے۔ جلد ہی لیکن بھٹو صاحب سے ناراض ہوگئے۔ محفل باز آدمی تھے۔ ہر وقت سوٹ ٹائی میں ملبوس مہمان نواز ۔ہالی ووڈ کے اداکاروںکی طرح ڈرامائی انداز میں گفتگو کرتے اور دل موہ لیتے۔ جنرل ضیاءکے آخری ایام میں انہوں نے ”پاکستان سولیڈیرٹی فرنٹ“ کے نام سے ایک جماعت بنالی تھی۔ وہ اس جماعت کے واحد رکن ہونے کے علاوہ اس کے صدر،جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات بھی تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کی ”چلم بھرنا“ اپنا شعاربنایا اور ایم آر ڈی کے ”صف اوّل“ کے رہ نماﺅں میں شمار ہونا شروع ہوگئے۔

1988میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت آئی تو ”نوید ملک“ کی بطور مشیر تعیناتی کا حکم ہوا۔ اس وقت کے وزیر اعظم آفس میں بیٹھے کسی ”جیالے“ نے فرض کرلیا کہ بی بی صاحبہ نے لاہور کے نوید ملک کو نوازنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور کے نوید ملک کو نوٹیفیکیشن پہنچادیا گیا۔ وہ ”چارج“ لینے پہنچے تو معلوم ہواکہ مشیر تو کسی اور ”نوید ملک“ کو بنایا گیا ہے۔ لاہوری نوید ملک کی بہت سبکی ہوئی۔ اناپرست آدمی تھے۔ باغی ہوگئے۔ محترمہ کی پہلی حکومت کے بارے میں دھڑلے سے کرپشن کہانیاں پھیلاکر اخبارات کے صفحہ اوّل پر نمایاں جگہ بنانا شروع ہوگئے۔ اسی حوالے سے نواز شریف صاحب سے قربت بھی ہوگئی۔

1990میں حکومت بنانے کے بعد انہوں نے لاہوری ”نوید ملک“ کو وزیر اعظم کامشیر بناہی دیا۔ ملک صاحب مگر متلون مزاج آدمی تھے۔ نواز شریف کے ساتھ بھی چل نہ پائے۔ دوبارہ نوبزادہ نصراللہ خان صاحب کے ساتھ مل کر ایک اور حکومت کو ”اُلٹانے“ میں مصروف ہوگئے۔

کراچی والے نوید ملک لیکن میرے لئے طلسماتی شخصیت ہی رہے۔ان سے تعارف یا ہاتھ ملانے کا شرف آج تک نصیب نہیں ہوپایا ہے۔ ان کی ساحری شخصیت میں یقینا کوئی کمال ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے 1988میں اقتدار سنبھالتے ہی انہیں اپنا مشیر تعینات کیا اور اب ”وال سٹریٹ جرنل“ کے توسط سے خبر یہ مل رہی ہے کہ دوستی ان کی شہباز صاحب کے ساتھ بھی گہری ہے اور وہ ”ابراج“ گروپ کے ساتھ Dealsوغیرہ کرتے رہے ہیں۔ سچی بات ہے۔”’وڈھے لوکاں دیاں وڈھیاں گلاں۔“

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے