ہاں میں عورت ہوں مگر میں کچھ بھی کرسکتی ہوں!

ہاں میں عورت ہوں مگر میں یہ سب بھی کرسکتی ہوں! یہ اُن تمام لوگوں کے سوالوں کا جواب ہے، جنہیں جب کسی خاتون کو کوئی ‘انوکھا’ کام کرتے دیکھ کر تعجب کے اظہار سے چین نہیں پڑتا تو جذبات کی رو میں براہ ست سوال داغ دیتے ہیں کہ ‘کیا آپ بھی ایسے شوق رکھتی ہیں؟’، ‘اپنی عمر دیکھیں اور شوق دیکھیں!’ وغیرہ وغیرہ۔

ان تمام سوالوں کی وجہ بہت سادہ سی ہے۔ ہمارامعاشرہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک عورت کو کُھلی چھوٹ دیتا ہے کہ وہ عام رواج کے مطابق پڑھے لکھے، نوکری کرنا چاہتی ہے تو وہ بھی کرلے لیکن بس سب کو خوش رکھے۔ ہاں شادی ضرور کرے اور ہنسی خوشی زندگی گزارے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔

اس سے آگے اگر کسی لڑکی نے کچھ ‘ایسا ویسا’، ‘الٹا سیدھا’، ‘اوپر نیچے’ کچھ سوچا تو ٹھیک نہیں اور چونکہ معاشرے کی بڑی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے، لہذا ہر سوال، ہر بات کا خیال بس انہیں ہی رکھنا ہے۔

‘سر پھروں’ کی تو ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ ہی نہیں۔ چلیں ‘سر پھرا آدمی’ پھر بھی چل سکتا ہے لیکن سر پھرا ہونے کا ثبوت اگر کوئی خاتون یا لڑکی دے بیٹھے تو وہ تو کسی طور تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ سننے کو ملے گا، ‘آئے ہائے، لڑکی ہو کر یہ کام’، ‘ذرا شرم نہیں آتی’، ‘یہ بھی کوئی عورتوں کے کرنے کے کام ہیں بھلا’، ‘ایسا مغرب میں ہوتا ہوگا، یہاں لڑکی یہ کام نہیں کرسکتی’ وغیرہ وغیرہ۔

مجھے اتنی لمبی تمہید اس لیے باندھنی پڑی کیونکہ میں نے جب بھی کچھ ‘ذرا ہٹ کے’ کرنے کا سوچا تو بس سوچتی ہی رہ گئی کیونکہ یہ میرا مشاہدہ ہے کہ جن خواتین نے روایتی اندازِ فکر کو چھوڑ کر کچھ نیا کرنے کی ٹھانی تو انہیں بس یہی سننے کو ملا کہ ‘اماں باوا نے صحیح تربیت نہیں کی، دیکھ لو کیسے کیسے کام کر رہی ہے’۔ تاہم میرا خیال ہے کہ کچھ الگ یا مختلف کرنے میں صرف سامنے والے کی سوچ کا ہی عمل دخل ہے، اُس کام میں ہرگز کوئی برائی نہیں ہوتی۔

میں ایک میچور، پراعتماد، ریسرچ اسکالر اور روایت پسند خاتون ہوں، جو زیادہ تر عبایا میں ملبوس رہتی ہے اور اقدار کو عزت دینا اپنا فرض سمجھتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ میں اپنے کچھ شوق بھی پورے کرنا چاہتی ہوں۔ روزانہ کی روٹین میں میری ‘نو میک اپ’ لُک ہی میری پہچان ہے۔ میری منطق ہے کہ جب مرد حضرات منہ دھو کر اور کبھی کبھی بغیر منہ دھوئے بھی پورا دن گزار سکتے ہیں تو میں کیوں ‘نیچرل بیوٹی’ بن کر نہ گھوموں۔

اپنے اسی امیج کے ساتھ جب میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ میں پیرا گلائیڈنگ اور پیرا ماؤنٹئنگ پر جانے کے لیے بےقرار ہوں تو لوگ اوپر سے نیچے تک مجھے یوں دیکھتے ہیں جیسے میں چاند پر یا مریخ پر جانے کی باتیں کر رہی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب میں اسکوبا ڈائیونگ پر جانے کی تیاری کر رہی تھی تو لوگ حیران کن نظروں سے دیکھا کرتے تھے کہ ‘اپنی عمر دیکھو اور حرکتیں دیکھو’، اب یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی، عمر کا اس سے کیا لینا دینا؟

ایک بار یونہی میں نے ذکر کیا کہ چلو ‘سندر بند کا شیر’ نہیں دیکھ سکتے تو اپنے ملک میں ہی نکل جائیں۔ اس کے بعد ہم اکثر لوگوں سے پوچھتے پائے گئے کہ کیا کوئی کیر تھر یا ہنگول نیشنل پارک جانے کا پلان بنا رہا ہے تو مجھے ضرور شامل کرے۔ خیر ابھی تو لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ میں جنگل میں شکار کا شوق بھی رکھتی ہوں اور کبھی موقع ملا تو افریقہ کے جنگل کی سفاری میری لسٹ میں شامل ہے۔

ایک رپورٹ بنانے کے سلسلے میں جب میں ایرانی ہوٹلوں کی خاک چھانتی پھر رہی تھی تو ایک روایتی پولیس والے فرما رہے تھے ‘باجی ہماری بھی تصویر لو’۔

ہاں مجھے فیلڈ رپورٹنگ کا بھی شوق ہے اور اتنا اعتماد بھی ہے کہ کسی بھی کہانی کی تلاش میں اکیلے جاسکتی ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں وہ پہلی صحافی تھی جس نے ‘کراچی کا قدیم قبرستان، فنکاروں کی مہارت کا انمول نمونہ’ کے عنوان سے سلاوٹ برادری کے قبرستان پر رپورٹ تیار کی اور پرانے قبرستان کی اعلیٰ قبروں پر فنکاری دیکھی۔ بہت سوں نے پوچھا کہ ‘کیا وہاں خود گئی تھیں؟’ میں نے فخر سے بتایا کہ ‘ہاں خود گئی تھی، لوگوں سے گفتگو کی، تصاویر لیں۔آپ بھی جائیں، وہاں قبرستان کے ساتھ ساتھ آرٹ کے نمونے بکھرے پڑے ہیں’۔

میں کام کے سلسلے میں اپنا کیمرا اٹھا کر کہیں بھی اکیلی نکل سکتی ہوں۔ ہمارے روایتی طرز فکر رکھنے والے لوگ جب ایک عبایا پہنی خاتون کو تصاویر لیتے ہوئے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں تو میں انہیں یکسر نظر انداز کر دیتی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ‘ایرانی کیفے’ پر رپورٹ بنانے کے سلسلے میں جب میں ایرانی ہوٹلوں کی خاک چھانتی پھر رہی تھی تو ایک روایتی پولیس والے فرما رہے تھے ‘باجی ہماری بھی تصویر لو’۔ کچھ موضوعات کے سلسلے میں سمجھا جاتا کہ اس پر کوئی خاتون کام نہیں کر سکتی یا اسے نہیں کرنا چاہیے، مثال کے طور پر خواجہ سراؤں کے مسائل، بچوں کی جیل یا کرائم اسٹوریز کوئی خاتون نہیں کرسکتی، لیکن میرا خیال اس سے بالکل مختلف ہے۔

میں اور میری ایک ہم خیال دوست جب کراچی کی پرانی اور مخدوش ہوتی ہوئی عمارتوں کی تلاش میں نکلے اور جگہ جگہ کی خاک چھانتے پھر رہے تھے تو اس طرح کے کئی جملے سننے کو ملے کہ ‘انہیں دیکھو یہ نکل پڑتی ہیں’۔ لیکن ان تمام غلط روایات کے امین لوگوں کو ہم سمجھ دار خواتین نظر انداز کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرنا ہماری مجبوری نہیں بلکہ کام اور وقت کا تقاضا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر ہر عورت ‘می ٹو’ کی تحریک میں شامل ہوجائے تو کیا کوئی بچ سکے گا؟ یہاں کیا بس کیا رکشہ، کیا اسٹاپ کیا بازار، کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہراساں کرنے کے چھوٹے بڑے واقعات نہ ہوتے ہوں۔

جب میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ میں پیرا گلائیڈنگ اور پیرا ماؤنٹئنگ پر جانے کے لیے بےقرار ہوں تو لوگ اوپر سے نیچے تک مجھے یوں دیکھتے ہیں جیسے میں چاند پر یا مریخ پر جانے کی باتیں کر رہی ہوں
ہاں ٹھیک ہے کہ پاکستانی معاشرہ روایت پسند ہے اور ہماری اکثر باتیں جذبات سے بھری اور روایتی سوچ کی عکاس ہوتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جینا ہی چھوڑ دیا جائے، شوق ہی پس پشت ڈال دیئے جائیں۔

روایات کا امین ہونا اچھی بات ہے۔ یقیناً اچھی روایات ہمیں بہتر زندگی اور بہتر سوچ دیتی ہیں۔ ہمارے خطے کی ہزاروں خوشیاں روایتی تہواروں، پکوانوں، موسموں اور رسم و رواج سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن ہمارے معاشرے کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وقت کی نمو ایک ابدی حقیقت ہے۔ خود کو زمانے کے ساتھ ڈھالنا ہی اصل خوبی ہے، تو جناب ابھی تو ایک طویل فہرست ہے، ان سب کاموں کی، جنہیں میں زندگی میں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی مقام پر کرنا چاہتی ہوں۔

ابھی کتنے ہی ایسے موضوعات ہیں، کتنی ہی اَن دیکھی اور اَن سنی کہانیاں ہیں، جو ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں، جنہیں میں ضبطِ تحریر میں لانا چاہتی ہوں اور اس کے لیے میں ‘ایسے ویسے’، ‘الٹے سیدھے’کام ضرور کروں گی، کیونکہ یہ زندگی محض ایک بات ہی ملتی ہے اور وہ زندگی ہی کیا جس میں اپنے سب شوق پورے نہ کیے جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے